اپنی صحت کی خاطرصحت کے مراکز اور ڈاکٹرز کا خیال رکھیں

ہمارے ہاں معروف دعاؤں میں سے ایک اللہ تعالی سے تھا، نہ کچہری اور ہسپتال سے امان مانگناہے۔اس دعا کے مانگنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن میں فوری طور پر سمجھ میں آنے والی وجوہات میں لڑائی جھگڑوں اور بیماری سے بچنا ہے ، تاہم جو اصل وجہ ہے وہ ان مقامات کا ماحول ہے ، ہونا تو یہ چاہیے کہ تھانہ کچہریوں سے لوگوں کو لڑائی جھگڑوں کے تصفیے ملے ، صلح ملے، امن ملے ،سکون ملے لیکن بدقسمتی سے ان مقامات پر جاکر گویا آپ نے اپنے جھگڑوں کو طول دے دی، صلح اور تصفیے کے امکانات کم کردیے اور اپنی عارضی پریشانی اور بے چینی کو مستقل پریشانی میں تبدیل کردیا۔

دوسری جگہ ہسپتال ہیں، ہونا تویہ چاہیے کہ وہاں جاکر بیماروں کو علاج ملے، صحت ملے اور تندرستی ملے۔ تاہم ہم نے اس کا ماحوال ایسا بنایا ہے کہ ایسی جگہوں پر ایک صحت مند انسان بھی اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں ، عموما جوبھی مریض ہسپتال میں داخل ہوتاہے، اس کے ساتھ کئی اٹینڈنٹ یا قریبی عزیز و اقربا ہوتےہیں، میرے خیال میں ڈاکٹرزکے مشورے کے مطابق مریض کے ساتھ یا پاس ضرورت سے زیادہ اقربا یا اٹینڈنٹ نہیں ہونے چاہیے ۔ کیونکہ ہسپتالوں میں سہولیات( واش روم ، بیٹھنے کی جگہ، لفٹس) مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دی جاتی ہیں لہذا تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ سہولیات کم پڑ جاتی ہیں اور ایک صحت مند ماحول بیمار اور تعفن والا ماحول بن بن جاتاہے ۔

بڑے اور منظم ہسپتالوں کی طرح عام اوردور دراز کے ہسپتالوں میں بھی مریضوں کی عیادت یا ملاقات کیلئے مخصوص اوقات کار ہونے چاہییں اور ان پر سختی سے عملدردرآمد ہونا چاہیے۔ مریض کی عیادت کے لیے جاتے وقت پھل جوس اور کھانے پینے کی دوسری اشیا لے جانے کارواج ہے ، یہ ایک اچھی روایت ہے تاہم کھانے پینا اس مقصد کیلئے متعین کردہ مخصوص جگہوں پر ہونا چاہیے اور کھانے کے بعد شاپر جوس کے ڈبوں وغیرہ کو ٹھکانے لگانا چاہیے ۔ اکثر لوگ عیادت کیلئے جاتے وقت اپنے ساتھ بچے بھی لے جاتے ہیں حالانکہ بچے نازک ہوتے ہیں اور آسانی سے جراثیم پکڑ سکتے ہیں لہذا کوشش کرنی چاہیے بچوں کو ہسپتالوں سے دور رکھا جائے جب تک وہ خود بیمار نہ ہوجائیں۔

ہمیں بطور مجموعی تربیت کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹڑ سے بات کرتے وقت اکثر کئی افراد اس کے ارد گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سب اپنی بات سنا رہے ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر ڈاکٹڑ کو غصہ آتاہے ،صحیح بات پہنچتی نہیں اور مریض کا مسئلہ ادھورا رہ جاتاہے لہذا ایک ہی قریبی عزیز جو مریض کی بیماری سے اچھی طرح واقف ہو کو ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔

میں نے پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے ہسپتال وزٹ کیے ہیں اور بسا اوقات افراتفری ، بد نظمی ، صفانی کا فقدان دیکھاہے۔ اور جب بھی گیا ہوں اکثر یہی دعا مانگی ہے کہ اللہ ہسپتال سے بچائے۔ تاہم چین میں میرا تجربہ اس سے بالکل الٹ رہا ہے ۔ میں بیجنگ میں جہاں رہتاہوں پاس ہی ایک بڑا ہسپتال واقع ہے تاہم ا باہراور اندر سے انتہائی صاف ستھرا اور انتہائی منظم انداز میں چلتاہے ۔ کئی مرتبہ اپنی بیماری اور گھر والوں کے ساتھ جانا پڑا لیکن کبھی ڈر اورخوف محسوس نہیں ہوا کیونکہ ماحول انتہائی پر سکون اورطریقہ کار اور علاج کے تما م مراحل بڑے اچھے انداز میں تکمیل پائے ۔

اس کے علاوہ بیجنگ کے کئی دیگربڑے ہسپتالوں میں جانے کا اتفاق ہوا، یہ نہیں کہ یہاں ہسپتالوں میں رش کم ہوتاہے ، مشہوراور بڑے ہسپتالوں میں کافی ہجوم ہوتاہے لیکن سب لوگ خواہ وہ مریض ہو یا اس کے ساتھ آنے والے ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہیں، قوائد و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں اور طبی عملہ بھی پورے انہماک اور نظم کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے ۔ لہذا تنگی کا احساس نہیں ہوتا اور مریض ہونے اور مریض کے ساتھ ہونے، دونوں صورتوں میں ہسپتال جانے سے ڈر نہیں لگتا ۔ چین کی بڑی آؓبادی ہونے کے باوجود ڈسپلن کے بدولت سارے امور انہتائی ہموار انداز میں بغیر کسی رکاوٹ کے چلتے ہیں ، ہر کام کیلئے ایک ضابطہ ہے اور یہاں کے لوگ ان قوانین اور ضابطوں کا احترام کرتےہیں اور ان کی پابندی کرتے ہیں ۔

واپس پاکستان کی طرف آتا ہوں۔ ہسپتالون کی حالت ٹھیک رکھنے کیلئے نظم کی انتہائی ضرورت ہے ،بحیثیت مجموعی ہم اپنا سماجی لائف سٹائل ہر جگہ اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں ،تعلیمی اداے ہوں ، دفاتر ہوں ، ہسپتال ہو ہر جگہ اپنے سماجی روابط اور کھلا ڈالا انداز اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں، میرے خیال میں ہمیں توازن کی ضرورت ہے، جس طرح بین لاقوامی سطح پر ہر جگہ ہر محفل ہر سرگرمی ہر ادارے کے اپنے آداب ہوتے ہیں اور ان آداب کے مشاہدے ہی سے وہان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ ہوتاہے لہذا اپنے ہسپتالوں اور طبی مراکز کے ماحول کو ٹھیک رکھنے کیلئے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی نظم کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ نہ صرف اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے بلکہ صحت کے مراکز کا بھی خیال رکھنا ہے کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے