قبائلی اضلاع : 50لاکھ آبادی میں سے42فیصدصحت کی سہولیات سے محروم

بنیادی سہولیات سے محروم قبائلی اضلاع کی 50لاکھ آبادی میں سے42فیصدکوتاحال صحت کی سہولیات میسرنہیں،قبائلی اضلاع میں ترقی کے بلندوبانگ دعوﺅں کے باوجود زچگی کے دوران خواتین اور بچوں کی شرح اموات ملک میں سب سے بلندہے ،ضم شدہ اضلاع میں67فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں،عوامی مفاد کے بجائے مقامی قبائلی عمائدین کو خوش کرنے کیلئے30سے زائد چھوٹے ہسپتال تو تعمیر کئے گئے لیکن عشرے گزرجانے کے باوجود بھی قبائلی علاقوں میں ان چھوٹے ہسپتالوں میں عملے کی تعیناتی نہ ہوسکی اور یہ چھوٹے ہسپتال مقامی مالکان یا مشران کے حجروں یا پھرمویشیوں کی بھاڑوںکے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔

[pullquote]قبائلی اضلاع میں صحت کی سہولیات کے اعدادوشمارکیاہیں۔۔؟[/pullquote]

محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کی طرف سے قبائلی اضلاع کیلئے ایک عشرے کے پہلے مالی سال کی تکمیل پر جاری کردہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پورے ملک میں ہرشہری پر حکومت صحت کی مد میں سالانہ پانچ ہزار375روپے خرچ کرتی ہے لیکن قبائلی عوام پر صرف ایک ہزار106روپے خرچ کئے جاتے ہیں، رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پورے ملک میں ایک ہزارمیں سے 61شیرخواربچے علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث فوت ہوجاتے ہیں لیکن قبائلی اضلاع میں یہ شرح 86 فیصدہے۔رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک ہزارمیں سے 75بچے صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں جبکہ قبائلیوں کے ایک ہزاربچوں میں سے104بچے بروقت علاج نہ ہونے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایاگیاکہ دوران زچگی ملک بھر میں ایک لاکھ میں سے173خواتین جاں بحق ہوجاتی ہیں جبکہ قبائلی اضلاع میں ایک لاکھ میں سے395خواتین کی زچگی کے دوران موت واقع ہوجاتی ہے۔ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 58فیصدافرادکو سابق ایجنسی ہیڈکوارٹرہسپتال اور موجودہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال تک اسوقت رسائی کی سہولت حاصل ہے، جب وہ اس ہسپتال سے 16کلومیٹرکے فاصلے پر رہائش پذیر ہواسی طرح کسی بی ایچ یوتک پہنچنے کیلئے قبائلی عوام کو میلوں فاصلہ طے کرناپڑتاہے ،64فیصدقبائلیوں کو بی ایچ یو اور93فیصد کورورل ہیلتھ سنٹر میں صحت کی سہولیات میسرنہیں،قبائلی اضلاع کی 23تحصیلوں میں صرف4 تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال ہیں، 19تحصیلوں میں یا تو ٹی ایچ کیوہسپتال تعمیرنہیں کئے گئے یاغیرفعال ہیں۔قبائلی اضلاع میں 7 ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر،4ٹی ایچ کیوز ،11رورل ہیلتھ سنٹر اور174بیسک ہیلتھ یونٹس ہیں،محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کی اس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین اور بچوں کی صحت سہولیات کیلئے قبائلی اضلاع میں730ہیلتھ کمیونٹی سنٹرزجسے مقامی لوگ ڈسپنری کہتے ہیں ،قائم کی گئی ہیں لیکن اس ہیلتھ کمیونٹی سنٹرزمیں ایک بھی ڈاکٹرتاحال تعینات نہ ہوسکا اوروہاں ٹیکنیشنز،ڈسپنریا لیڈی ہیلتھ ورکرز لوگوں کے علاج معالجے میں مصروف رہتی ہیں،اسی طرح 30فیصدپرائمری ہیلتھ سنٹرزکی عمارتیں تو تعمیر کی گئی ہیں لیکن وہ مکمل طورپر غیرفعال ہیں۔

[pullquote]ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ڈاکٹروں اور نرسزکی پوزیشن کیاہے۔۔؟[/pullquote]

پلاننگ اینڈڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ قبائلی اضلاع میں قائم ہسپتالوں میں 23فیصدعملے کی پوسٹیں کئی سال سے خالی پڑی ہیں، قبائلی ضلع میں6 ہزارافرادکیلئے ایک ڈاکٹر جبکہ 19ہزارافرادکیلئے ایک نرس تعینات کی گئی ہے ،قبائلی اضلاع میں ایک ہزارکے قریب تعینات ڈاکٹراورنرسزمیں سے بہت کم عملہ اپنے فرائض سرانجام دیتاہے، محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ اہلکارکے مطابق قبائلی اضلاع کے بنیادی مراکزصحت اور ہسپتالوں کیلئے خریدی گئی ادویات ان اضلاع تک پہنچنے سے پہلے ہی بازاروں میں فروخت کردی جاتی ہیں ، کئی ہسپتالوں میں توفرسٹ ایڈکیلئے سپرٹ ،بنزرین ،کینولا،سرنج اور روئی تک میسرنہیں جبکہ قبائلی اضلاع کیلئے کروڑوں روپے مالیت کی ادویات کی خریداری صرف کاغذوں تک محدودرہتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے