انتخابات 2020: حلقہ 14استور 2

یکم نومبر 1947کو گلگت سے شروع ہونے والے بغاوت کا نتیجہ ڈوگرہ راج کو علاقہ بدر کرنے کی صورت میں نکل آیا۔ اس بغاوت کے دوران مقامی باغیوں نے بونجی اور گلگت کو ملانے والے مشہور پرتاب پل کو جلادیا اور ڈوگرہ افواج کو بونجی تک محدود کردیا۔ گلگت سکاؤٹ کی سرکردگی اور میجر براؤن کی قیادت میں اس بغاوت میں مقامی باغیوں نے جب کمک حاصل کی تو ڈوگرہ افواج کو بونجی سے بھی بھگانا شروع کردیا اور رام گھاٹ کے مقام پر ڈوگرہ افواج کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ڈوگرہ افواج کو بھگانے کے بعد کم از کم 10سال تک استور گوریکوٹ میں ہندوؤں اور سکھوں کے بڑے تجارتی مراکز موجود رہے۔ اُن کے کاروبار کو ان کے ملازموں نے جاری رکھا اور عرصہ 10 سال سے زائد گزرنے کے بعد آخر میں تجارتی مراکز اور دوکانوں کو ملازمین کے نام پہ وقف کردیا۔ یہ تاریخی مقامات گلگت ضلع استور کا حصہ ہیں اور موجودہ حلقہ بندیوں میں یہ استور کی دوسری نشست ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ 14ضلع استور کا ہیڈکوارٹر کا علاقہ کہلاتا ہے جو بونجی سے لیکر گوریکوٹ ترزے تک پھیلا ہوا ہے،جو کہ مجموعی طور پر ایک سب ڈویژن ہے۔ ضلع استور کا ہیڈکوارٹر عیدگاہ گوریکوٹ کا علاقہ اسی سب ڈویژن میں قائم ہے۔جس کی وجہ سے تمام ضلعی دفاتر اس حلقے میں موجود ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 13استور1، جو کہ سب ڈویژن ہے، کا اسسٹنٹ کمشنر بھی اسی حلقے یا سب ڈویژن میں اپنا دفتر کھولے بیٹھے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس حلقے کو ضلع استور کا شہری علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاہراہ قراقرم سے شروع ہونے والا گلگت استور روڈ کا سارا راستہ اسی حلقے میں ہے۔ جس کی کل لمبائی 54کلومیٹر ہے۔ گلگت اور استور کو ملانے والا قدیم روڈ آج بھی کسی حد تک محفوظ تاہم ناقابل استعمال ہے جو اپنے خطرناک 27موڑوں کی وجہ سے مشہور تھا۔

یہ حلقہ 8 یونین کونسلز پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں مشہور سیاحتی مقام راما، راما جھیل، اللہ والی جھیل پریشنگ، ڈزل ڈشکن چراگاہ، کنی بری جھیل گوریکوٹ جیسے خوبصورت مقامات موجود ہیں۔اس علاقے سے گزرنے والا دریا برزل پاس اور دیگرمقامات سے پانی لیکر بونجی کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔

ضلع استور کو 1979 کی پہلی مشاورتی کونسل سے لیکر 1994تک قائم ناردرن ایریاز کونسل تک، جماعتی بنیادوں پر شروع ہونے والے انتخابات سے لیکر آج صوبائی حیثیت تک دو حلقوں پر مشتمل رہی ہے جس کی وجہ سے ہر دور میں ان حلقوں کی موثر نمائندگی رہی ہے۔جس کا مفصل تذکرہ حلقہ 13استور کے کالم میں گزرا ہے۔ آمدہ انتخابات میں یہ حلقہ سب سے زیادہ امیدواروں والا حلقہ ہے جن میں اکثریتی امیدوار ہیوی ویٹ ہیں۔حلقے میں یونین کی بنیاد پر اتحاد کا رواج بہت مقبول ہے۔

1994کے انتخابات میں استور کے اس حلقے سے نصر اللہ خان جیت گئے۔ 1999کے انتخابات میں محبوب علی خان نے حلقے کی نمائندگی کی۔ 2004میں اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر مظفر علی ریلے کو اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

2009کو خود مختاری و نظم و نسق کے صدارتی آرڈر کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں استور کے اس حلقے سے 26973ووٹ رجسٹرڈ ہوئے۔ جن میں 13167خواتین اور 13806مرد ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ انتخابی میدان میں 23امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے 15امیدوار آزاد حیثیت میں سامنے آگئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے بونجی سے محمد نصیر خان، پاکستان مسلم لیگ ن نے محمد سلیم، مسلم لیگ ق نے مظفر علی ریلے، پاکستان تحریک انصاف نے محمد افلاطون کو ٹکٹ جاری کیا۔ انتخابات میں 12 امیدوار 100کے ہندسے تک نہیں پہنچ سکے جبکہ چار امیدوار ہزار سے کم ووٹ لے سکے۔ تحریک انصاف کے محمد افلاطون نے 1044ووٹ، مسلم لیگ ق کے مظفر علی ریلے نے 1088ووٹ، آزاد امیدوار نصر اللہ نے 1215ووٹ، مولانا عبدالسمیع نے 1371ووٹ، مسلم لیگ ن کے محمد سلیم نے 1644ووٹ حاصل کئے۔ حلقے سے آزاد حیثیت میں لڑنے والے امیدوار محبوب علی خان نے 1792ووٹ جبکہ پیپلزپارٹی کے محمد نصیر خان نے 2031ووٹ حاصل کئے اور حلقے کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا۔ مہدی شاہ کابینہ میں محمد نصیر خان صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بن گئے۔ حلقہ 14استور2میں کل 12628 ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ کل 47فیصد کے قریب رہے۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے 24452ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جن میں خواتین کی تعداد11536اور مرد ووٹروں کی تعداد 12916تھی۔ اپنا روایتی اعزاز برقرار رکھتے ہوئے اس حلقے سے 33 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل کر لئے جو کہ دیگر تمام حلقوں سب سے زیادہ تھے۔ 33میں سے 25 امیدواروں نے آزاد حیثیت اختیار کرلی اور کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی وفاق میں پوزیشن بہت بہتر ہونے اور صوبے میں انتخابی مہم بھی جاندار رہنے کی وجہ سے انہوں نے اس حلقے سے دیگر کے مقابلے میں گمنام برکت جمیل کو ٹکٹ جاری کیا جس کی وجہ سے صوبائی صدر حفیظ الرحمن سخت تنقید کی زد میں بھی رہے تاہم امیدوار کو گوریکوٹ اتحاد کی حمایت حاصل ہوگئی۔جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالسمیع کو ڈشکن اتحاد کی حمایت حاصل ہوگئی، تحریک انصاف نے صوبائی آرگنائزر حشمت اللہ خان کو ٹکٹ جاری کیا، مظفر علی ریلے، محمد شفاء، محبوب علی خان آزاد حیثیت میں اترے، پیپلزپارٹی نے محمد نصیر خان کو دوبارہ آزمایاجبکہ جمعیت علماء اسلام نے نصر اللہ خان کو ٹکٹ جاری کیا۔

جے یو آئی کے امیدوار 448، پیپلزپارٹی 670، پی ٹی آئی 1193، مظفر ریلے 1699، محمد شفاء 1915، محبوب علی خان 2019، جماعت اسلامی 2379اور مسلم لیگ ن 3994ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ مسلم لیگ ن کے برکت جمیل کو حفیظ الرحمن کی قربت رہی تاہم وزارت نہیں ملی۔ تاہم ہرچو سے نسرین بانو خواتین کی نشستوں میں رکن اسمبلی بن گئیں۔انتخابات کے کچھ عرصہ بعد حلقے میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی جس میں اکثریتی امیدواروں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی جن میں محمد شفاء، محبوب علی خان، سینئر لیگی رہنما شمس الحق لون و دیگر شامل تھے، جبکہ مظفر ریلے پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ 2015 کے انتخابات میں 15667ووٹ پڑے جو کہ تناسب کے اعتبار سے 64فیصد رہے۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے 29023ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں سے 13192خواتین اور 15831مرد ووٹر ہیں۔جن کے لئے 47پولنگ سٹیشن اور 56پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔ 16 پولنگ سٹیشن مردوں کے لئے،15خواتین کے لئے جبکہ 16مخلوط بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔اس حلقے سے ایک احمدی اقلیتی خاتون بھی بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوئی ہے۔

15نومبر کو ہونے والے انتخابات کے لئے حلقے سے 22امیدوار سامنے آئے ہیں۔حکمران جماعت تحریک انصاف کا ٹکٹ طویل کھینچا تانی کے بعد شمس الحق لون کے کھاتے میں آگیا۔ پیپلزپارٹی نے مظفر علی ریلے، مسلم لیگ ن نے رانا فاروق، جماعت اسلامی نے سابقہ نگران وزیر نعمت اللہ خان، جے یو آئی نے امداد اللہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ 22امیدواروں میں سے 15آزاد امیدوار ہیں۔ آزاد امیدواروں میں محبوب علی خان، نصر اللہ خان، تعارف عباس ایڈوکیٹ، طاہر ایوب اور محمد طارق جیسے قدآور شخصیات موجود ہیں۔ حلقے کا ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اکثریتی امیدوار اپنے ووٹ بنک کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کا ٹکٹ اس میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے مظفر ریلے اور پی ٹی آئی کے شمس الحق لون کے درمیان ٹاکرے کی فضاء قائم ہے جس میں مسلم لیگ ن کے رانا محمد فاروق خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے