انتخابات 2020: حلقہ 23گانچھے 2

گانچھے کے اس حلقے سے متعلق متعدد معلومات گزشتہ کالم یعنی حلقہ 22گانچھے 1میں زکر کئے گئے ہیں کیونکہ ضلعی سطح پر اکثریتی معلومات ضلع کے پہلے حلقے کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ ضلع گانچھے کا ایک حلقہ 1994تک کھرمنگ کے ساتھ مشترکہ رہا ہے جس کی وجہ سے کبھی کھرمنگ سے نمائندہ آجاتا اور کبھی گانچھے سے جیت جاتا۔ گانچھے کا حلقہ نمبر2یعنی جی بی 23گلگت کے حلقہ 2سے اس صورت میں مماثلت رکھتا ہے کہ دونوں حلقے ایک سب ڈویژن مکمل اور ایک آدھے سب ڈویژن پر مشتمل ہے۔ گانچھے حلقہ 2میں زیادہ حصہ سب ڈویژن چھوربٹ کا ہے۔
اس حلقے کا آغاز یوگو نامی علاقے سے ہوتا ہے جو ہندوستانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے جس کے ساتھ لگنے والے علاقے کا نام سونوچھوربٹ ہے۔وادی گانچھے کا ہیڈکوارٹر خپلو بھی اسی حلقے میں شامل ہے۔ اس حلقے میں ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد چقچن ہے۔ اس مسجد کو بلتستان کی قدیم ترین مسجد قرار دیا جاتا ہے جس کی بنیاد معروف صوفی بزرگ سید علی ہمدانی نے رکھی ہے جس کی تکمیل سید شمس الدین عراقی نے کرلی۔ اس مسجد کی طرز تعمیر سرینگر کی مسجد خانقاہ معلی کے عین مطابق کی گئی۔ عکس گلگت بلتستان کے مولف شیرباز علی برچہ کے مطابق اس مسجد کے مقام پر ایک بودھی عبادت گاہ تھی اور ایک بودھ راہب کا قیام ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ بودھ عالم کا سید علی ہمدانی سے مناظرہ ہوا جس میں بودھ راہب بری طرح شکست کھاگیا اور حضرت کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا۔

انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا قلعہ خپلو بھی اس حلقے کی زینت ہے جسے حویلی کشمیری اور مغل طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ بتایا جاتا ہے۔اگر 1994کی نئی حلقہ بندی اور جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات سے لیکر اب تک کا جائزہ لیا جائے تو اس حلقے سے سب سے پہلے محمد اقبال نے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 1999 میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے سے غلام علی حیدری نے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا، ان انتخابات میں عقیلہ خاتون نے خواتین کی نشستوں پر ضلع گانچھے سے نمائندگی کی۔ 2004کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر محمد اقبال اسمبلی پہنچ گئے، مذکورہ انتخابات میں بلتستان سے ق لیگ کو ملنے والی 9 میں سے 7سیٹوں میں سے ایک سیٹ یہ تھی، ان انتخابات میں خواتین کی خصوصی نشستوں پر گانچھے سے آمنہ انصاری کا قرعہ نکل گیا اور وہ اسمبلی تک پہنچ گئی۔جبکہ ماہرین شاہی یعنی ٹیکنوکریٹ نشست پر بھی اس حلقے کے غلام حسین ایڈوکیٹ اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

2009 کے انتخابات میں اس حلقے سے کل 25187 ووٹر رجسٹرڈ ہوئے تھے جن میں خواتین کی تعداد 12404 اور مرد ووٹروں کی تعداد 12783رہی۔انتخابات میں کل چار امیدواروں نے حصہ لیا۔ چار امیدواروں میں سے دو امیدوار ایسے تھے جو سابقہ انتخابات میں خصوصی نشستوں پر جیت گئے تھے اور اس بار وہ انتخابات میں اتررہے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایڈوکیٹ غلام حسین، مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آمنہ انصاری ایڈوکیٹ، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر محمد عبداللہ صاحب میدان میں اترے تھے جبکہ ایم کیو ایم نے اپنا ٹکٹ اس حلقے سے عابد حسین کو دیدیا جو 311ووٹ لے سکے۔ ق لیگ سے پیپلزپارٹی میں آکر اور ٹکٹ پر لڑنے والے ایڈوکیٹ غلام حسین نے انتخابات مین 3661ووٹ حاصل کئے۔ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑنے والی آمنہ انصاری نے انتخابات میں 4029 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے محمد عبداللہ نے 4226 ووٹ حاصل کئے اور رکن اسمبلی بن گئے۔ محمد عبداللہ صاحب 2009کے انتخابات میں حاجی جانباز کے بعد دوسرے شخص تھے جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جیت گئے تھے۔ انتخابات میں کل 12227ووٹ پڑگئے جو کہ مجموعی ووٹ کا کل 48 فیصد تھا۔ قسمت کی دیوی دوسرے نمبر پر آنے والی آمنہ انصاری پر مہربان ہوگئی اور وہ خواتین کی خصوصی نشست پر ق لیگ سے دوبارہ اسمبلی پہنچ گئی۔ محمد عبداللہ صاحب مہدی شاہ حکومت کے دوران حزب اختلاف میں رہے تاہم اپنا پانچ سالہ مدت پورا نہیں کرسکے اور دنیا سے رحلت فرماگئے۔ ضمنی انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر سلطان علی خان لڑے اور اسمبلی پہنچ گئے۔ اس حلقے پر قسمت کی دیوی یوں مہربان ہوگئی کہ خصوصی نشستوں پر ایک اور خاتون شیرین فاطمہ کا انتخاب ہوا جو اسی حلقے سے تعلق رکھتی تھی۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے کل ووٹروں کی تعداد 23286تھی جن میں 10870خواتین اور 12416مرد ووٹر شامل تھے۔ انتخابی دنگل میں 7 امیدواروں نے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کرلیا۔ اس بار حلقے کی صف بندی پھر تبدیل ہوگئی۔ مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے دوبار خصوصی نشستوں پر اسمبلی پہنچنے والی آمنہ انصاری نے تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرلیا۔ 2015کے انتخابات میں وہ واحد امیدوار رہی جس نے 2حلقوں سے انتخاب لڑا۔ مسلم لیگ ق کے دور میں خصوصی نشست پر رکن اسمبلی بننے اور بعد میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑنے والے غلام حسین ایڈوکیٹ نے اس بار مسلم لیگ ن کو لبیک کہا۔ پیپلزپارٹی کو اس حلقے سے امیدوار نہیں مل سکا جس کی وجہ سے انہوں نے شیرین فاطمہ کو میدان میں اتارا۔ پاکستان عوامی تحریک نے خادم حسین، ایم کیو ایم نے زوہیر احمد خان، جبکہ عبدالسلام اور محمد اقبال نے آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ محمد اقبال 20 اور عبدالسلام 99پہ رک گئے۔ خادم حسین 140تک شیرین فاطمہ 182 تک پہنچ گئی جبکہ زوہر احمد خان نے 227 ووٹ حاصل کئے۔ انتخابی دنگل مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لڑنے والے غلام حسین ایڈوکیٹ اور پی ٹی آئی سے لڑنے والی آمنہ انصاری ایڈوکیٹ کے درمیان سج گیا۔ آمنہ انصاری کو حلقے 5710ووٹ مل گئے جبکہ غلام حسین ایڈوکیٹ کو 6357 ووٹ مل گئے۔آمنہ انصاری اگر گانچھے حلقہ 1پہ نہیں لڑتی اور صرف اسی حلقے پر توجہ مرکوز کرتی تو شاید مقابلہ مزید سخت ہوتا۔ غلام حسین ایڈوکیٹ مسلم لیگ ن کی اکثریتی اسمبلی اور حفیظ حکومت میں ایک عرصے تک تیسری صف میں رہے تاہم ثوبیہ مقدم کو وزارت امور نوجوانان و بہبود خواتین سے فارغ کرنے کے بعد غلام حسین ایڈوکیٹ کو مذکورہ قلمدان مل گیا۔ غلام حسین ایڈوکیٹ کو وزارت دینے کے بعد سے حفیظ حکومت میں خواتین کی نمائندگی نہیں تھی۔حفیظ حکومت کے دوران بھی خواتین کی خصوصی نشست پر اس ضلع کی قسمت جاگ گئی اور شیرین اختر جیت گئی۔ اس وقت شیرین اختر تینوں حلقوں میں اپنے امیدواروں کی مہم چلارہی ہے۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے 27522ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔جن میں 12633 خواتین اور 14889 مرد ووٹر ہیں۔ اس حلقے میں کل 48پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں سے 5انتہائی حساس اور 3کو حساس قرار دیا گیا ہے۔انتخابی میدان میں 15 امیدواروں نے اترنے کا عزم ظاہر کیا ہے جن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آمنہ انصاری، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر غلام حسین ایڈوکیٹ، پی ایس پی کے ٹکٹ پر غلام علی، پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سابق رکن غلام علی حیدری، مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ممتاز علی یوقوی اور جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر ولایت علی لڑرہے ہیں۔ آزاد امیدواروں میں محمد عبداللہ مرحوم کے فرزند امان اللہ، محمد امین خان و دیگر شامل ہیں۔اس حلقے کے ماضی کا ریکارڈ آمنہ انصاری کی طرف جھکا ہوا ہے کیونکہ مسلسل تیسری مرتبہ لڑرہی ہیں اور دو بار خصوصی نشستوں پر اسمبلی پہنچی ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے غلام علی حیدری میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپ سیٹ کرسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے