گلگت بلتستان حلقہ نمبر9 سکردو 3 کو کئی حوالوں سے انتہائی اہم اور دلچسپ حیثیت حاصل ہے۔ یہ حلقہ ضلع سکردو اور ضلع کھرمنگ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے اس حلقے کا رقبہ دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل علاقہ گلتری، جو انتظامی طور پر سب ڈویژن ہے، کو بھی اپنے دامن میں سمویا ہوا ہے۔ وادی گلتری بھی گلگت بلتستان کے متعدد وادیوں کی طرح خوبصورتی اور قدرتی حسن میں کوئی نظیر نہیں رکھتا ہے، مگر دیگر کئی اہم وادیوں کی طرح یہ وادی بھی بنیادی سہولیات سے محروم ایک وادی ہے۔ نامساعد موسمی حالات کی وجہ سے اس وادی کے اکثریتی علاقے اور محلوں سے لوگ ہجرت کرکے سکردو اور دیگر شہروں میں آباد ہوگئے ہیں، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حکومت اور سرکار کی جانب سے یہ علاقہ صرف توجہ کا منتظر رہا ہے حاصل نہیں کرسکا ہے۔ وادی گلتری حلقہ نمبر9 سکردو 3کی سب سے بڑی وادی ہے تاہم بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ صرف مارخور اور برفانی چیتا جیسے جانور ہی اس بستی میں بسیرا کرسکتے ہیں کیونکہ درجہ حرارت منفی سے بھی کئی درجے گرجاتا ہے۔ اس علاقے میں آج بھی جدید دنیا نہیں پہنچ سکی ہے جس کی وجہ سے گھریلو اور زریعہ معاش کی سرگرمیاں اب بھی روایتی طریقے سے سرانجام پاتی ہیں۔
کارگل کی جنگ کے دوران صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جنرل پرویز مشرف، جو کہ آرمی چیف تھے، 28مارچ 1999کو ہیلی کاپٹر میں اس مقام پر اتر گئے تھے جہاں سے سرحدی علاقوں کا دورہ کرکے واپس آگئے۔ایک روایت کے مطابق پاکستان کی بلند ترین پوسٹ آفس بھی گلتری میں قائم ہے۔ گلتری کا علاقہ پہلے ضلع استور کے ساتھ تھا بعد میں منتظمین نے اس کو سکردو میں شامل کرلیا ہے۔
حلقہ 9سکردو3 گلتری کے علاوہ مشہور مقام ’گول‘، کتی شو، مہدی آباد، حسین آباد، غاسنگ، سرمیک، چھٹ پا، غوڑو، تھورو، نر ودیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی مادری زبان بلتی اور شینا ہے۔
حلقہ 9سکردو3 کی تاریخ فدا محمد ناشاد صاحب کے گرد ہی گھومتی ہے۔ فدا محمد ناشاد اس وقت گلگت بلتستان کے سب سے دلچسپ سیاستدان ہیں جو کہ بیک وقت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ اور سپورٹ پر جی بی اسمبلی کے سپیکر بھی ہیں اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر آمدہ انتخابات کے لئے امیدوار بھی ہیں۔ فدا محمد ناشاد صاحب کو تحریک انصاف کی تاریخ بالخصوص تحریک انصاف جی بی کی تاریخ میں یہ انوکھا اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلے ٹکٹ حاصل کرکے بعد میں تحریک انصاف میں شمولیت کرلی ہے۔
1994 میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں اس حلقے سے فدا محمد ناشاد پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر جیت گئے۔ 1999کے انتخابات میں اس حلقے سے ایک مرتبہ پھر فدا محمد ناشاد تحریک جعفریہ (موجودہ اسلامی تحریک) کے ٹکٹ پر جیت گئے بعد میں ن لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹو (اس وقت ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کا عہدہ وزیراعلیٰ کے برابر تھا)بن گئے۔ 2004کے انتخابات میں ضلع سکردو کے 6میں سے 5نشستوں پر مسلم لیگ ق کو فتح نصیب ہوگئی جس میں ایک فدا محمد ناشاد بھی تھا۔ 2009کے انتخابات میں پہلی مرتبہ فدا محمد ناشاد پیپلزپارٹی کے امیدوار وزیر شکیل کے ہاتھوں سے شکست کھا گئے، 2009 کے انتخابات میں فدا محمد ناشاد مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے تھے۔ قسمت کا کھیل کہ پہلی مرتبہ فدا محمد ناشاد کو شکست دینے والا وزیر شکیل کچھ عرصہ وزیر قانون رہے اور بعد میں اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا اور فدا محمد ناشاد ضمنی انتخابات میں دوبارہ اسمبلی پہنچ گئے۔
2009کے انتخابات میں اس حلقے سے کل 23524ووٹر رجسٹر ہوئے جن میں 11294خواتین اور 12230مرد تھے۔ انتخابی معرکے میں کل تین امیدواروں نے حصہ لیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیر شکیل احمد کو میدان میں اتارا، پاکستان مسلم لیگ ن نے فدا محمد ناشاد کو نامزد کردیا جبکہ غلام رضا متحدہ قومی موومنٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ غلام رضا صرف 142ووٹ لے سکے، جبکہ فدا محمد ناشاد 3883ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ وزیر شکیل احمد 7414ووٹوں کی بھاری اکثریت سے جیت گئے اور مہدی شاہ کابینہ میں وزیر قانون بن گئے۔بعد ازاں وزیر شکیل احمد نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا اور چیف کورٹ گلگت بلتستان کے جسٹس عہدے پر فائز ہوگئے جس کے بعد ناشاد صاحب کو ایک مرتبہ پھر اسمبلی پہنچنے کا راستہ صاف ہوگیا، فدا محمد ناشاد حزب اختلاف کی نشستوں پر براجمان رہے۔2009کے انتخابات میں 11439ووٹ کاسٹ ہوگئے جس کا شرح 48.6 بنتا ہے۔
2015کے انتخابات میں اس حلقے سے 20580ووٹر رجسٹر ہوگئے جن میں خواتین کی تعداد 9510جبکہ مرد ووٹروں کی تعداد 11070تھی۔ 2015کے انتخابات اس حلقے سے 6امیدواروں نے حصہ لیا۔ آل پاکستان مسلم لیگ نے سید عباس الموسوی، پاکستان تحریک انصاف نے علی کاظم، اور اسلامی تحریک نے محمد حسین کو ٹکٹ دیدیا جو کہ 100کے ہندسے تک نہیں پہنچ پائے۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر غلام رضا حیدری بھی صرف 462ووٹ لے سکے۔ مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار وزیر محمد نے اس حلقے سے فدا محمد ناشاد کو ٹف ٹائم دیدیا۔ مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار نے 5730ووٹ حاصل کئے جبکہ فدا محمد ناشاد 6201ووٹ لیکر جیت گئے۔ انتخابات میں کل 12468ووٹ پڑے جو کہ مجموعی ووٹ کا 60.5 فیصد تھا۔ فدا محمد ناشاد اس حلقے سے جیتنے کے بعد بلامقابلہ سپیکر منتخب ہوگئے جو کہ اگلی اسمبلی کے وجود میں آنے اور اگلے سپیکر کے انتخابات تک اس عہدے پر رہیں گے۔ 24جون کو اسمبلی تحلیل کردی گئی اور دوماہ بعد 28 ستمبر کو تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران چپ کے سے ٹکٹ لیکر آگئے جس پر تحریک انصاف کا ہر کارکن اور عہدیدار ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔
آمدہ انتخابات کے لئے 25562ووٹر رجسٹرڈہیں جن میں 11569خواتین اور 13993مرد رجسٹرڈ ہیں۔کل 55پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 12 مرددوں کے لئے اور 11خواتین کے لئے الگ مختص کئے گئے ہیں جبکہ 32پولنگ سٹیشن مخلوط ہیں۔انتخابی میدان میں صرف 4امیدواروں نے حصہ لیا ہے جو کہ گلگت بلتستان کا سب سے کم امیدواروں کا حلقہ ہے۔ حسین آباد سکردو سے تعلق رکھنے والے فدا محمد ناشاد نے تحریک انصاف کا ٹکٹ لیا ہے۔ گمبہ گول سے تعلق رکھنے والے وزیر وقار علی پیپلزپارٹی کا تیر حاصل کرلیا ہے جبکہ کھرمنگ مہدی آباد کے وزیر محمد سلیم تالہ اور تھورگو بالا سکردو کے منظور احمد ہتھوڑے کے انتخابی نشان پر آزاد حیثیت میں لڑرہے ہیں۔ دلچسپ طور پر سب ڈویژن گلتری سے کوئی بھی امیدوار نہیں ہے جبکہ گلتری کا ووٹ بھی حلقے میں سب سے زیادہ ہے جو کہ پانچ ہزار سے زائد ہے اور چونکہ کوئی امیدوار بھی اس علاقے سے نہیں ہے تو اس ووٹ کو فیصلہ کن قرار دیا جاسکتا ہے۔