انتخابات 2020: حلقہ 22 گانچھے 1

ضلع گانچھے گلگت بلتستان کا آخری ضلع ہے اور حلقہ بندی کے اعتبار سے بھی گانچھے کے تینوں حلقے سب سے آخر میں رکھے گئے ہیں۔ 6267مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے گانچھے کو 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ضلع کا درجہ دیا جسے آمر جنرل ضیاءالحق نے 1978میں اقتدار حاصل کرتے ہی تحلیل کردیا ۔ 1989میں دوبارہ پیپلزپارٹی کی حکومت آگئی تو بینظیر بھٹو نے گانچھے کی سابقہ حیثیت بحال کرتے ہوئے اسے پانچواں ضلع بنادیا۔ ضلع گانچھے کا ہیڈکوارٹر خپلو ہے۔

گلگت بلتستان کا یہ خطہ بھی سیاحت، وسائل، نباتات، تاریخی مقامات، پہاڑ اور نایاب جانوروں سے مالامال ہے بالخصوص گانچھے کے دلفریب قدرتی مناظر سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے۔ گانچھے کے جنوب کی جانب مقبوضہ کشمیر انڈیا کا وہ علاقہ ہے جسے حال ہی میں یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا ہے جسے لداخ کہتے ہیں۔اس علاقے میں موجود سیاچن گلیشیئر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعات کا مرکز بنارہا ہے جس کے لئے اس گلیشیئر کو ’پیس پارک ‘ بنانے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔گانچھے کا لفظی معنی بھی بلتی زبان میں گلیشیئرز کی سرزمین ہے۔

گانچھے کا علاقہ اپنے آب و ہوا کی وجہ سے بھی مشہور ہے جہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی 20سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ یہاں پر سات ہزار میٹر بلند متعدد پہاڑ بھی موجود ہے۔ مذہبی اعتبار سے اس ضلع میں سب سے زیادہ نوربخشیہ مسلک کے افراد بستے ہیں ، جو کہ مشہور صوفی بزرگ نوربخش قہشتانی کے پیروکار ہیں۔ ضلع گانچھے میں 80فیصد نوربخشیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں جبکہ 15فیصد اہلحدیث مسلک کے لوگ بھی بستے ہیں ۔ضلع گانچھے کی تعلیمی شرح بھی بہتر ہے تاہم انفراسٹرکچر کے اعتبار سے یہ پسماندہ علاقہ ہے۔

گلگت بلتستان کے آمدہ انتخابات کی مہم کا آغاز بلاول بھٹو زرداری نے گانچھے سے ہی کیا تھا۔ضلع گانچھے کو گلگت بلتستان کا ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی پر امن ترین ضلع قرار دیا جاتا ہے جہاں پر جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہاں کے مساجد میں جو جیسے نماز پڑھتا ہے وہ اس کی مرضی اور نیت پر منحصر ہے کیونکہ ہر بندہ سمجھتا ہے کہ بندے اور خدا کے مابین تیسرے شخص کا کوئی کردار نہیں ہے۔۔

1970کی مشاورتی کونسل میں گانچھے سے دو نمائندے شامل ہوئے ۔ وزیر محمد صادق اور راجہ فتح علی خان کو یوں پہلی مرتبہ گانچھے کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1975کی ناردرن ایریاز کونسل میں گانچھے سے تین نمائندے آگئے جن میں وزیر محمد صادق ، راجہ حامد حسین بلغار، اور سید محمد کاظمی شامل تھے۔ 1979 میں تیسری مدت کے انتخابات میں خپلو سے سید محمد شاہ کو بلامقابلہ جیتنے اور غلام علی حیدری کو انتخابات لڑکر جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1983 کے انتخابات میں گانچھے سے محمد جعفر اور محمد اسماعیل کو نمائندگی مل گئی۔ 1987 میں گانچھے سے سید طاہر علی شاہ اور محمد جعفر جیت گئے۔ 1991کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر محمد جعفر اور فدا حسین زیدی کو نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا ۔

1994میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے اور حلقہ بندی بھی کی گئی جس کے تحت گانچھے ضلع کو تین نشستیں مل گئی۔ 1994کے انتخابات میں گلگت بلتستان کے حلقہ 22 اور گانچھے 1سے فدا حسین زیدی کو اکثریت مل گئی ۔ 1999 کے انتخابات میں گانچھے حلقہ 1 سے ایک مرتبہ پھر محمد جعفر اسمبلی پہنچ گئے ۔ 2004کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ابراہیم ثنائی الیکشن جیت گئے ۔

26499ووٹ جس میں خواتین کی تعداد 13084اور مرد ووٹروں کی تعداد 13415تھی ۔ انتخابی میدان میں کل چار امیدوار پنجہ آزمائی کے لئے اترے جن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر محمد جعفر ،مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر محمد ابراہیم ثنائی ایم کیو ایم سے محمد اسماعیل اور محمد بشیر آزاد حیثیت میں اترے۔ انتخابی دنگل پیپلزپارٹی کے محمد جعفر اور ن لیگ کے ابراہیم ثنائی کے درمیان سج گیا جس میں ابراہیم ثنائی نے 5876ووٹ حاصل کئے اور پیپلزپارٹی کے محمد جعفرنے 7861ووٹ حاصل کرکے معرکہ جیت لیا۔ دیگر امیدوار وں میں ایم کیو ایم 94 اور آزاد امیدوار کے حصے میں 9ووٹ آگئے۔ مہدی شاہ حکومت میں محمد جعفر سینئر صوبائی وزیر کے زمہ داریوں پر فائز ہوگئے ۔ محمد جعفر کھرے مزاج کے سیاستدان ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مہدی شاہ سے اختلافات میں رہتے تھے جبکہ مہدی شاہ جمہوریت پسندی کی سوچ کی وجہ سے ان کے اختلاف کو اختلاف رائے کے طور پر لیتے تھے ۔

2015کے انتخابات میں 24721ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جن میں خواتین کی تعداد 11642 اور مرددووٹروں کی تعداد 13079تھی۔ سابقہ سینئر صوبائی وزیر محمد جعفر نے بوجوہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ واپس کردیا۔ 2015کے انتخابات میں یہ واحد حلقہ تھا جہاں پر پیپلزپارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرسکی۔ اور یہ نکتہ پیپلزپارٹی کے کمزور ڈھانچے کے علامت کے طور پر لیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے حلقے کو خالی چھوڑنے پر دوسرے حلقے سے آمنہ انصاری اس حلقے میں کود پڑی۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑنے والی آمنہ انصاری کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ دو حلقوں سے لڑنے والی واحد امیدوار کے طور پر سامنے آگئی جبکہ خواتین امیدوار کے طور پر انہوں نے انتخابی سیاست میں تاریخ رقم کردی۔ آمنہ انصاری کی زیادہ توجہ حلقہ 23 گانچھے 2میں رہی جس کی وجہ سے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آمنہ انصاری صرف 1860 ووٹ لے سکی جبکہ مدمقابلہ ابراہیم ثنائی نے خالی میدان میں اکیلے گھوڑا دوڑایا اور حلقے سے ریکارڈ 11382 ووٹ حاصل کئے۔ حفیظ حکومت میں ابراہیم ثنائی وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ ابراہیم ثنائی کا شمار بھی پڑھے لکھے سیاستدانوں میں ہوتا ہے تاہم پارٹیاں بدلنے میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لئے درخواست دینے والے ابراہیم ثنائی اس وقت تک ن لیگ میں رہے جب تک پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کا اعلان نہیں کیا اور ٹکٹ لینے کے بعد ن لیگ کو خیرباد کہہ دیا حالانکہ ن لیگ سے وفاداری کا اعلانیہ حلف لیا ہوا تھا۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے مجموعی طور پر 29014 ووٹ رجسٹرڈ ہوا ہے جن میں خواتین کی تعداد 13168اور مرد ووٹروں کی تعداد 15936ہے۔گانچھے حلقہ 1میں کل 54پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں صرف 3انتہائی حساس پولنگ سٹیشن ہیں جبکہ تین پولنگ سٹیشن حساس قراردئے گئے ہیں اور 48پولنگ سٹیشن معمول کے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام حلقوں میں سب سے زیادہ پر امن حلقہ یہی ہے جہاں پر ریکارڈ پولنگ سٹیشن حساس یا انتہائی حسا س نہیں ہیں۔ انتخابی میدان میں اس حلقے سے 10 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور انتخابی نشان بھی حاصل کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے حفیظ حکومت کے وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے گھر کا بھولا شام کو واپس آیا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے محمد جعفرکو ٹکٹ جاری کیا ہے ۔ مسلم لیگ ن نے اس حلقے سے رضاءالحق کو اتارا ہے جس کا تجربہ کم ہے تاہم خوبیوں کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ جمعیت علماءاسلام نے اس حلقے سے پہلی مرتبہ اپنا امیدوار اتار ہے جسے غلام نبی نے حاصل کیا ہے۔ حلقے کا ماضی محمد جعفر کی طرف جھکا ہوا ہے تاہم تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کی اس حلقے اور ضلع پر خصوصی توجہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے محمد جعفر کو میدان خالی نہیں چھوڑنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے