حقیقت تک پہنچنے کا نسخہ

انٹرنیٹ پر ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا، لیکچر دینے والا یہ سمجھانے کی کوشش کر رہاتھا کہ کسی بھی معاملے کی حقیقت معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے؟ اُس مردِ عاقل نے ایک دلچسپ مثال دی۔ اُس نے کہا کہ بچپن سے ہمیں سانتا کلاز کے قصے سنائے جاتے ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سانتا کلاز کرسمس کی رات بچوں کو تحائف دینے آتا ہے، اور پھر اگلی صبح سچ مچ وہ تحائف ہمیں تکیے کے نیچے مل جاتے ہیں، فلموں، ڈراموں اور کہانیوں میں سانتا کلاز کا ذکر ملتا ہے، کرسمس کے دنوں میں بازاروں اور شاپنگ مالز میں سانتا کلاز سے ہماری ملاقات بھی ہو جاتی ہے، ایک سفید داڑھی مونچھ والا بابا جس نے سرخ پھندنے والے ٹوپی پہنی ہوتی ہے ،مسکرا کر بچوں سے ملتا ہے،ہم اسے سانتا کلاز مانتے ہیں، بچے اس کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں،

تصویریں بنواتے ہیں اور پھر بڑی خوشی سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے سانتا کو دیکھا۔ لیکچر دینے والے نے سوال پوچھا کہ کیا اِن تمام باتوں سے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ سانتا کلاز سچ مچ وجود رکھتا ہے؟ اُس نے کہا کہ اگر ہم اپنے ظاہری تجربے کو بنیاد بنائیں تو پھر ہمیں سانتا کا وجود ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے، آخر تمام ثبوت او ر شواہد پکار پکار کر گواہی دے رہے ہیں کہ سانتا کلاز وجود رکھتا ہے جبکہ حقیقت ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سانتا محض قصے کہانیوں کا کردار ہے جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پہنچ کر اُس مردِ دانا نے کہاکہ ایسا تصور یا دعویٰ جو بظاہر ٹھوس شواہد کے ساتھ سائنسی انداز میں پیش کیا جائے مگر اصل میںوہ سائنس یا عقل کے کڑے معیار پر پورا نہ اترتا ہو، Pseudoscienceکہلاتا ہے۔

بیسویں صدی کے ایک اچھوتے فلسفی کارل پاپر نے اِس تصور پر کافی کچھ لکھا ہے۔ پاپر کا کہنا تھاکہ اگر آپ کسی معاملے کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پہلے اسے رد کرکے دیکھیں، اسی صورت میں آپ کو اُس کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے کے بارے میں پتا چلے گا۔اگر ہم اِس کلیے کو سانتا کلاز والی مثال پر منطبق کرکے دیکھیں توپہلے ہمیں سانتا کے وجود سے انکار کرنا ہوگا، صرف اسی صورت میں ہمیں سانتا کے غیر حقیقی ہونے کے بارے میں پتا چلے گا۔پاپر کا کہنا تھاکہ سائنسی طریقہ کار میں ہر دعوے اور تھیوری کو رد کرنے کے بعد اُس کی پڑتال کی جاتی ہے جبکہ سوڈو سائنس ہر بات کو عمومی انداز میں تسلیم کر لیتی ہے۔

جو باتیں ہمیں پسند ہوتی ہیں یا جن پر ہم یقین کرنا چاہتے ہیں، اُن کے بارے میں کچے پکے شواہد اکٹھے کرکے ہم مطمئن ہو جاتے ہیں، مثلا ً اگر مجھے سگار پینا پسند ہے تو میں خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لوں گا کہ سگریٹ کے مقابلے میں سگار زیادہ مضرِ صحت نہیں کیونکہ اِس میں کاغذ استعمال نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر میں علمِ نجوم پر یقین رکھنا چاہوں تو اس کے حق میں ’ثبوت ‘اکٹھے کر لوں گا کہ فلاں موقع پر، جب میں نے ایک نجومی کو ہاتھ دکھایا تھا، تواُس نے کہا تھا کہ عنقریب آپ بیرونِ ملک سفر کریں گے اور پھر یہ بات درست ثابت ہوئی تھی۔ ایسی باتیں تسلیم کرنے کو ہی سوڈو سائنس کہتے ہیں۔

کارل پاپر کہتا ہے کہ جتنی جلد ہم اپنے غلط اعتقادات کو جان لیں اُتنا ہی اچھا ہے کیونکہ اسی صورت میں ہم سچائی سے قریب تر ہوں گے،کسی بھی دعوے کی حقیقت جاننے کا معیار صرف یہ ہونا چاہیے کہ کیا اسے کسی بھی طریقے سے رد کیا جا سکتا ہے، سو اگر کوئی بھی تھیوری کسی ایک طریقے سے بھی رد کی جا سکتی ہے تو یہ اُس تھیوری کے غلط ہونے کے بارے میں کافی ہے۔اور اگر کسی تھیوری کو پرکھا ہی نہیں جا سکتا، اُس کی حقیقت کو جانچنا ممکن ہی نہیں تو ایسی تھیوری سائنسی نہیں کہلائی جا سکتی۔ پاپر کہتا ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے کہ جس بات پر آ پ کا اعتقاد تھا وہ درست ثابت نہیں ہو سکی تو پھر سائنسی سوچ اِس بات کاتقاضا کرتی ہے کہ آپ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائیں، حقیقت جاننے کے باوجود کسی غلط بات پر یقین قائم رکھنا غیر سائنسی اپروچ ہے، دوسرے الفاظ میں جسے حماقت کہتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو کارل پاپر کا معیار بے حد کڑا ہے، اگر ہم ہر بات کو پہلے رد کریں اور پھر اِس کا ناقابل تردید ثبوت تلاش کرنے میں جُت جائیں تو زندگی کافی پیچیدہ اور مخولیہ ہو سکتی ہے۔ مگر زندگی کے بے شمار معاملات ایسے ہیں جنہیں ہم نے بغیر کسی خاص تحقیق کے من و عن تسلیم کیا ہوا ہے، کسی کا تعلق نظریے سے ہے اور کسی کا ہمارے اعتقادات سے، ہم نے اِن معاملات کوکبھی کسی کڑے معیار پر پرکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ ہمیں ایک اندرونی خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ بات ہی غلط نکل آئی یا وہ نظریہ ہی باطل ثابت ہو گیاجسے برسوں سے ہم درست اور سچ مانتے آئے ہیںتو ہماری پہاڑ جیسی انا کو ٹھیس پہنچے گی۔ پروپیگنڈا کے اِس زمانے میں سچ اور جھوٹ کی تمیز بے حد مشکل ہو چکی ہے اور صحیح اور غلط بات کا پتا چلانا قریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ ایسے میں سچائی او ر حقیقت تک اسی صورت میں پہنچا جا سکتا ہے اگر ہم کارل پاپر والا کڑا معیار اپنا لیں اور ہر بات کو یوں پرکھیں جیسے وہ غلط ہے اور پھر اس سے متعلق ثبوت تلاش کریں۔جس بات پر آپ کو یقین ہو سب سے پہلے اسی بات کو اِس کلیے کے تحت پر کھ کر دیکھیں، حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔

کالم کی دُم: کارل پاپر کا یہ نسخہ اُن نوجوانوں کے لیے نہیں جو کسی حسینہ کی زلف کے اسیر ہیں، ایسے کسی نوجوان نے اگر اپنی محبوبہ سے یہ کہہ دیا کہ جاؤ میں نہیں مانتا تم مجھ سے محبت کرتی ہو تاوقتیکہ تم اپنی محبت کا ناقابلِ تردید ثبوت نہ لے آؤ تو نتائج کی ذمہ داری نوجوان پر ہوگی، ادارہ ہذا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا۔ یاد رہے کہ اِس قسم کے ناز نخرے کرنے کا حق صرف خواتین کو حاصل ہے، ناہنجار مردوں کو نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے