انتخابات 2020 : حلقہ نمبر 10 سکردو 4

گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ نمبر10اور ضلع سکردو کا حلقہ نمبر4 پوری سب ڈویژن روندو پر مشتمل ہے جس کے حدود کا آغاز گلگت کے علاقہ حراموش کے قریب سے ہوتا ہے اور سکردو تک جا پہنچتا ہے۔ روندو حلقہ4اس وقت داریل، تانگیر اور پھنڈریاسین کے ہمراہ ناکردہ ضلع کی حیثیت میں ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے اس حلقے اور سب ڈویژن کو ایک پالیسی کے تحت ضلع بنانے کا اعلان کردیا اور یہ دعویٰ بھی کرلیا کہ ضلع بنانے کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے تاہم بعد میں اس میں قانونی پیچدگیاں آنی شروع ہوگئیں۔

2019کے جون میں وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا تھا کہ یکم جولائی سے پہلے ہی تمام علاقوں میں ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تعینات ہوکر اضلاع مکمل فعال ہوں گے۔ وفاقی حکومت نے اس پرموقف اختیار کیا کہ صرف نوٹیفکیشن سے اضلاع نہیں بنتے ہیں اس کے لئے فنڈز، افرادی قوت سمیت متعلقہ فورم کی منظوری بھی درکار ہوتی ہے۔ جی بی آرڈر2018میں ترمیم کا اختیار بھی صدر پاکستان کے پاس ہے لہٰذا ان کو ضلع تصور نہیں کیا جائے بلکہ سابقہ پوزیشن پر بحال سمجھا جائے۔ ن لیگی حکومت نے اپنے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کرانے کی کی کافی کوشش کی لیکن کچھ بھی نہیں ہوسکا مجبوراً عدالت عظمیٰ میں جانے کا اعلان کردیا جس کا تادم تحریرپتہ نہیں چل سکا ہے۔روندو میں کم از کم 65فیصد آبادی کی مادری زبان تبتی بلتی ہے جبکہ باقی آبادی شینا زبان بولتی ہے، شینا زبان والے بلتی پہ بھی عبور رکھتے ہیں۔

وادی روندو کو بلتستان میں سکردو، خپلو اور شگر کے بعد چوتھی بڑی وادی کہا جاتا ہے۔ وادی روندو ضلعی ہیڈکوارٹر سکردو سے تقریباً 70کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کا ہیڈکوارٹر ڈمبوداس ہے جو سکردو سے گلگت راستے میں پڑتا ہے۔

اسی وجہ سے روندو کو بلتستان کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ بھی دیگر اضلاع کی طرح بے مثال خوبصورتی کا مالک ہے۔ گلگت سکردو روڈ کا اکثریتی علاقہ روندو سے ہی گزرتا ہے۔

1994میں گلگت بلتستان میں ساتویں مدت کے لئے انتخابات ہوئے تو روندو کو ایک حلقہ قرار دیدیا گیا۔ اس سے قبل سکردو تین حلقوں پر مشتمل تھا۔ 1994کے انتخابات میں حلقہ روندو سے صادق علی نے انتخابات جیت لئے۔

1999میں ضلع بننے کے بعد دوسرے انتخابات میں اس حلقے سے وزیر حسن مردمیدان ٹھہر گئے۔ 2004کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کیپٹن(ر) سکندر علی جیت گئے اور سائیکل لیکر اسمبلی پہنچ گئے، بعد میں سکندر علی فدا محمد ناشاد (ڈپٹی چیف ایگزیکٹو) کے کابینہ کے رکن بن گئے اور مشیر مقرر کردئے گئے جو کہ اس وقت وزیر کے برابر عہدہ تھا۔

2009کے انتخابات میں روندو 22304ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے جن میں سے 11110خواتین اور 11194مرد تھے۔ انتخابی میدان میں 9امیدواروں نے حصہ لیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیر حسن کو ٹکٹ جاری کیا، مسلم لیگ ق نے سکندر علی کو، متحدہ قومی موومنٹ نے رسول کو ٹکٹ جاری کردیا جبکہ باقی آزاد امیدواروں میں سے راجہ حسین خان مقپون (صحافی)، محمد جلیل، منظور حسین، فدا حسین، سید امیر شاہ اور فدا حسین دوئم شامل تھے۔ انتخابات میں دو امیدوار 10سے کم ووٹ لے سکے۔

قوم پرست رہنما فدا حسین نے 410، منظور حسین نے 454، رسول نے 539، محمد جلیل نے 598، جبکہ مسلم لیگ ق کے امیدوار اور سابق مشیر سکندر علی نے 2217ووٹ حاصل کرلئے۔ انتخابات میں مقابلہ صحافی راجہ حسین خان مرحوم اور وزیر حسن کے مابین رہا جس میں راجہ حسین خان مقپون نے نامساعد حالات کے باوجود 3445ووٹ لئے جبکہ وزیر حسن نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 4579 ووٹ لئے۔ وزیر حسن مہدی شاہ کابینہ میں جگہ نہیں بناسکے تاہم پارلیمانی سیکریٹری بن گئے۔ راجہ حسین خان مقپون بعد میں ایک حادثے کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے۔ انتخابات میں 12253 ووٹ پڑے جو کہ 55فیصد کے قریب بنتا ہے۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے 21806ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے جن میں 10490خواتین اور 11316مرد شامل تھے۔ انتخابی معرکے میں ایک مرتبہ پھر 9امیدواروں نے حصہ لیا۔ آل پاکستان مسلم لیگ نے علی نور، متحدہ قومی موومنٹ نے علی حسن، مسلم لیگ ن نے غلام عباس، تحریک انصاف نے نجف علی، پیپلزپارٹی نے وزیر حسن کو ٹکٹ جاری کیا۔ راجہ حسین خان مقپون کے گھرانے سے راجہ ناصر علی خان نے مجلس وحدت المسلمین کا ٹکٹ جبکہ سابق مشیر سکندر علی اس بار اسلامی تحریک کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ دو آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔ آزاد امیدواروں سمیت تحریک انصاف، مشرف پارٹی، اور متحدہ کے امیدوار 1ہزار کے ہندسے تک نہیں پہنچ سکے۔

مسلم لیگ ن کے غلام عباس 1522اور پیپلزپارٹی کے وزیر حسن نے 3057ووٹ لیا۔ ون ٹو ون مقابلہ اسلامی تحریک کے سکندر علی اور مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر کے درمیان ہوا جس میں سکندر علی کو صرف 16ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ راجہ ناصر نے 4933ووٹ حاصل کئے جبکہ سکندر علی نے 4949ووٹ حاصل کرلیا۔ سکندر علی حزب اختلاف کی نشستوں پہ بیٹھ گئے جس میں حکومت سے زیادہ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ جھگڑتے ہوئے پانچ سال گزارے، سکندر علی اس کے علاوہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے جس کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں۔

آمدہ انتخابات 26839ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے ہیں۔جن میں سے 12098خواتین اور 14741مرد ووٹر ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق حق رائے دہی کے لئے اس حلقے میں 46پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں۔ جن میں تین خواتین کے لئے، تین مرددوں کے لئے جبکہ 40مخلوط ہیں۔ آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے 11امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ جن میں سے پانچ امیدوار آزاد حیثیت میں لڑرہے ہیں۔اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے سینئررہنما و سابق رکن وزیر حسن کو ٹکٹ فائنل کردیا گیا تھا تاہم انہوں نے انتخابی شیڈول جاری ہونے سے چند روز قبل یعنی 2ستمبر کو پاکستان تحریک انصاف کا مفلر پہن کر حلقے کی صورتحال کو تبدیل کردیا۔پیپلزپارٹی کے پاس متبادل کے طور پر نجف علی بہتر آپشن تھے تاہم انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ بھی آزاد حیثیت میں انتخابات لڑرہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے جمعہ جمعہ آٹھ دن والے وزیر حسن کو ٹکٹ دیکر درجن بھر امیدواروں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ پیپلزپارٹی نے وزیر محمد خان کو ٹکٹ دیدیا۔ مجلس وحدت المسلمین نے مشتاق حسین، مسلم لیگ ق نے وزیر اسحاق، مسلم لیگ ن نے غلام عباس اور اسلامی تحریک نے ایک مرتبہ پھر محمد سکندر علی کو ٹکٹ جاری کردیا جو دوتلوار لیکر روندو میں کھڑے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس اس حلقے میں وزیر حسن کو ہرانے کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آرہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے وزیر حسن کی برادری سے وزیر محمد خان کو ٹکٹ دیدیا ہے۔ راجہ ناصر بھی اس حلقے میں بہتر پوزیشن پر ہیں جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لئے کوشش کی تاہم نہ ملنے کی وجہ سے آزاد انتخابات لڑنے کا اعلان کردیا۔ اس حلقے میں ووٹروں کو دیکھ کر جوڑ توڑ کی گئی ہے جس کی بناء پر کہا جاسکتا ہے حلقے میں صرف کمزوریوں پر انتخابات لڑے جارہے ہیں۔ وزیر حسن کا مقابلہ راجہ ناصر یا سکندر کے ساتھ متوقع ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے