کارِپیغمبری یا محض پیشہ

یہ تاریخ ہے،

تاریخ حقیقت ہے اور اس کی روشنی میں ہی اگلی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔علم کیمیا،الجبرہ کا ابتدئی حصہ اور طبیعات کا جزوی حصہ صرف اور صرف مسلمانوں کی دین ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر عرب نہ ہوتے تو یورپ کا حال بھی افریقہ سے کم نہ ہوتا بلکہ اس سے زیادہ بدتر ہوتا۔ایک وقت میں یورپ کے دانشوروں کا ایک ہی کام تھا اور وہ تھا سائنسی کتابوں کا انگریزی،ڈچ اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ کرنا۔۔مثلاً انگریزی زبان کا لفظ measure معیار بنا،انفلوئزا‘انزال الائف(ناک بہنا) ، سیفران‘زعفران سے بنا ،ہارس کو فرس سے اور ارتھ کو ارض سے بنایا۔جی ہاں اس دور کی جدید علوم کے استاد عرب تھے اور مغربی ممالک کے محققین ان کے شاگرد ۔۔۔

پھر یہ منظر بدلا کیسے؟ ہوا یہ کہ مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ پیدا ہوا جوجدید علوم پر لاحول پڑھنے لگااور اس طبقے کے وارث اس قوم میں زندہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ سائنس ، سائنسی ترقی اور سائنس کے لطف و کرم کا سب سے زیادہ یہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہ لوگ سائنس پہ لعنت بھیجیں گے مگر باہر گھومنے کے لئے سب سے زیادہ فلائیٹ پکڑتے یہی لوگ نظر آئیں گے۔’’سائنسی تحقیق ہماری جوتی پر‘‘کہیں گے مگر اپنی جان بچانے کے لئے اور بہترین علاج کے لئے فوراً امریکہ یا یورپ بھاگیں گے۔

سائنس کے میدان میں ہماری پیش رفت نہ ہوپانے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اگلے وقتوں میں تو ہم سائنسی علوم کے امام تھے مگر بعد کے دور میں ہمارے اس میدان پر جمود طاری ہوا، ہم ساری راہیں بھٹک گئے اور پھر ایک مختصر عرصے  میں ہمارے اساتذہ لکیر کے فقیر بن گئے اور آج بھی اس بات کا ملال یا افسوس نہیں بلکہ شدید دکھ ہے کہ ہم تدریس کو کوئی تحریک نہیں بنا پائے،

 سائنس کی تدریس کے محاذ پر ہمارا فی الوقت حال کیا ہے‘ سن لیجئے۔اکثر اساتذہ سے ہم دریافت کرتے ہیں کہ انہوں نے تدریس کے پیشے (جی ہاں وہ اسے پیشہ کہتے‘ مشن یا تحریک وغیرہ کچھ نہیں)کو کیوں اپنایا تو ان کا جواب کیا ملے گا ‘ ملاحظہ کیجئے’’ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تھا، بہتری کی کوشش کی کوئی اچھی نوکری نہیں ملی‘ اس وجہ سے یہ پیشہ اپنا نا پڑا، گھر پر رہنے کے لئے صرف یہی نوکری تھی جو مل گئی‘‘اورسائنس کے اساتذہ بننے کا قصہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

آج سائنس کی فیکلٹی میں داخلہ لینے والوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے‘ صرف ڈاکٹر یا انجینئربننا۔ اب اگر داخلے کے لئے اچھے نمبر نہ ملے تب داخلے کے لئے دو یا تین سال انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر مطلوبہ نمبر نہ آئے تو وہ روتے دھوتے بی ایس سی کر لیتا ہے اور ٹیچر بن جاتا ہے، اب ظاہر ہے کہ اسی طرح روتے دھوتے بندہ سائنس ٹیچر بن جائے تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی، ٹیچر بننے کے بعد بھی ہر صبح آنکھ کھلتے ہی اس کے منہ سے نکلتا ہے کہ مجھے تو ڈاکٹر بننا تھا‘ ٹیچر نہیں، اب بھی اگر موقع ملا تو ٹیچنگ کو چھوڑ کر انجینئر بن جاؤں گا۔’’ٹھیک ہے بھئی ٹیچنگ ہی سہی قسمت میں یہی لکھا ہے تو ٹھیک ہے ٹیچر بن جاؤں گا‘‘۔

اس ملک میں اساتذہ کو کمیشن والوں کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے، اس سے پہلے تنخواہیں برائے نام ہوتی تھیں لہٰذا اس وقت ہمارے معاشرے میں سوچا جاتا تھا کہ اس سے دبئی میں ہیلپر بننا اچھا ہے کیونکہ وہاں تنخواہ تو زیادہ ملتی ہے، اگر ٹیچر بن گیا تو ساری عمر سائیکل پر گزرے گی، ساری عمر اس پرانے گھر میں رہنا پڑے گا، نیا بنگلہ بنانا ناممکن ہوگا، کچھ بھی کرو لیکن ٹیچر نہ بنو، زندگی بھر سوسائٹی کا قرض اٹھاتے رہوگے۔لہٰذا اس خرابی کا حکومت کو پتہ چل گیا کہ اس ملک میں ٹیچر بننے کے لئے کوئی تیار نہیں اور ٹیچر کے لئے صرف مایوس ، اداس اور ڈسٹرب لوگ مل رہے ہیں‘ تب جا کر حکومت اساتذہ کے لئے کمیشن کا پیکیج لے آئی، اس سے یہ ہوا کہ کچھ اچھے نمبروں والے طلبہ بھی ٹیچنگ کی جانب راغب ہوگئے ورنہ اس سے قبل یہ ہوتا تھا کہ ذہین طلبہ ڈاکٹر یا انجینئر بنتے تھے، درمیان والے آئی ٹی اور اوسط درجے والے طلبہ ٹیچر بننے کا طے کرتے تھے۔ جی ہاں! تھرڈ گریڈ کے طلبہ ہم قوم کے مستقبل کے معمار بنایا کرتے تھے اور ان سے یہ توقع رکھتے تھے کہ یہ ہمیں فرسٹ گریڈ کے طلبہ دیں گے۔

آج کل اچھی تنخواہ مل رہی ہے لیکن اچھے اساتذہ نہیں مل رہے، وجہ کیا ہے؟ہماری قوم نے تدریس کو ایک تحریک بنانے کی طرف توجہ نہیں دی، اساتذہ کو بڑا مقام نہیں دیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ قوم جس کے پیغمبر نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، اس قوم نے معلمی کو کارِ پیغمبری کا درجہ نہیں دیا، ہماری قوم کا تعلیمی اداروں اورتعلیمی نظام سے تھوڑا سا جو تعلق ہے‘ وہ اسحقیقت کا غمازہے کہ ہمارے اکثر اساتذہ کیلئے ٹیچنگ آٹھ سے لے کر ایک بجے تک کی محض ایک جاب ہے، سرکاری فرمان ان کے لئے الہامی فرمان ہے، وہ بس اسی فرمان کے پابند رہتے ہیں اور سرکار کی سوچ سے زیادہ کچھ نہیں سوچتے،

حق کی بات کہنے اور اس پر عمل کرنے کا خیال ان کے دل میں آجاتا ہے تو اپنے ضمیر پر لاحول پڑھتے ہیں اور سرکاری افسران کی جو پالیسی ہے وہ بیان کرتے ہیں اور سرکاری دانشوران و مفکرین کے جو فرمودات ہیں‘ وہی ان کی نظر میں درست ہیں اور کہیں گے کہ ہم ان سے زیادہ بہتر نہیں سوچ سکتے۔

جو قوم کارِ پیغمبری کو صرف ایک جاب سمجھتی ہے‘ اس قوم میں اور اس کی نئی نسل کے ذہنوں میں انقلاب یا تبدیلی کس طرح لائی جاسکتی ہے؟ سوچنے کی بات ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے