مستقل حل کی تلاش

گستاخانہ خاکوں پر عوام سے لے کر سینٹ، اسمبلیوں تک اضطراب و احتجاج۔ مذمتی قراردادیں، دفتر خارجہ میں فرانسیسی سفیر کی طلبی، ارکان اسمبلی کا فرانس سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ، فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ، OIC کا اجلاس بلانے کی تجویز، اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کا خیال و دیگر اقدامات۔

ہم ہمیشہ یہی کچھ کرتے ہیں، یہی کچھ کرسکتے ہیں لیکن کیا ضروری ہے کہ صرف یہی کچھ کرتے رہیں؟ چند بدبختوں نے اسے معمول بنا رکھا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ہارون الرشید، سلطان صلاح الدین ایوبی، زنگی، امیر تیمور، سلطنت عثمانیہ کے سلمان عالیشان کے ادوار میں بھی کوئی اس کی جرأت کرسکتا تھا؟ ترک صدر طیب اردوان نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’اپنی اوقات میں رہو، ہماری کتاب فاشزم یا نازی ازم نہیں، سماجی انصاف سکھاتی ہے‘‘۔

ترک صدر نے کمال بات کی کہ ہم ان مکروہ ترین حرکات کے لئے ’’توہین رسالت‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ اصل میں یہ ’’توہین قرآن‘‘ ہے اسی لئے ’’توہین رسول نہیں‘‘ ’’توہین رسالت‘‘ کہا جاتا ہے۔ بات ایک ہی ہے لیکن بنیادی سوال پھر وہی کہ اس پاگل پن کا مستقل علاج کیا ہے؟

اپنے لئے نہ سہی، ماں باپ، آل اولاد سے بھی کہیں زیادہ محبوب ہستی کے لئے عالم اسلام کو اجتماعی طور پر غور کرنا اور کم از کم اس ایک ایشو پر تو متفق و متحد ہونا ہوگا۔ طیب اردوان ہوں یا عمران خان، آل سعود ہوں یا ایران کے حکمران… انہیں اس پاکیزہ مہم کا آغاز کرنا ہوگا کہ سگے بھائی آپس میں دست و گریبان بھی ہوں تو باپ کی توہین پر یک جا اور یک جان ہو جاتے ہیں۔چند روز پہلے ہی ٹرمپ کا یہ بیان تھا کہ نہ صرف سوڈان کے بھی اسرائیل سے تعلقات بلکہ مزید 5عرب ممالک بھی تیار تو ان سب کو ان کے زمینی حقائق مبارک لیکن مسلمان کے لئے سب سے بڑی زمینی حقیقت اپنی کتاب اور صاحب کتاب کی حرمت و عزت ہے۔

آخری کتاب میں موجود ہے۔’’بیشک تم غالب آئوگے اگر تم مومن ہو‘‘۔ ’’غالب‘‘ اس کا قریب ترین ترجمہ ہے، دوسرا کوئی لفظ ’’اردو‘‘ میں موجود نہیں اور غالب ہونے کی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔اعلیٰ ترین کردار کی اولیتّ فیصلہ کن وار کی اہلیت یہ غلط فہمی ہے کہ ہتھیار کے زور پر پھیلے، حقیقت ہے کہ کردار کا کردار فیصلہ کن ہے۔

اور کچھ نہیں کرسکتے تو عالم اسلام اتنا تو کرہی سکتا ہے کہ اپنا کوئی ’’تھنک ٹینک‘‘ بنائے اور میڈیا کو تخلیقی انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے اقوام عالم کو بتائے کہ وہ کون تھے؟ کیسے تھے؟ پیغام کیا تھا؟ میرا ایمان ہے پتھر بھی پگھل جائیں گے۔

ابھی چند ماہ بھی نہیں گزرے جب ہمارے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کسی یورپی ملک (نام بھول رہا ہوں) کے دو ایسے ارکان نے اسلام قبول کرلیا جو مجھ جیسوں کو دیکھ کر پارلیمینٹ میں اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کی وجہ سے مشہور تھے۔

پھر ان دونوں نے اسلام کے خلاف کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جس کے لئے قرآن پاک پڑھنا ضروری تھا….. پڑھا تو سر گھوم گئے۔ پھر یہ سوچ کر سیرت طیبہ پر لکھی گئی کتابیں کھنگالنے بیٹھ گئے کہ شاید وہاں سے ’’کارآمد‘‘ مواد مل سکے، لیکن جیسے جیسے پڑھتے گئے، نور اور خوشبو کے سمندر میں غرق ہوتے چلے گئے اور کنارے لگے تو اسلام قبول کرچکے تھے۔عرض کرنے کا مقصد یہ کہ احتجاجوں، مذمتوں اور قراردادوں سے چند قدم آگے جانا ہوگا، بتانا بھی ہوگا، سمجھانا بھی ہوگا، پڑھانا بھی ہوگا، سنانا بھی ہوگا۔

میں جانتا ہوں کہ دنیا میں چند افراد اپنی اپنی ذاتی حیثیتوں میں یہ کام کر رہے ہیں لیکن جس سطح پر، جس انداز میں، جتنی قوت و شدت کے ساتھ اک عالمگیر مہم کی ضرورت ہے وہ موجود نہیں۔ آخر پہ اپنی طویل نعت کے کچھ شعر جو 81ء میں پہلے عمرہ کے بعد لکھی تھی۔

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا سانس لیتا تُو اور میں جی اٹھتاکاش مکہ کی میں فضا ہوتاہجرتوں میں پڑائو ہوتا میںاور تُو کچھ دیر کو رکا ہوتابیچ طائف بوقت سنگ زنیتیرے لب پہ سجی دعا ہوتاکاش احد میں شریک ہوسکتااور باقی نہ پھر بچا ہوتاخاک ہوتا میں تیری گلیوں کیاور ترے پائوں چومتا ہوتاپیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئیجس کا پھل تو نے کھا لیا ہوتابت ہی ہوتا میں خانہ کعبہ میںجوترے ہاتھ سے فنا ہوتامجھ کو خالق بناتا غار حسنؔاور مرا نام بھی حرا ہوتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے