ٹرمپ امریکی تاریخ کے بد ترین صدر تھے؟

باب ووڈ ورڈ امریکی صحافی ہیں جن کی رپورٹنگ نے امریکی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اسکینڈل ’ واٹر گیٹ‘ کو بے نقاب کرکے صدر رچرڈ نکسن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ وہ امریکی صدور کے دور صدارت پر پچھلے پچاس سال میں بیس سے زائد کتابیں لکھ کرصحافت کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ’ پلٹزر پرائز‘ دو مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ باب کو بجا طور پر وائٹ ہاؤس کا chronicler (وقائع نگار یا مورخ) بھی کہا جاتا ہے۔

‘RAGE’ (بمعنی شدید غصہ یا اشتعال) امریکی تاریخ کے متنازعہ ترین صدر ٹرمپ کے دور صدارت پر ان کی دوسری کتاب ہے، جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔کتاب کے اختتام پر ان کا کہنا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق یہ آدمی اس عہدے کے لئے قطعی نامناسب ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ ان کی پچھلی کتاب FEAR کے برعکس جس کے لئے صدر ٹرمپ نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، RAGE کے لئے صدر ٹرمپ نے سترہ انٹرویو دیئے ہیں جن کا مجموعی دورانیہ نو گھنٹے بنتا ہے ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہم موجودہ اور سابق عہدے داروں سے سو سے زائد انٹرویوز پر مبنی معلومات بھی اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ ان ذرائع (سورسز) کی ڈائریز، وائٹ ہاؤس کے ٹیپ، اور دیگر ریکارڈ سے بھی مدد لی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے ذرائع بھی ڈیپ بیک گراؤنڈ ہیں یعنی جو معلومات دی گئی ہیں، ان کی سورسز نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر انہیں وائٹ ہاؤس کی اندرون خانہ سیاست کی معلومات فراہم کی ہیں ۔ کتاب کے بڑے حصے میں کورونا کی وبا کے دوران صدر ٹرمپ کی غیر ذمہ داری کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا دنیا کی چار فیصد آبادی ہے لیکن 25 فیصد کورونا سے متاثرہ اموات یہاں ہوئیں ۔ اس کے علاوہ ان کے دور صدارت میں امریکا کی اندرونی اور بیرونی پالیسیز کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے فیصلے اور ان کے اپنے اسٹاف سے کشیدہ یا ناہموار تعلقات پر بھی تنقید کی گئی ہے ۔ کتاب میں روس کے امریکی انتخابات میں سائبر مداخلت اور یوکرائن کے حوالے سے صدر کے مواخذے پر بھی تفصیلی بحث موجود ہے ۔ یاد رہے کہ فروری 2020 ء میں امریکی عدالت نے کوئی الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں دونوں الزامات سے بری کر دیا ۔

راقم کے نزدیک اس تنقید کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں بین السطور باب نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے حقائق منظر عام پر لے آئے ہیں جن پر میڈیا نے اپنی توجہ مرکوز نہیں کی مثلاً صدر ٹرمپ اپنی صدارت کی ابتدا سے امریکی فوج کی دنیا کے بیشتر حصوں میں موجودگی کے خلاف رہے ہیں۔

انھوں نے شروع سے امریکی فوج کو واپس بلانے پر زور دیا ۔ وہ نیٹو عسکری اتحاد، جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع پر امریکی بجٹ کے خرچ پر ناراض رہے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ جنوبی کوریا میں 32 ہزار فوجی رکھنے کی قیمت ساڑھے چار بلین ڈالر ہے جس میں جنوبی کوریا صرف 800 ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔ باب کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی انتظامیہ نے انہیں بڑی مشکل سے سمجھایا کہ نیٹو یورپ کی نہیں امریکا کی ضرورت ہے اور جنوبی کوریا میں بھی افواج کی موجودگی در اصل امریکا کو محفوظ بنانے کے لئے ہے ۔

ٹرمپ کے پہلے ڈیفنس سیکرٹری جیمس میٹس نے2018ء میں شام میں داعش کی شکست کے بعد احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا کہ ٹرمپ نے ان سے مشورے کے بغیر شام سے فوجیں واپس بلائیں ۔ میٹس کا کہنا تھا کہ شام میں دا عش کبھی بھی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے، اس لئے امریکی فوجوں کی مستقل موجودگی ضروری ہے اور کرد جو بڑی تعداد میں داعش کے خلاف امریکا کی طرف سے لڑتے رہے ہیں ، انہیں بھی ترکی سے خطرہ ہے ۔ صدر کا جواب تھا کہ ’ آپ لوگ چاہتے ہیں ہم ہمیشہ لڑتے رہیں ۔‘

یاد رہے کہ میٹس اوباما انتظامیہ میں بھی شامل تھے اور انہیں اس وقت ایران پر حملے کے لئے لابی کرنے پر معزول کیا گیا تھا ، جب اوباما ایران کے ساتھ نیوکلئیر ڈیل کر رہے تھے۔ کتاب میں باب جگہ جگہ صدر کے جنگ کا شوق اور ذوق نہ رکھنے پر مایوس نظر آئے ہیں اور مسلسل جنگ کے حامیوں کی خصوصاً میٹس کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے کہ باب جنگی جنوں کا شکار امریکی اسٹیبلشمنٹ اور نیو کنزرویٹو عناصر کے ساتھ ہیں ۔

باب کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ ٹرمپ کی واحد پالیسی ہے جس پر دونوں جماعتیں متحد ہیں اور ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اوباما دور میں معاشی طور پر ابھرتے ہوئے چین کے خطرے کو محسوس کر کے اس کے خلاف کوئی اسٹرٹیجی نہیں اپنائی گئی۔ یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے یہ امر بحث طلب ہے لیکن صدر آزاد تجارت کے بجائے، اپنی پروٹیکشنسٹ (حفاظتی یا ٹیرف پر مبنی) تجارتی پالیسی کے حمایتی ہیں۔ انہوں نے آتے ہی اسٹیل پر ٹیرف لگایا جس سے بہت سے ملکوں سے تعلقات خراب ہوئے۔

کتاب میں جا بجا محسوس ہوتا ہے کہ باب امریکی جنگی جنون میں مبتلا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ مثلاً ڈیفنس سیکرٹری جیمس میٹس پر جو ابواب ہیں ان میں ان کی حمایت کے ساتھ ساتھ باب نے ایک جذباتی بیانیہ دیا ہے۔ افغانستان یا عراق میں مارے جانے والے ایک فوجی کی والدہ سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ امریکا تیس کے بجائے نوے ہزار فوجی افغانستان کیوں نہیں بھیجتا؟ ( تاکہ افغانستان اور عراق میں امریکی جیت کو یقینی بنا کر ان کے بیٹے کا بدلہ لیا جا سکے) ایک جہاندیدہ صحافی کے منہ سے عراق اور افغانستان کی جنگ کی اس حد تک حمایت جو بظاہر غیر جانب دار رپورٹنگ کے نام پر کی گئی ہے تعجب ہوتا ہے۔

اگر باب اس جگہ سنڈی شیہان جیسی ماؤں کا تذکرہ بھی کرتے تو زیادہ مناسب تھا جنہوں نے اپنے بیٹے عراق اور افغانستان میں گنوانے کے بعد امن کے لئے تحریک کا آغاز کیا جن کا کہنا تھا کہ بیٹے افغانی یا عراقی مارے جائیں یا امریکی، دکھ کی بات ہے۔ سنڈی کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا بیٹا امریکا کی حفاظت کے لئے نہیں مارا گیا۔ اس پر باب نے کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ عراق کی جنگ جس میں میٹس نے شرکت کی اس کا کیا جواز تھا۔

راقم کے نزدیک اس کتاب کا سب سے اہم اور دلچسپ حصہ شمالی کوریا کے لیڈر کم جنگ ان اور ٹرمپ کے تعلقات بڑھانے کے لئے ٹرمپ کی کوششیں ہیں جن سے امریکی تعلقات انتہائی خراب رہے تھے۔2017 ء میں شمالی کوریا نے فاصلے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تو باب کے مطابق امریکی سیکرٹری آف ڈیفنس میٹس نے چرچ جا کر خدا سے ہمت اور ہدایت طلب کرنا شروع کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان نیوکلئیر جنگ اب نا گزیرہو چکی ہے لیکن ٹرمپ نے اس موقع پر شمالی کوریا کے صدر کم جنگ ان سے براہ راست ملنے کا فیصلہ کیا جس پر شدید تنقید کی گئی کیونکہ اس سے پیشتر کسی امریکی صدر نے ایسی کوئی پیش رفت نہیں کی۔ صدر ٹرمپ نہ صرف شمالی کورین صدر سے ملے بلکہ ان کے درمیان ستائیس خطوط کا تبادلہ بھی ہوا جو انتہائی دلچسپ برومانس پر مبنی ہیں۔

اپنی نوعیت کے عجیب تعلقات کا انتہائی دلچسپ مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب جاپان کے دورے کے دوران ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ اگر کورین صدر یہ پڑھ رہے ہیں تو کیا وہ دو دن بعد جنوبی اور شمالی کوریا کی سرحد پر ان سے ’ ہیلو ‘ کہنے آ سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ جنوبی کوریا کے دورے کے دوران سرحد پر جا کر نہ صرف بارڈر پر کم سے بالمشافہ ملے بلکہ کم سے اجازت کے بعد سرحد پار کر کے شمالیکوریا میں داخل بھی ہوگئے۔

اس موقع کو بھی امریکی پریس نے منفی کوریج دی کہ ٹرمپ شہرت کے بھوکے ہیں۔ باب اس موقع پر حقائق بیان کرنے کے باوجود اس بات کی تعریف کرنا بھول گئے کہ میٹس کے مذکورہ امریکی کوریا جنگ کے خطرے کو صدر ٹرمپ اپنی ڈپلومیسی سے دور کرنے کو کامیاب ہو گئے۔

کتاب چھیالیس ابواب پر مشتمل ہے اور انتہائی آسان فہم زبان میں تحریر کی گئی ہے جو باب کا خاصہ رہا ہے۔ یہ اپنی ہر کتاب میں دی گئی معلومات کے حوالے سے ایک نوٹ ضرور دیتے ہیں کہ معلومات کیسے حاصل کی گئی ہیں تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ کتاب کے مختلف ابواب دلچسپ واقعات سے شروع ہوتے ہیں اور قاری تھوڑا سا غور کرے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ معلومات کا بیشتر حصہ کس نے فراہم کیا ہو گا۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ ایک پروفیشنل صحافی کی طرح باب بھی آف دی ریکارڈ معلومات نہیں چھاپ سکتے یعنی وہ معلومات جو انہیں دی تو جائے لیکن چھاپنے کی اجازت نہ دی جائے۔

بظاہر ان کی کتاب ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کا روزنامچہ محسوس ہوتی ہے لیکن کتاب میں بہت سے اہم موضوعات پر وائٹ ہاؤس کی پالیسی کو بحث کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس میں سرفہرست مشرق وسطیٰ، سعودی عرب اور اسرائیل کو تسلیم کروانے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے اقدامات اور ٹرمپ کی غیر معمولی کوششیں ہیں۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں ایغورعوام کے ساتھ چین کے مظالم کے حوالے سے بھی سر گرم رہا ہے، اس کا ذکر بھی باب نہیں کرتے۔ شمالی کوریا کے لیڈر کے ساتھ ٹرمپ کے تعلقات کیسے پروان چڑھے، اس کی تفصیل موجود ہے لیکن سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان سے ٹرمپ اور جارڈ کشنر سے تعلقات اور مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کا تذکرہ بالکل گول کر دیا گیا ہے۔

ٹرمپ کو امریکی انٹلی جنس اداروں نے ان کے دور صدارت میں مواخذے کے ذریعے بھی شدید دباؤ کا شکار رکھا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی مین اسٹریم پریس ٹرمپ سے خوش نہیں ہے کیونکہ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات مسلسل ٹرمپ کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔ کسی حد تک وہ ٹرمپ کی مخالفت میں حق بجانب بھی ہیں لیکن ٹرمپ کے امریکا کو جنگ سے نکلنے کی کوششوں کی تحسین نہ کرنا، شمالی کوریا سے ڈیل کو نظر انداز کرنا ، امریکی دفاعی اخراجات میں کمی اور امریکی فوجی اڈوں پر اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں کی تحسین نہ کرنا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ میڈیا ٹرمپ کے ساتھ تعصب برتا رہا ہے۔ پاپولر امریکی میڈیا در اصل جنگی جنون کا شکار امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ہی بیانیہ کا ہی ساتھ دیتا رہا ہے۔

ٹرمپ کی میڈیا کوریج میں انہیں نسل پرست، مسلم مخالف، مہاجر مخالف کہا جاتا ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ کیا سیاہ فام عوام کے ساتھ امریکا میں تفریق صدر ٹرمپ کے دور میں شروع ہوئی؟ یاد رہے کہ امریکی اعداد و شمار کے مطابق سیاہ فام نسل کے ایک ہزار افراد ہر سال پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔

صدر پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہیں امریکی اقدار کی سمجھ نہیں ہے، وہ جھوٹ بہت بولتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے قبل امریکی اقدار سے بہرہ مند صدور امریکی عوام اور کانگریس سے سنجیدہ جھوٹ نہیں بولتے رہے؟ جن میں ویت نام کی جنگ سے لے کر عراق، شام ، لیبیا ، افغانستان اور داعش کے پھیلاؤ کے حوالے سے بے شمار جھوٹ اب منظرعام پر آ رہے ہیں اور خود امریکی انتظامیہ اور میڈیا ان کا بے شرمی سے اقرار کرتا ہے ۔ فرق اگر ہے تو شاید اتنا کہ سابقہ امریکی صدور کی طرح ٹرمپ کو ڈپلومیٹک طریقے سے جھوٹ بولنے اور نفرت کے اظہار کا سلیقہ نہیں ہے ۔

اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا میں مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگانے کی بات کرنا زیادہ بڑا جرم ہے یا مسلمان ملکوں پر فضائی بمباری کر کے انہیں تباہ کر دینا اور بڑے پیمانے پر کولیٹرل ڈیمج کے نام پر سویلینز کی ہلاکت؟

یہ فیصلہ ہم قاری پر چھوڑتے ہیں ۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے