یوم مہربانی اور بیمار معاشرہ

تیرہ اکتوبر کو عالمی سطح پر یوم مہربانی منایا جاتا ہے۔اور پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بالکل حیرانگی کی بات ہے کہ یوم مہربانی اور جنسی زیادتی کے وحشی فعل کا آپس میں تعلق کیا ہے۔ تھوڑا آگے چلئیے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

چند روز قبل کشمور میں کراچی کی رہائشی خاتون اور اسکی چار سالہ معصوم بیٹی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔قصور کی ننھی بچی ، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی بچی اور حالیہ دنوں میں ماں سمیت ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھنے والی سبھی بچیاں ہمارے معاشرے کے چہرے پر طمانچے مار رہی ہیں۔ اور ہم ہیں کہ جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔چار سالہ بچی کی ماں کو نوکری کا جھانسہ دے کر کشمور لے جایا گیا۔ زیادتی کی گئی اور خیر اللہ بگٹی نامی درندے کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔

لیکن اصل امتحان تب شروع ہوا جب چار سالہ بچی نے موقع پر پہنچنے والے پولیس اہلکاروں سے ایک جانور کی حرکت کا گلہ کیا۔ وہ الفاظ لکھنے سے قاصر ہوں۔یہاں۔ بچی کی ماں اور خود وہ بچی اپنی باقی زندگی میں یہ قیامت خیز منظر بھول نہیں پائیں گی۔

لیکن شاید ہمارے معاشرے نے ان واقعات کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ اس واقعے کو خبر بنا کر پیش کرنے کے چکر میں ہمارے صحافی حضرات اور عام عوام نے جس غیر سنجیدہ روئیے کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے معاشرے کی بیمار ذہنیت کا عکس سمجھانے کے لئے کافی ہے۔

چار سالہ بچی کی ویڈیوز اور تصاویر کو کار خیر سمجھ کر شئیر کیا جاتا رہا۔ اور تو اور بے شمار تجزئیے تبصرے اور ملزم کو کاٹ دو مار دو کی پوسٹس بھی سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔

یوم مہربانی پر اس واقعے کے مرکزی جانور کی گرفتاری میں اپنا کردار اور عزت پیش کرنے والے پولیس اہلکار کا شکریہ کرنا چاہوں گا۔ جس نے مرکزی جانور کی بچی کی ماں کے سامنے رکھی شرط "کہ بچی کو تب جانے دوں گا جب کوئی لڑکی لا کر دو گی” کو پورا کرنے کے لیے اپنی جواں سال بیٹی کو جانوروں کے پنجرے میں دھکیلا۔

جی یہ سندھ پولیس کا اے ایس آئی محمد بخش تھا جس نے چار سالہ بچی اور اسکی ماں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ذاتی مسلہ سمجھتے ہوئے جانور کی گرفتاری کے لئے کامیاب آپریشن کیا۔

سندھ حکومت کی جانب سے محمد بخش کی بیٹی کو دس لاکھ روپے کیش انعام اور سول ایوارڈ دلوانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔جبکہ محمد بخش کو قائد اعظم پولیس میڈل دلوانے کا وعدہ بھی سامنے آیا ہے۔

یہاں چند سوال ہیں میرے ذہن میں جو گرفش کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ کیا موجودہ حکمرانوں کو نہیں لگتا کہ بیروزگاری اور مہنگائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسلہ ہے؟؟ بیروزگاری کے باعث عام آدمی عزت نفس گروی رکھوانے پر مجبور ہو گیا ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اسی معاشرے میں مجبوروں کی فائدہ اٹھانے اور عزت نفس خریدنے والے بھی موجود ہیں۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ معاشرے کی راہ متعین کرنے والے افراد جن میں اساتذہ، میڈیا اور علماء شامل ہیں کیا یہ سب اپنا اپنا کردار ادا کر پا رہے ہیں۔ یقینی طور پہ جواب "نہیں” میں ہو گا۔

اساتذہ اور علماء معاشرے کی اخلاقی قدروں کو مضبوط بنانے کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ لیکن اساتذہ کا مقام اور اساتذہ کے عملی اقدامات سے صرف زندہ قومیں سیکھتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم زندہ بھی ہیں؟؟؟؟

ہمارا معاشرہ کس قدر بیمار ہو چکا ہے۔ اس پہ نہ تو میڈیا میں بات ہوتی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسا مواد ہے جسے کردار سازی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ روزانہ گھسی پٹی خبریں اور روایتی انداز میں سیاسی تھیٹر سجا کر ہمارا میڈیا صحافت کی علمبرداری کا دعویدار ہے۔

رہی بات علماء کی تو جس ملک میں علماء اذانوں کی فرقہ بندی میں مصروف ہوں گے وہاں کردار سازی، اخوت یا اخلاقی اقدار کی مضبوطی پر کیا بات ہو گی۔ حکومت تو کہیں بعد میں جا کر ایسے معاملات پر اقدامات کرے گی۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کے وزیر اعظم اور وزراء کی زبان درازیوں سے معاشرے کی اصلاح کسی طور ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی برابر کی حصے دار ہیں۔

بہر حال مجھے کشمور واقعے پر روایتی ماتم کے ساتھ یوم مہربانی کی مناسبت سے اے ایس آئی محمد بخش اور اسکی بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شکریہ اور مہربانی کہنا تھا۔

رہی بات معاشرے کی ذہنی صحت کی بہتری کی تو اس سب کے لیے مجھے آپ کو اور ہم سب کو اپنے گھر گلی محلوں، شہروں کے اخلاقی مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر افہام و تفہیم سے معاملات کا حل نکالنا ہو گا۔ معاشرے کی کردار سازی کے لیے سب سے پہلے عوام کی ذہن سازی ضروری ہے۔

وگرنہ ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے