انتخابات2020: حلقہ 15دیامر 1

ضلع دیامر گلگت بلتستان کا گیٹ وے ہے جہاں سے گزرنے کے بعد پاکستان کے دیگر علاقوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور اب تک ضلع دیامر ایک راستہ ہے جس نے گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملایا ہوا ہے۔ضلع دیار رائیکوٹ کے مقام پر گلگت سے الگ ہوجاتا ہے۔ ضلع دیامر کی سرحد شاہراہ قراقرم اور درہ بٹوگہ کے زریعے کوہستان، درہ برائی کے زریعے وادی نیلم، درہ شوشی کے زریعے غذر، اور درہ بابوسر کے زریعے ناران کاغان سے جا ملتی ہے۔ ضلع گلگت سے کارگاہ کے زریعے داریل اور چلاس شہر سے بٹوگار کے راستے ناران نکلنے کی دوسڑکیں سابقہ حکومت کے دور میں زیر بحث رہی تاہم عملی کام نہیں ہوسکا۔
سیاحتی اعتبار سے ضلع دیامر کو اب تک چھپاہوا علاقہ قرار دیا جاتا ہے اس ضلع میں پائے جانے والے بے شمار وادیاں، جھیلیں، چراگاہیں اب بھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تاہم بابوسر اور فیری میڈو اب بھی سیاحوں کے دلچسپی کے مراکز ہیں۔ضلع دیامر قدیم روایات کا امین علاقہ ہے۔ ضلع دیامر کے پہاڑ اور پتھر اب بھی آثار قدیمہ سے بھرے پڑے ہیں۔ 45ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا دیامر بھاشاڈیم بھی ضلع دیامر میں ہی موجود ہے۔دنیا بھر میں برآمد ہونے والا مشہور پھل چلغوزہ بھی دیامر کی ایک پہچان ہے۔دیامر کے جمالیاتی پہلو میں الگ رنگ اور دھن کی موسیقی بھی اپنا مقام رکھتی ہے جہاں ڈڈنگ پر ہاتھ لگتے ہی ناچنے کے لئے جوانوں کے پاؤں اٹھ جاتے ہیں۔ دور بدھ مت کی یونیورسٹی (واقع داریل)کے حوالے سے بھی دیامر منفرد پہچان رکھتا ہے تاہم اب تک سیاحت کے مواقع پیدا نہیں کئے جاسکے ہیں۔اس کے علاوہ 1894میں انگریزوں اور ڈوگروں کی مشترکہ کاوشوں سے قائم کیا گیا قلعہ چلاس آج بھی اپنی اسی حالت میں موجود اور کارآمد ہے۔اس خطے میں 100فیصد آبادی منفرد لہجے کی شینا بولتی ہے۔
دیامر کو ضلع کا درجہ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دیا گیا۔ جبکہ 2014میں مہدی شاہ حکومت نے اپنے آخری کابینہ اجلاس میں دیامر اور استور ملاکر کو ڈویژن کا درجہ دیدیا۔ 1972سے قبل چلاس اوور داریل تانگیر گلگت ایجنسی کے دو سب ایجنسیز تھے۔ ضلع دیامر تعلیمی لحاظ سے پسماندہ علاقہ ہے، الف اعلان نامی تنظیم نے 2015میں ضلع دیامر کو 148میں سے 95نمبر پر رکھا تھا جبکہ سہولیات اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے 148میں سے 127نمبر پر رکھا تھا۔
1970میں پہلی مشاورتی کونسل میں چلاس سب ایجنسی سے عبدالرؤف نے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا اور دوسری مرتبہ 1974 میں ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات میں بھی جیت گئے۔ 1979 میں حنیف اللہ، 1983 میں حاجی عبدالقدوس، 1987 میں حاجی جانباز خان، اور1991 میں دوبارہ حاجی عبدالقدوس نے چلاس کی نشست جیت لی۔
1994میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں دیامر کو دو اضافی نشستیں دیکر چار اراکین کردئے۔ حلقہ 1دیامر کو زیرو پوائنٹ کے قریب سے لیکر رائیکوٹ اور بابوسر تک سارا علاقہ حوالہ کردیا گیا۔حلقہ 1دیامر سے مذکورہ انتخابات میں حاجی شاہ بیگ دیگر کو پیچھے چھوڑ گئے اور اسمبلی پہنچ گئے۔ 1999 میں دوبارہ حاجی شاہ بیگ حریفوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ 2004 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر فداء اللہ جیت گئے۔
2009کے انتخابات میں 38849 ووٹر رجسٹرڈ ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اس حلقے میں خواتین ووٹروں کی تعداد 22238 اور مردووٹروں کی تعداد 16611تھی۔ انتخابات میں کل 11 امیدوار سامنے آئے۔ پاکستان مسلم لیگ ق نے بشیر احمد، متحدہ قومی موومنٹ نے حاجی شاہ بیگ، پیپلزپارٹی نے فدا اللہ، عوامی نیشنل پارٹی نے عاشق اللہ، مسلم لیگ ن نے غندل شاہ، جمعیت علماء اسلام نے شیرزادہ کو ٹکٹ دیدیا۔ پانچ امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اترے۔ دو امیدوار 10کا ہندسہ بھی عبور نہیں کرپائے جبکہ 2 امیدواروں کا ووٹ ہزار سے کم رہا۔ آزاد امیدوار نوشاد عالم نے 1103، محمد امین نے 1334، ن لیگی حاجی غندل شاہ نے 1431، اے این پی کے عاشق اللہ نے 1536، پیپلزپارٹی کے فدااللہ نے 1582 ووٹ حاصل کئے۔ حاجی شاہ بیگ نے متحدہ کے ٹکٹ پر 1582 اور ق لیگ کے ٹکٹ پر بشیر احمد خان 2678 ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے اور مردمیدان ٹھہرے۔ بشیر احمد خان کو جی بی کا پہلا قائد حزب اختلاف بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے بعد ازاں وہ حکومت کا حصہ بن گئے ااور تعمیرات کی وزارت اسے سونپ دی گئی۔انتخابات میں کل 12700ووٹ پڑگئے جو کہ تناسب کے اعتبار سے 32.7 فیصد رہا۔
2015 کے انتخابات میں اس حلقے سے 27080ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے۔ جن میں خواتین ووٹروں کی تعداد ایک مرتبہ پھر زیادہ رہی۔ خواتین ووٹروں کی تعداد 13842 اور مرد ووٹروں کی تعداد13238تھی۔ اس دفعہ اہم انتخابی مہروں نے مورچہ بندیاں تبدیل کرلی۔ سابق آزاد امیدوار نوشاد عالم پی ٹی آئی کے کھلاڑی بن گئے۔ ق لیگ کے امیدوار بشیر احمد پیپلزپارٹی کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ متحدہ کے حاجی شاہ بیگ کتاب ہاتھ میں تھامے جے یو آئی میں آگئے۔ انتخابی میدان میں کل 8 امیدوار اترے جن میں سے 3 امیدوار 100سے کم ووٹ لے سکے۔ آزاد امیدوار عاشق اللہ نے 2533، مسلم لیگ ن کے حاجی غندل شاہ نے 2865، پی ٹی آئی کے نوشاد عالم نے 3534ووٹ لئے۔ پیپلزپارٹی کے فدا اللہ نے 3557 ووٹ لئے اور جے یو آئی کے حاجی شاہ بیگ 3713ووٹ لیکر تیسری مرتبہ اسمبلی پہنچ گئے۔ اتفاق سے دوسری مرتبہ بھی اپوزیشن لیڈر اسی حلقے سے منتخب ہوگیا۔ 6 رکنی اپوزیشن اتحاد نے قائد حزب اختلاف کے لئے عدم اتفاق کی صورت میں ٹاس کرنے کا فیصلہ کرلیا جو کہ حاجی شاہ بیگ کے نام نکل آیا۔ بعد ازاں حاجی شاہ بیگ کو اپوزیشن لیڈر سے ہٹانے پر وہ متحدہ اپوزیشن سے بھی الگ ہوگئے اور تیسری قسم کی بنچ دریافت کرلی۔ اس حلقے سے ثوبیہ مقدم کو مسلم لیگ ن نے خواتین نشستوں پر ممبر چن لیا جسے وزارت سماجی بہبود و امور نسواں سونپ دی گئی تاہم حکومتی مدت پوری ہونے سے ڈیڑھ سال قبل حفیظ سے اختلافات کی بنیاد پر کابینہ سے الگ کردیا گیا اور وہ اس کے بعد اسمبلی بھی نہیں آئی جبکہ بعد ازاں تبدیلی قافلے میں شامل ہوگئیں۔انتخابات میں کل 16232 ووٹ پڑے جو کہ مجموعی ووٹ کے اعتبار سے 60فیصد رہے۔
آمدہ انتخابات کے لئے اس حلقے سے 35185ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے ہیں۔ جن میں سے 17448خواتین اور 17737مرد ووٹر شامل ہیں۔حلقے میں 45پولنگ سٹیشن اور 103پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔اس حلقے سے 17امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے ہیں جن میں سے 11امیدوار آزاد حیثیت میں لڑرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بشیر احمد خان، ق لیگ نے عاشق اللہ، مسلم لیگ ن نے عبدالواجد، ایم کیو ایم نے عبدالباقی، جے یو آئی نے مفتی ولی الرحمن اور پی ٹی آئی نے نوشاد عالم کو ٹکٹ جاری کردیا۔ حلقے سے حاجی شاہ بیگ، ڈاکٹر بختاور، محمد دلپذیر، و دیگر امیدوار آزاد حیثیت میں لڑرہے ہیں۔ حلقے کا ماضی بتارہا ہے کہ جیتنے والا امیدوار معمولی مارجن سے جیت جاتا ہے۔ دیامر کے چاروں حلقوں میں یہ پیپلزپارٹی کا نسبتاً مضبوط حلقہ ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی اپنے سابقہ امیدوار کو سابقہ محنت سمیت دوڑایا ہے۔اس حلقے میں اکثریتی ووٹ برادری کی بنیاد پر پڑتا ہے اور اکثر امیدواروں کا اپنا ووٹ بینک ہے جس کی وجہ سے حلقے میں امیدواروں صف بندی بہت مشکل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے