اسلام کا یہ کونسا ورژن ہے؟

کافی عرصے سے دماغ میرے ہی خلاف دھرنا دیے بیٹھا تھا کوشش کے باوجود کچھ نہ لکھنے کو دل چاہا رہاتھا۔ مگر اب کیا کیا جاے ملک عزیز دنیاں کے ان چند نایاب خطوں میں شامل ہے جہاں ہر لہذا ہر آن کچھ نہ کچھ نیا یا انہونا واقعہ وقوع پزیر ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔

جس کا اثر ایک عام آدمی کی زندگی کے ساتھ ساتھ احساس دلوں کو حد سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔

پیارے وطن میں کم درجے کے مسلمان تین دن عاشقان رسول کے نرغے میں یرغمال رہنے کے بعد ان کی مفلوج زندگی اس وقت بحال ہوی جب خاص مسلمانوں اور ریاستی مشینری کے درمیان پانچ نکاتی معاہدہ طے پاگیا اورملکی قیمتی املاک کو تاراج کرنے اور قیمتی جانوں کے نقصان کے بعد چند شرائط کے بعد گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔

آب یہ پتا نہیں کب اور کون سوچے گا کہ کون لٹا، کس نے لوٹا مقام صد شکر کے تین دن سچے مسلمانوں نے عام گنہگار مسلمانوں کو جہنم کا نظارہ کرانے کے بعد جان بخش دی۔

یہاں یہ خیال میری طرح آپ نے بھی لازمی سوچا ہو گا کہ معاشرے کا یہ پر امن، اشاعت دین کا داعی اور علمبردار دکھای دینے والا طبقہ اچانک اس قدر پرتشدد کیونکر ہو سکتا ہے؟
تو قارئین! چند باتیں جو میری سمجھ میں آی ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں آپ کا اپنے علم کے مطابق اتفاق یا مخالفت کا حق محفوظ رکھتے ہوے راقم کی رائے سے متفق ہونا ہر گز شرط نہیں۔
مگر میری رائے معاملات کو اس رخ میں دیکھنے کی کوشش ضرور ہو سکتی ہے۔
اس سے ہہلے کہ ہم اس پر بات کرہیں کہ جہالت ہی اس تمام مسلے کی جڑ ہے جو کہ بلاشبہ ہے بھی ہمارے لیے اس جہالت تک ہہنچانے میں جو عوامل کارفرما ہیں پہلے ان کا جاننا از حد ضروری ہے۔
اگر بغور دیکھا جاے تو ملک کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں کی تعداد میں اسلامی تعلیم کی ترویج کے لیے بنائے گے مدرسوں میں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان طالب علموں پر مشتمل ہے جن کو غربت اس نظام تعلیم کا حصہ بننے پر مجبور کرتی ہے
والدین بچوں کو مدرسوں کے حوالے کرتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ کم از کم ان کی اولاد کو تین ٹائم کا کھانا تو نصیب ہو گا یہ الگ بحث ہے کہ جو خوراک ان مدرسوں میں دی جاتی ہے اس خوراک کو مالکان تو دور کی بات منتظمین تک کھانے کی ہمت نہیں کرتے۔

پانی میں تیرتی دال کے چند دانے اور سبزی میں میٹھے آلو اور ٹینڈے کا شوربا، اگر عملی طور پر کبھی دیکھنے کی خواہش ہو تو کسی بھی مدرسے کے طالب علم کو دیکھ لیں اس کی جسمانی حالت ہی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہوتی ہے کہ اس کو دی جانے والی غذا کا معیار اور مقدار کیا ہے۔

مگر مدرسوں کو دیے گے صدقوں کے بکروں کا عکس اساتذہ کرام اور منتظمین مدرسہ کی بائر نکلی توند کے جغرافیہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کس کا اناج کس کی شکم پروری کر رہاہے۔
ماحول کی تنگ نظری اور گھٹن، جسمانی تشدد اور مطلوبہ معیار اور مقدار میں خوراک کی عدم دستابی ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ان مدرسوں میں زیر تعلیم طالب علموں کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھنے کا باعث بنتے ہیں اور اس کے ساتھ صدیوں پرانا تدریسی نظام تعلیم جو ایک اور مسجد کے پیش امام میں اضافہ تو کر رہا ہے مگر عالم بلعمل بنانے اور تحقیق پر مبنی تعلیم کا رواج کا دروازہ بھی شدت سے بند رکھتا ہے۔جو اس نظام تعلیم کی بوسیدگی کی ایک اور اہم وجہ ہے۔

سو ان جگہوں پر زیر تعلیم افراد کے اندر ہی اندر معاشرے کے لیے خود بخود اور لاشعوری طور پر ایک نفرت جنم لیتی ہے جس کو اوپر بیان کیے گے عوامل بخوبی پروان چڑھاتے ہیں اور پھر
ان سب سے بڑھ کر جو خطرناک چیز ان کچے زہنوں کی ہانڈی میں ڈال کر عقیدت کی آنچ پر پکای جاتی ہے وہ ہے روزانہ کی بنیادوں پر تحریر، تقریر کے زریعے زہن سازی اور اس عمل کے دوران جس چیز کا اعادہ باربار کیا جاتا ہے وہ عقیدہ کی تقرار ہے جس کی روح سے اپنے عقیدے کے علاوہ باقی سب دائرہ اسلام سے خارج سمجھے جاتے ہیں۔
یہ علم اور عمل عدم برداشت کی فضا کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ فرقہ ورایت کو ہوا دہنے کا باعث بھی بنتا ہے ۔

عموما نو سالہ بند ماحول میں زیر تعلیم رکھنے کے بعد آسانی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ان زہنوں کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہو گا۔
اب آتے ہیں ہم اپنے اصل موضوع کی جانب کہ گیھراو جلاو میں یہ نخیف و نزار مخلوق جلاد کا روپ کیسے دھار لیتی ہے تو جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ تو کتھارسس کا عمل ہے اندر کی آگ کو نکالنے کے لیے یہ واقعات زریعہ بنتے ہیں جن کے زریعے وہ معاشرے سے اپنی محرومی کا بدلہ لیتے ہیں اور بظائر پرامن لوگ یکلخت شیطان کے آلہ کار بن جاتے اور اس کے بعد بدقسمتی سے مرنے والا بھی مسلمان مارنے والا بھی مسلمان اور خیر سے دونوں شہید۔

ان عوامل کے علاوہ بحثیت قوم بھی ہم تربیت، علم اور عمل سے کوسوں دور ہیں ہم فرد واحد کی صورت میں اجتماعی مسائل میں کمی کی بجاے ہر دم کسی نہ کسی شکل میں بھر پور طریقے سے زیادہ کرنے کا اپنا حصہ بقدر جسہ لازمی ڈال رہے ہیں۔ جہاں ریاست اپنی زمہ داریاں کماحقہ پوری کرنے سے محروم نظر آتی ہے وہاں بطور فرد بھی ہم نے اپنی معاشرتی زمہ داریوں کا نا تو مکمل طور پر ادراق کر پاے ہیں اور نہ ہی اس کے تدارک کا کچھ سوچ سکے۔
تیسری دنیاں کے تقریبا تمام ممالک 90فیصد مسائل اپنے لیے خود تیار کرتے ہیں۔

تجارت، سیاست،تعلیم،مذہب کوی بھی جگہ ایسی نیہں ہو گی جہاں حکومت سے ہٹ کر ہم نے بطور فرد شاہد کسی دوسرے کے لیے آسانی پیدا کی ہو۔
بات مذ ہب کی ہو رہی تھی تو عرض کرتا چلوں ہمارا مذہبی طبقہ پورے معاشرے کا استسعال پر لگا ہوا ہے جو بولے گا اس کے لیے کافر کا فتوہ ان کی جیب میں ہوتا ہے۔
مذہب اسلام ایک خوبصورت طرز معاشرت اور لا جواب قانون زندگی کا ایک حسین امتزاج ہے مگر اس کو ایک جنون کی شکل دے دی گی ہے۔
میرا ماننا ہے اگر ہم مسلمان گھرانے میں پیدا نہ ہوتے تو جس اسلام کو آج کا مولانا ترویج کر رہا اور جس طریقے سے عمل سے عاری ہے اس سے تو لگتا ہے ان کے علاوہ شاہد ہی کوی مسلمان ہوتا۔

جو دین ہمارے پیاری نبی پاک کی جانب سے ہمیں ملا وہ تو اس قدر زندگی سے ہم آہنگ ہےکہ آج کے ترقی یافتہ ممالک تقریبا اس پر عمل پیرا ہو کر ایک پرسکون معاشرت کی بنیاد رکھ چکے ہیں اور اس سے حاصل کردہ سکون کے اثرات سے بیرامند بھی ہو رہے ہیں۔

مگر پتا نہیں ہمارے ہاں اسلام کا کونسا ورژن متعارف کرایا گیا ہے کہ جس سے نہ ہی کسی فرد واحد اور نہ ہی بحثیت مجموعی ہمارے اندر کوی تبدیلی آی اور نہ ہماری زندگیاں پرسکون ہوہیں۔
بطور مسلمان میرا یہ ایمان کامل ہے کہ محمد عربی کا دین تو محبت اور اصول معاشرت کے حسین امتزاج اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو خراب ہیں۔یہ ہمارے مسلمان ہی ہیں جو مسلمان مسجد اور کافر کی مسجد کی تفریق میں مبتلاہیں، ہم ہی کوئ وہابی ہے تو کوئ بریلوی۔
اسی تفرقہ بازی کی وجہ سے ہم نے ایک عام انسان اور مسلمان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

جہاں بیس تیس گھر ہوے سارے فرقے والے وہاں پہنچ جاہیں گے اور ہر گلی میں اپنی ڈیڑہ اینٹ کی مسچد کھڑی کر دہیں گے۔ اور مسجد کے دروازے پے تختی لگ جاے گی جہاں مسجد کا نام فرقہ کندہ ہو گا۔ اور یہ سب زیادہ تر قبضہ اور عوام کے چندے سے ہوتا۔
اس کے بعد بات یہاں ختم نہیں ہوتی ان تمام مساجد سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے جو آزان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو سماں یہ بنتا ہے کہ 50 گھروں کے محلے میں تین مساجد، اذان کے وقت کان پڑی آواز سنای نہیں دیتی سپیکرز کی آواز آپس میں ٹکرا رہی ہوتی ہیں اور اذان کاجو صوتی آہنگ ہوتا ہے ایک شیرنی اور مٹھاس اور حلاوت ہوتی وہ اس سارے عمل سے تباہ ہو کے رہ جاتی ہے بس ایک آواز بچتی ہے۔

اگر اہتمام کے ساتھ ایک خوبصورت آواز رب کی طرف بلاتی جو کان سے ہوتی دل تک کا سفر با آسانی کرتی اور جہاں کہیں ایسا ہوتا ہے یقین مانیں دل اور قدم خودبخود اس دو جہاں کے مالک کے گھر کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مگر کیا کیا جائے ہم جس اسلام کو جانتے ہیں اس میں جب تک دوسری روح کو بے چین نہ کر لیں ہماری اپنی روح کو چین نہیں ملتا۔
دوسرا مسلہ جس کو ہر پاکستانی کو سامنا ہے وہ ہمارے مذہبی” دنوں ” کی بہتات ہے۔

کبھی عید میلاد کا جلوس نکل رہا ہے تو سڑکیں بند، دکانیں بند، تو کبھی محرم کا جلوس چل رہا ہے روڈز بند کاروبار بند، نویں، دسویں ختم تو چہلم سٹارٹ اب پھر مخلوق خدا عذاب میں مبتلا۔
سال کے چھ مہنے ان عذابوں میں ایک غریب کو پیسا جاتا ہے اور باقی کے چھ مہینے دھرنوں ہڑتالوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم اتنے سچے عاشق اور مسلمان ہیں تو ہم ایک جگہ مختص کیوں نہیں کر لیتے جہاں یہ تیوار پوری ایمانی قوت سے مناہیں اور باقی مخلوق کو چین سے رہنے دہیں اور ویسے بھی آج کل جو حالات چل رہے ہیں اس میں یہ مناسب ترین ہے۔
دوسری جانب ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور جید علماء کے ساتھ ملکر جو وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجتے ہیں ان مسائل کی طرف فلفور توجہ دیں اور ان کا دیر پا حل نکالیں۔
مذہبی آزادی کے تصور کو صیح بنیادوں پر اجاگر کیا جاے اور ایسے قوانین مرتب کیے جاہیں کہ اگر کسی کو کچھ کہنا ہے کوئ چہلم کوئ نویں دسویں یا پھر میلاد کو منانا ہے تو شوق سے مختص کی گی جگہ پر جا کرمناے اور وہاں جمع ہو کر اپنے پورے دینی اور ایمانی ذوق و شوق کا مظاہرہ کرے اور باقی ملک کا پہیہ چلتا رہے۔

اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلامی ملک میں اسلامی تعلیمات اور ان کی ترویج اذ حد ضروری ہیں جس کے لیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی سپرستی کرے اور دینی علوم کے ساتھ جدید علوم بھی ان تک پہنچاے تا کہ وہاں صرف مولوی نہ بنیں اور ایک مسجد تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرے میں چلنے والے باقی عوامل کا بھی ادراق کر سکیں اور دوسرے طبقات ذندگی سے ملکر یہ جان سکیں کہ صرف وہ ہی سچے عاشق رسول نہیں اس ملک کی دوسری نوے فیصد سے زاہد آبادی بھی مسلمان ہے اور ان کے دل بھی حب رسول میں تڑپتے ہیں۔
اور اگر اس طبقے کو الگ تھلگ رکھا گیا اور اسے قومی دھارے میں شامل نہ کیا گیا تو آج ایک مولوی خادم پین دی سری کرتا نظر آ رہا ہے پھر ہر گلی میں ایک مولوی خادم ہو گا جو اسلام کا نعرہ لگا کر باقی مسلمانوں کا جینا حرام کر دے گا۔ جس کا عملی مظاہرہ ہم صرف دو دن پہلے خیر سے دیکھ چکے ہے۔

شاعر عوام جالب محروم کی نظم نظر سے گزری پڑھ کے لگا آج کے حالات کے لیے ہی لکھی گی ہے۔
اپ کی نظر کرتا ہوں اس دعا کہ ساتھ کہ اللہ پاک ہم سب پے رحم فرماے اور جب خدا ایک نبی ایک تو ہم کو بھی ایک ہونے کی توفیق دے امین۔

ناموس کے جھوٹے رکھوالو
بے جرم ستم کرنے والو
کیا سیرت نبوی جانتے ہو؟
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے؟
کیا یاد بھی ہے پیغام نبی؟
کیا نبی کی بات بھی مانتے ہو؟
یوں جانیں لو، یوں ظلم کرو
کیا یہ قرآن میں آیا تھا؟
اس رحمت عالم نے تم کو
کیا یہ اسلام سکھایا تھا؟
لاشوں پہ پتھر برسانا
کیا یہ ایمان کا حصہ ہے؟
الزام لگاؤ مار بھی دو؟
دامن سے مٹی جھاڑ بھی دو؟
مسلماں بھی کہلاؤ اور پھر
ماؤں کی گود اجاڑ بھی دو؟
تم سے نہ کوئ سوال کرے؟
نہ ظلم کو جرم خیال کرے؟
اس دیس میں جو بھی جب چاہے
لاشوں کو یوں پامال کرے؟
لیکن تم اتنا یاد رکھو
وہ وقت بھی آنا ہے
ہے جس کے نام پہ ظلم کیا
اس ذات کے آگے جانا ہے
اس خون ناحق کو پھر وہ
میزان حشر میں تولے گا
وہ سرور عالم محسن جاں
تم سے اتنا تو بولیں گے
اے ظلم جبر کے متوالو
تم حق کے نام پہ باطل ہو
تم وحشی ہو تم قاتل ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے