انتخابات 2020: حلقہ 17دیامر 3 داریل

ضلع دیامر کا علاقہ داریل اور تانگیر کا شمار جی بی کے ایسے انوکھے علاقوں میں ہوتا ہے جن تک رسائی حاصل کرنے کے لئے خیبرپختونخواہ کے حدود میں کئی کلومیٹر سفر بذریعہ شاہراہ قراقرم طے کرنا پڑتا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے حلقہ 17دیامر 3یعنی داریل کو قدیم و عظیم حکمران گلگت کے دور سے قبل گلگت کا ہیڈکوارٹر بھی بتایا جاتا ہے۔ وادی داریل کی تاریخ میں 12ستمبر 1981ناقابل فراموش دن ہے۔ اس بدقسمت دن کو محض 6.2 شدت کے زلزلے نے داریل کا صفایا کردیا تھا۔جس میں تین ہزار سے زائد گھرانے تباہ ہوگئے تھے۔ اتفاق سے اس وقت لوگ گھروں سے باہر تھے تاہم مضبوط روایتی طرز تعمیر کے بنیادیں بھی انہدام ہوگئی۔

اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 220بتائی جاتی ہے۔ 1447مال مویشی، سمیت چھ ہزار سے زائد مویشی خانہ تباہ ہوگئے تھے۔ دنیا سے بہت کم رابطے اور صرف جیپ کے زریعے رسائی والے سڑک کی وجہ سے زلزلہ کی اطلاع دیگر علاقوں بالخصوص گلگت تک نہیں پہنچ سکی جسکی اطلاع اگلے دن صبح پہنچادیا گیا۔ جیسے ہی گلگت میں اطلاع پہنچ گئی پاک فوج نے ہنگامی بنیادوں پر بحالی کے اقدامات اور طبی عملے پر مشتمل بڑی ٹیم داریل روانہ کردیا لیکن 14گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی ٹیم داریل تک نہیں پہنچ پائی کیونکہ سارا پہاڑی تودوں سے گرا ہوا تھا۔ گلگت میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ہیلی کاپٹر کے زریعے عملے کو داریل روانہ کرنے کے احکامات جاری کردئے تاکہ مریضوں کو فوری طور پر ریسکیو کیا جاسکے اور لوگوں کو ابتدائی طبی امداد اور خوراک پہنچایا جائے۔ (بحوالہ وادی داریل میں زلزلہ، آکسفورڈ یونیورسٹی)
وادی داریل ہرے جنگلات سے بھری سرزمین ہے۔

جو شمالی جانب ضلع غذر، جنوبی جانب دریائے سندھ، مشرقی جانب چلاس اور مغربی جانب سے کوہستان سے گھرا ہوا۔ داریل کو قدیم شہر اور قدیم تہذیب کا مرکز قرار دیا جاتا ہے جہاں پر بدھ مت دور کی یونیورسٹی کے باقیات بطور علامت موجود ہے، اس یونیورسٹی کو بدھ مت کے دور (کنیشک دور) میں عظیم درسگاہ کہا جاتا تھا۔ چلاس سے داسو کی جانب شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے بسن کے مقام پر دائیں جانب ایک تنگ راستہ داریل کی خوبصورت وادی کو جانکلتا ہے۔وادی داریل کا شمار ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر انگریز اپنے عروج کے وقت بھی پنجے گاڑھ نہیں سکے اور اس علاقے کو باغیوں کا علاقہ یعنی یاغستان قرار دیا۔ اس علاقے سے شدت پسندی کے چند واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے یہ علاقہ اخبارات اور قومی میڈیا کی بھی سرخیوں میں رہا۔ جن میں سکولوں کو جلانے کا 2سال قبل کا واقعہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کے قومی اور موقر جریدے فرائیڈے ٹائمز کے مطابق ’یہ وادی بڑی تیزی سے قبائلی نظام سے باہر نکل رہی ہے، قدیم جرگہ کا نظام اب بھی اس علاقے میں موجود ہے لیکن اس میں تبدیلی آرہی ہے۔ چند سال قبل تک اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار ساتھ لیکر پھرنا معمولی سی بات تھی تاہم اب لوگوں کے ہاتھ میں ہتھیار کی جگہ پہ جدید ٹیکنالوجی آچکی ہے‘۔

انتظامی لحاظ سے وادی داریل ضلع دیامر کی سب ڈویژن ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے اس وادی کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کردیا تھا اور ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا تاہم وہ سارے ہوائی ثابت ہوئے اور یہ علاقہ اب بھی بطور سب ڈویژن کام کررہا ہے۔ 1994سے قبل داریل کا علاقہ تانگیر کے ہمراہ ایک حلقہ شمار کیا جاتا تھا۔ 1979کی مشاورتی کونسل میں اس مشترکہ حلقے سے ملک مسکین مرحوم کا انتخاب کیا گیا اور پہلی بار نمائندگی کرنے کا اعزاز مل گیا۔1975 میں ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات میں ملک مسکین دوبارہ جیت گئے۔ 1979میں حاجی امیر جان کو اس حلقے کی نمائندگی کا موقع مل گیا جس نے 1983کے انتخابات میں بھی اپنی فتح برقرار رکھی۔ 1987میں تیسرے چہرے، جان عالم، نے یہاں سے نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔1991میں حاجی مہرداد بھی اس فہرست میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوگئے۔

1994میں داریل اور تانگیر کو الگ الگ حلقہ قرار دیا گیا جس کے بعد پہلی داریل کو نمائندگی کا موقع مل گیا کیونکہ مشترکہ حلقے کے وقت اکثر تانگیر سے امیدوار جیتتا رہا ہے۔1994کے انتخابات میں حاجی حیدر خان صاحب داریل حلقے کے پہلے نمائندے بن گئے۔ 1999 میں حاجی حیدر خان کو شکست دیکر حاجی رحمت خالق متبادل چہرے کے طور پر سامنے آگئے۔ 2004 حاجی حیدر خان دوبارہ اپنی باری لینے میں کامیاب ہوگئے۔

2009 میں صدارتی حکمنامہ برائے خودمختاری و نظم و نسق کے تحت انتخابات ہوئے تو اس حلقے سے 25785ووٹر رجسٹرڈ ہوئے جن میں 11786 خواتین اور 13999مرد ووٹر تھے۔ اس حلقے میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہونے کی وجہ سے اس کاریکارڈ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں نہیں دیا گیا۔ تاہم جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر حاجی رحمت خالق، حاجی حیدر خان کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے اور اسمبلی پہنچ گئے۔ حاجی رحمت خالق بعد ازاں پارلیمانی سیکریٹری اور جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر بن گئے۔

2015 کے انتخابات میں اس حلقے سے 25622ووٹر رجسٹرڈ ہوئے جن میں 12559خواتین ا ور 13063مرد ووٹر تھے۔انتخابات میں کل 10امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے جن میں سے 6 امیدواروں نے دستبرداری حاصل کی۔ پیپلزپارٹی نے اس حلقے سے غفار خان کو ٹکٹ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر محمد زمان، جمعیت علماء اسلام نے حاجی رحمت خالق اور مسلم لیگ ن نے حاجی حیدر خان کو ٹکٹ جاری کیا۔ حاجی حیدر خان کا شمار جی بی میں سب سے زیادہ پارٹیاں تبدیل کرنے والے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار غفار خان نے 984ووٹ لئے، تحریک انصاف کے ڈاکٹر محمد زمان نے 2447ووٹ لئے، جمعیت علماء اسلام کے حاجی رحمت خالق نے 3689ووٹ اور مسلم لیگ ن کے حاجی حیدر خان نے 4184 ووٹ لئے اور جیت گئے۔ اس حلقے میں حسب سابق انتخابات کے روز جھگڑے ریکارڈ ہوئے۔ یہ حلقہ 2015میں اس وقت اقوام متحدہ اور سینیٹ آف پاکستان میں گونجتا رہا جب ایک مقامی مسجد میں تمام امیدواروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خواتین کوو وٹ کاسٹ کرنے نہیں دیں گے تاہم الیکشن کمیشن کے نوٹس لینے پر اس فیصلے سے دستبرداری لی گئی۔ اس حلقے سے جیتنے والے حاجی حیدر خان حفیظ حکومت میں پہلے پارلیمانی سیکریٹری صحت بعد میں صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بن گئے۔انتخابا ت میں اس حلقے سے کل 11475ووٹ پڑ گئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 44.8 فیصد رہا۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے کل 29955ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جن میں خواتین کی تعداد 13682اور مرد ووٹروں کی تعداد 16273ہیں۔ انتخابات میں کل 11امیدواروں نے کاغذات نامزدگی اور انتخابی نشان حاصل کیا ہے۔ گزشتہ اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے حاجی حیدر خان نے ایک مرتبہ پھر پارٹی تبدیل کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں اور ٹکٹ لینے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔جمعیت علماء اسلام نے حاجی رحمت خالق، پیپلزپارٹی نے غفار خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے اور مسلم لیگ ن نے صدر عالم کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ 7امیدواروں نے آزاد حیثیت میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ حلقہ نہ صرف باری باری کا ریکارڈ رکھتا ہے بلکہ دونوں اہم نمائندوں کے آپس میں خوشگوار ملاقاتوں اور سخت سیاسی ا ختلافات کی وجہ سے بھی شہرت کا حامل ہے۔ آمدہ انتخابات میں باری تو رحمت خالق کی ہے تاہم پی ٹی آئی نے بھی مضبوط صف بندی کی ہے اور آزاد امیدوار بھی فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے