غداروں کا نشیمن

واہ جی واہ! کیا کالم لکھا ہے۔ عبدﷲ طارق سہیل صاحب نے کوئٹہ میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسے کو فقید المثال قرار دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ محبِ وطن ہیں۔

اُنہوں نے ببانگِ دہل لکھا ہے کہ ’’یہ کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے چھوٹا جلسہ تھا۔ بلکہ جلسہ تھا ہی کہاں؟ لیڈروں نے گھاس کے میدان میں گھاس کی پتیوں سے خطاب کیا‘‘۔

عبدﷲ طارق سہیل صاحب سے ملاقات کو ایک زمانہ بیت گیا۔ اُن سے تو کبھی فون پر بھی بات نہیں ہوئی۔ جب اِس ناچیز نے کوچۂ صحافت میں قدم رکھا تو عبدﷲ صاحب روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم میں انٹرنیشنل ڈیسک سنبھالے نظر آئے اور ہم آتے جاتے اُن کے چٹکلے سنتے رہتے تھے۔

آج بھی اُن کا کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ پڑھتے ہوئے قاری بار بار مسکراتا ہے اور قہقہہ بھی لگا دیتا ہے۔ بڑا بہترین فکاہیہ کالم لکھتے ہیں۔ ’’غداروں کی مردم شماری‘‘ کے نام سے اپنے حالیہ کالم میں لکھتے ہیں کہ حُب وطن کا اِس سے بڑھ کر اور کیا تقاضا ہوگا کہ عوام کو گھاس کی پتیوں جیسا سمجھا جائے، جب چاہو، جتنی چاہو کچل دو لیکن یہ الگ بات ہے کہ گھاس کی جڑیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔

کم بخت کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد حکومتی ترجمانوں نے اپوزیشن کو بھارت کا یار اور اغیار کا آلہ کار قرار دیا تو عبدﷲ طارق سہیل کو پاکستان میں غداروں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش ہوئی اور اُنہوں نے لکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی بار حکومتِ پاکستان کو مردم شماری کے بجائے غدار شماری کرانی پڑ جائے اور اُن جیسے محبِ وطن صرف کسی ایک ضلع تک محدود ہو جائیں۔

کوئٹہ کے جلسے کے بعد حکومتی ترجمان ضرورت سے زیادہ غضب ناک نظر آتے ہیں۔ اِس جلسے سے حکومت کی بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ سب سے بڑی اُمید یہ تھی کہ بلاول بھٹو زرداری اِس جلسے سے خطاب نہیں کریں گے۔

دوسری بڑی اُمید یہ تھی کہ نواز شریف بھی جلسے سے خطاب نہ کر پائیں گے۔ تیسری اُمید یہ تھی کہ اِس جلسے میں بی این پی مینگل اور مسلم لیگ ن کا جھگڑا ہو جائے گا اور بی این پی مینگل پی ڈی ایم سے نکل جائے گی لیکن کوئی بھی اُمید پوری نہ ہوئی۔

گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں کرسیاں لگائی گئی تھیں لیکن کوئٹہ کے جلسے میں کرسیاں نہیں لگائی گئی تھیں، اِس لئے گھاس کی پتیاں ذرا زیادہ نظر آ رہی تھیں۔

دہشت گردی کے خطرے کے باوجود گھاس کی پتیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور اِس جوش میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور علامہ اقبالؒ کا یہ شعر پڑھا؎:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

غداروں کے جلسے میں نعرئہ تکبیر کا بلند ہونا اور علامہ اقبالؒ کا ذکر حکومتی ترجمانوں کیلئے اہم نہیں تھا۔ اُن کیلئے تو یہ اہم تھا کہ شاہ اویس نورانی کی زبان سے آزاد پاکستان کی بجائے آزاد بلوچستان کا لفظ پھسل گیا اور شبلی فراز نے پی ڈی ایم کو بھارت اور اسرائیل کا اتحادی قرار دے دیا۔

دوسرے الفاظ میں پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کی گیارہ سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت اور حامی بطور اتحادی میسر آ چکے ہیں۔ 1971

میں تو صرف ایک لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کی جماعت عوامی لیگ کو غدار قرار دیا جاتا تھا، 2020 میں ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو چکے ہیں۔ پتا نہیں آج کا شیخ مجیب الرحمٰن اور جنرل یحییٰ خان کون ہے لیکن اگر حکومتی ترجمانوں کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان میں گندم، چاول اور چینی کی کمی اور غداروں کی افراط ہو چکی ہے بلکہ غدار پیدا کرنے میں پاکستان خود کفیل ہو چکا ہے۔

ریاستِ پاکستان تحسین کی مستحق ہےکہ مہنگائی کے اِس دور میں غداری کا سرٹیفکیٹ بہت سستا کر دیا گیا ہے۔ بس آپ نواز شریف کی تقریر سُن لیں یا کسی کو سنا دیں تو آپ کو غداری کا سرٹیفکیٹ بغیر مانگے ہی مل جائے گا بلکہ آپ کی جیب میں ٹھونس دیا جائے گا اور اگر جیب نہ ملے تو ایف آئی اے والے آپ کا فون نمبر ڈھونڈ کر واٹس ایپ پر کسی نوٹس کی شکل میں ملک دشمنی کا الزام آپ کی خدمت میں پیش کر کے اپنے سیاسی آقائوں کو خوش کرتے نظر آئیں گے۔

نواز شریف کی تقریر روکنے کے لئے نا صرف پورے شہر میں موبائل فون سروس بند کر دی گئی تھی بلکہ سیٹلائٹ سسٹم بھی جام کر دیا گیا۔ اربابِ اختیار صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی وڈیو لنک پر تقریر بھی روکنا چاہتے تھے تاکہ یہ تاثر دینا آسان ہو جائے کہ بلاول اور پی ڈی ایم کے راستے جدا ہونے والے ہیں۔ یہاں سردار اختر مینگل مسلم لیگ (ن) کے کام آئے۔ اُن کے پاس دبئی کی ایک فون سِم تھی۔ اُس فون کے ذریعے نواز شریف کی تقریر کوئٹہ کے جلسے میں پہنچ گئی اور یہی فون بلاول بھٹو زرداری کے بھی کام آیا۔

ایک طرف سردار اختر مینگل کی کوشش سے نواز شریف کی تقریر کوئٹہ کے جلسے میں پہنچی، تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء ﷲ زہری کو جلسے کے اسٹیج پر بٹھانا چاہتی تھی۔

مسئلہ یہ تھا کہ سردار ثناء ﷲ زہری نے 2018 کے الیکشن میں این اے 269 خضدار سے سردار اختر مینگل کیخلاف جیپ کے نشان پر آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تھا اور پی بی 39 پر وہ شیر کے نشان سے الیکشن لڑے۔ اختر مینگل یہ سیٹ جیت گئے تھے۔

دونوں کے درمیان ایک پرانی عداوت بھی چل رہی ہے۔ 2013 میں ثناء ﷲ زہری نے اپنے بیٹے اور بھائی کے قتل کی ایف آئی آر اختر مینگل، اُن کے والد عطاء ﷲ مینگل، سردار خیر بخش مری اور امان ﷲ زہری پر در ج کرائی۔ 2019 میں بی این پی مینگل کے رہنما امان ﷲ زہری کے قتل کا الزام ثناء ﷲ زہری پر لگایا گیا۔ دونوں اطراف کا جانی نقصان قابلِ افسوس ہے لیکن پی ڈی ایم کے جلسے میں ثناء ﷲ زہری کی شرکت سے جھگڑے کا اندیشہ تھا۔

سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ ہر صورت میں ثناء ﷲ زہری کو اسٹیج پر بٹھانا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے ثناء ﷲ زہری کو روک کر جلسے کو گڑبڑ سے بچا لیا۔

پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق ماما قدیر بلوچ بھی کوئٹہ کے جلسے سے خطاب کرنا چاہتے تھے جب اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو اُن سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف وڈیو پیغام جاری کروا دیا گیا۔ وہ جو ماما قدیر کو غدار کہتے تھے وہی میڈیا پر اُن کے اس وڈیو پیغام کو بھی اُجاگر کراتے رہے۔ پلک جھپکتے میں غدار غدار نہ رہا بلکہ پیار بن گیا۔ ماما قدیر کو غداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑی۔

اُنہوں نے اپنا بیٹا کھویا اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا لیکن عمران خان کی حکومت نے غدار بنانا بڑا آسان بنا دیا ہے۔ آپ صرف عمران حکومت پر ذرا سی تنقید کر دیں، آپ کو پلک جھپکتے میں پاکستان کا دشمن بنا دیا جائے گا لہٰذا اس عمرانی دور میں پاکستان غداروں کا نشیمن بن چکا ہے اور اگلی مردم شماری میں محبِ وطنوں کے اقلیت بننے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے