انتخابات 2020 : حلقہ 19غذر 1

گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی حلقہ بندیوں میں ضلع غذر 9ویں نمبر پر آتا ہے جو تین حلقوں پر مشتمل ہے۔ ضلع غذر کو سب سے پہلے 1974میں ذوالفقار علی بھٹو نے ضلع بنایا تھا جسے بعد میں ضیاء الحق حکومت نے تحلیل کردیا تاہم بعد میں دوبارہ بینظیر بھٹو نے 1989 میں سابقہ حیثیت پر بحال کردیا۔ ضلع غذر ان اضلاع میں شامل ہیں جہاں بیک وقت چار یا اسسے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں شینا، بروشسکی، کھوار، وخی و دیگر شامل ہیں۔ ضلع غذر، گلگت کے مغربی جانب واقع ہے جو کہ شندور پاس کے زریعے چترال کو گلگت سے ملاتا ہے۔ ضلع غذر کا ہیڈکوارٹر گاہکوچ ہے جس سے الگ ہونے والی شاہراہ چٹورکھنڈ کے علاقے کو نکلتی ہے جو بروغل پاس کے زریعے تاجکستان اور چائینہ سے ملتی ہے۔ 19ویں صدی کے اواخر میں انتظامی معاملات بہتر کرنے کے لئے چترال کے وسیع علاقے کو ضلع غذر سے الگ کرکے مالاکنڈ ڈویژن میں شامل کردیا گیا۔ ضلع غذر پانچ وادیوں پر مشتمل ہے جس میں وادی پونیال، وادی اشکومن، وادی گوپس، وادی یاسین اور پھنڈر شامل ہیں۔ 1974سے قبل یہ علاقہ پولیٹیکل اضلاع پر مشتمل تھا جب زوالفقار علی بھٹو نے انتظامی اصلاحات لاتے ہوئے ایف سی آر کا خاتمہ کردیا اور اس کو ضلع بنانے کا فیصلہ کیا تو اہلیان علاقہ غذر کے نام پر متفق ہوگئے۔

تاریخی اعتبار سے ضلع غذر پر راجوں کی حکمرانی رہی ہے جن میں مشہور راجہ گوہر امان بھی شامل ہیں جن کا انتقال 1862میں ہوا۔ تاہم مہاراجہ کشمیر کے زیر اثر دور میں دیگر اضلاع سے لوگوں کو بھی بطور گورنر تعینات کیا گیا ہے۔ جسے انگریزوں کی انتظامی تقسیم کے بعد گلگت ایجنسی میں شامل کیا گیا۔ ضلع غذر بیک وقت چائینہ، افغانستان(بذریعہ واخان)، چترال، گلگت، اور دیامر سے اپنی سرحد جوڑے رکھتا ہے۔

سیاحتی اعتبار سے ضلع غذر جنت نظیر علاقہ ہے جہاں پر خوبصورت ترین جھیل، بلند و بالا پہاڑ، دلفریب مناظر، موسمی تبدیلیاں، درے، آثار قدیمہ سمیت کئی سیاحتی پرکشش مقامات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

ضلع غذر میں میں تعلیمی شرح بھی بہت بہتر ہے۔ الف اعلان کے 2015 کے سروے کے مطابق ضلع غذر پاکستان کے 148اضلاع میں سے 10ویں نمبر پر تھا جبکہ سہولیات اور انفراسٹرکچر میں یہ ضلع 17 ویں نمبر پر رہا۔ اس ضلع میں جا بجا آغا خان تعلیمی مراکز نظر آتے ہیں۔

ضلع غذر کے پہلے حلقے یعنی حلقہ 19 غذر 1کا آغاز شیر قلعہ نامی گاؤں سے ہوتا ہے اور بروغل پاس تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ حلقہ سیاسی اعتبار سے دیگر حلقوں کے نسبت زیادہ زرخیز ہے۔ 1970 کی پہلی مشاورتی کونسل میں پونیال اور اشکومن کو ملاکر ایک حلقہ تصور کیا گیا جس میں پیر کرم علی شاہ نے نمائندگی کی۔ پھر پیر کرم علی شاہ نے مڑکر پیچھے نہیں دیکھا۔ 1975 میں بننے والی ناردرن ایریاز کونسل، 1994 کے جماعتی انتخابات سے لیکر 2009 تک،صوبائی حیثیت کی حامل اسمبلی کے آغاز، پیر کرم علی شاہ نے کسی کو اپنے سامنے ٹکنے نہیں دیا اور مسلسل جیتتے چلے گئے۔ پیر کرم علی شاہ گلگت بلتستان میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو، گورنر گلگت بلتستان جیسے عہدوں پر فائز رہے۔ مجموعی طور پر پیر کرم علی شاہ اس حلقے سے 10مرتبہ جیت گئے اور اس وقت تک جیتتے چلے گئے جب تک انہوں نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیکر گورنر نہیں بن گئے۔ اس حلقے میں گزشتہ دو انتخابات، ایک ضمنی اور ایک جنرل، میں پیر صاحب کے گھرانے کا اثر رسوخ نظر نہیں آیا ہے۔ پیر کرم علی شاہ رواں سال 4اگست کو دارفانی سے کوچ کرگئے۔

اس حلقے میں 2009کے انتخابات کے موقع پر ایک امیدوار کی اچانک رحلت ہوئی اور انتخابات تاخیر سے ہوگئے جس میں پیر کرم علی شاہ جیت گئے۔ بعد میں پیر کرم علی شاہ نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا گلگت بلتستان کے گورنر بن گئے۔اپریل 2011 میں ضمنی انتخابات ہوئے تو حلقے سے بالاورستان نیشنل فرنٹ کے نواز خان ناجی طویل جدوجہد کے بعد اسمبلی پہنچ گئے۔ ضمنی انتخابات میں نواز خان ناجی نے 8360ووٹ حاصل کرکے بھاری مارجن سے مخالفین کو شکست دیدی۔ مدمقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار جواہر علی خان نے 3960 اور مسلم لیگ ن کے کرنل (ر) کریم نے 4065ووٹ حاصل کئے۔ نواز خان ناجی نے 28دسمبر 1989 گلگت بلتستان کی محرومیوں پر آواز اٹھانے کے لئے بالاورستان نیشنل فرنٹ نامی تنظیم بنائی تھی، اس جدوجہد کے پاداش میں نوازخان ناجی کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ نواز خان ناجی گلگت بلتستان کی جغرافیہ پر زبردست گرفت رکھتے ہیں اور علاقائی معاملات پر متعدد تصنیفات بھی ان کے نام سے ہیں۔ نوازخان ناجی اپنے مزاج اور نظریات کی بنیاد پر حزب اختلاف کے موضوع ترین رکن ہیں۔ نواز خان ناجی نے 2003میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کو مداخلت کرنے کے لئے ایک ریلی میں بھی شرکت کی تھی۔

2015 کے انتخابات میں اس حلقے سے اس حلقے سے مجموعی طور پر 31256ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جن میں خواتین ووٹروں کی تعداد 14709اور مرد ووٹروں کی تعداد 16547تھی۔ انتخابی میدان میں کل 9امیدوار اترے جن میں سے صرف تین امیدوار آزاد حیثیت میں حصہ لے رہا تھے۔ عام آدمی پارٹی کا ٹکٹ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق عامر خان کے پاس، پیپلزپارٹی نے بدرالدین بدر، آل پاکستان مسلم لیگ نے سید مدد شاہ، مسلم لیگ ن نے راجہ شکیل احمد، عوامی تحریک نے مرزا بیگ، تحریک انصاف نے نعمت شاہ کو ٹکٹ جاری کیا جبکہ سید صداقت علی شاہ، ظفر محمد شادم خیل اور نواز خان ناجی آزاد حیثیت میں لڑے۔ عوامی تحریک کے حصے میں 102، صداقت علی شاہ 109، عامر خان 133، بدرالدین بدر 909، سید مدد شاہ 1010، نعمت شاہ 1667ووٹ لے سکے۔ چٹورکھنڈ سے ابھرنے والے ظفر محمد شادم خیل نے 5135ووٹ، مسلم لیگ ن کے راجہ شکیل احمد نے 5158 ووٹ اور نواز خان ناجی نے 5259 ووٹ حاصل کئے۔ مجموعی طور پر 19482ووٹ پڑے جو کہ تناسب کے اعتبار سے 62فیصد تھے۔

آمدہ انتخابات کے لئے اس حلقے سے کل ووٹروں کی تعداد 37708ہے جن میں 17511خواتین اور 20297مرد ووٹر ہیں۔حلقے میں کل 58پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 9 انتہائی حساس اور 21کو حساس قرار دیدیا گیا ہے۔ انتخابات میں ایک وقفے کے بعد پیر کرم علی شاہ کے گھرانے نے دوبار ہ انٹری دیدی ہے۔ پیر کرم علی شاہ کے صاحبزادے سید جلال علی شاہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار نامزد کئے گئے ہیں۔ سابقہ الیکشن میں بھاری ووٹ لینے والے ظفر محمد شادم خیل الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور انہیں ضلعی صدارت سونپ دی گئی تاہم بعد ازاں انہوں نے پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دیکر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس وقت وہ حلقے سے تحریک انصاف کے نمائندے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے سابقہ ٹکٹ ہولڈر راجہ شکیل احمد، جو آرڈر2018 کے خلاف تحریک میں سرگرم تھے، نے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے کی بجائے آزاد حیثیت میں لڑنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی غذر سے مستعفیٰ ہوکر حالیہ دنوں شامل ہونے والے عاطف سلمان کو ٹکٹ دیدیا ہے۔ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سہیل احمد، جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر شیر امین، برابری پارٹی کی جانب سے اصغر خان ودیگر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

حلقے کے ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو اس وقت حلقے میں چار بڑے امیدوار ہیں جن میں سابقہ رکن نوازخان ناجی، آزاد امیدوار راجہ شکیل احمد، تحریک انصاف کے ظفر محمد شادم خیل، اور پیپلزپارٹی کے پیر سید جلال علی شاہ شامل ہیں۔ ان چاروں امیدواروں میں سخت مقابلہ کی توقع ہے،ان چاروں امیدواروں میں کسی کو بھی معمولی سمجھنا بہت بڑی حماقت ہوگی۔حتمی نتیجہ انتہائی کم ووٹوں کی بنیاد پر نکل آئے گا، جس میں دیگر امیدواروں کا بڑا اثر رسوخ ہوسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے