کیا سورجا کی روشنی کو پیٹنٹ کیا جا سکتا ہے ؟

دنیا اس وقت کورونا کی دوسری وبا کی لپیٹ میں ہے۔پاکستان میں ستمبر میں روزانہ اوسطاً تین سو متاثرین تھے اب یہ تعداد لگ بھگ اٹھائیس سو روزانہ تک جا پہنچی ہے۔مگر حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ دنیا اس وبا کے مقابلے کے لیے بالاخر ویکسین کی تیاری میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔اس وقت چھ مغربی دوا ساز کمپنیاں اور روس ، چین اور بھارت کی کم ازکم ایک کمپنی ویکسین کی تیسری اور حتمی آزمائش کے بعد اسے بازار میں لانے کے لیے کوشاں ہے۔

دو ہفتے پہلے اس بابت پہلی خوشخبری جرمن کمپنی بائیوٹیک اور امریکی کمپنی فائزر کی جانب سے موصول ہوئی۔دعوی کیا گیا کہ ان کی تیار کردہ ویکسین پچانوے فیصد تک موثر ہے اور اب اس کی رجسٹریشن کے لیے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کو درخواست دے دی گئی ہے۔چار امریکی ریاستوں کو اس ویکسین کے عمومی استعمال کے پائلٹ پروجیکٹ میں منتخب کیا گیا ہے۔ اس سال اس ویکسین کی پچاس ملین خوراکیں (ڈوز ) تیار کی جائیں گی اور اگلے برس کے آخر تک ایک ارب تیس کروڑ خوراکیں تیار ہو پائیں گی۔

اس اعلان کے ایک ہفتے بعد ایک اور امریکی کمپنی موڈینا نے بھی پچانوے فیصد تک موثر ویکسین کی تیاری کا اعلان کردیا۔اس کی حتمی آزمائش بھی مکمل ہو چکی ہے اور اس سال کے آخر تک اس کی بیس ملین خوراکیں تیار ہو جائیں گی۔یہ دونوں ویکسینزدو خوراک فی کس کی شکل میں استعمال ہوں گی۔
مگر بائیوٹیک اور فائزر کی ویکسین تب ہی موثر ہے جب اسے منفی ستر سنٹی گریڈ درجہِ حرارت پر محفوظ رکھا جائے۔اتنی ٹھنڈک پیدا کرنے کے لیے منجمد کرنے والا خصوصی اسٹوریج نظام درکار ہو گا۔جب کہ موڈینا کا دعوی ہے کہ اس کی ویکسین عام ریفریجریٹر کے ٹمپریچر یعنی منفی دو سے منفی آٹھ سنٹی گریڈ پر بھی محفوظ رہ سکتی ہے۔ان کے علاوہ آسترا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین بھی آزمائش کے آخری مرحلے میں ہے۔جب کہ انوویو اور جانسن اینڈ جانسن بھی ویکسین سازی کی دوڑ میں شامل ہیں۔

روس نے بھی نوے سے چورانوے فیصد تک موثر سپوتنک فائیو نامی ویکسین متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔صدر پوتن نے برک اقتصادی تنظیم کی حالیہ چوٹی کانفرنس میں تنظیم کے رکن ممالک ( چین ، برازیل ، جنوبی افریقہ ، بھارت ) کو اس ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری میں مدد دینے کی پیش کش کی ہے۔ ایک ہندوستانی کمپنی بھارت بائیوٹیک نے بھی اپنی ویکسین مارچ تک مارکیٹ میں لانے کا اعلان کیا ہے۔

جب کہ چین میں چار کمپنیاں ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں۔ان میں سے کین سائنو بائیونک نامی کمپنی نے بیجنگ کے انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے جو ویکسین تیار کی ہے اس کی حتمی تیسرے مرحلے کی آزمائش پاکستان ، انڈونیشیا، چلی اور برازیل میں جاری ہے اور نتائج حوصلہ افزا قرار دیے گئے ہیں۔چینی افواج اور پولیس کو یہ ویکسین فراہم کی جا چکی ہے۔مگر یہ عام لوگوں کے لیے کب دستیاب ہو گی اس بارے میں اعلان اگلے ایک ماہ میں متوقع ہے۔

فی الحال کسی بھی مذکورہ ویکسین کی قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔مگر اندازہ ہے کہ مغربی کمنپیوں کی ویکسین تیس سے چالیس ڈالر میں دستیاب ہو گی۔جب کہ غیر مغربی دنیا میں تیار ہونے والی ویکسین دس ڈالر سے نیچے کی قیمت میں دستیاب ہو گی۔لیکن کیا اس قیمت پر بھی ترقی پذیر ممالک کو یہ ویکسینز مل پائیں گی؟یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب اس خوشخبری کے اوپر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔

سبب یہ ہے کہ امریکا اور یورپی یونین سمیت امیر صنعتی ممالک نے معروف کمپنیوں سے پیشگی معاہدے کر لیے ہیں۔ان معاہدوں کے تحت ساڑھے تین ارب خوراکوں کا سودا ہو چکا ہے جب کہ مزید پانچ ارب خوراکیں خریدنے کی بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔امریکی سینیٹ میں ’’امریکا فرسٹ ویکسین ایکٹ ‘‘کا مسودہ زیرِ غور ہے۔اس قانون کی ممکنہ منظوری کے بعد وہ امریکی کمپنیاں جنھیں ویکسین کی تحقیق و تیاری کے لیے وفاقی حکومت گیارہ ارب ڈالر کی گرانٹ دے چکی ہے ان پر لازم ہوگا کہ وہ امریکی ضروریات پوری کرنے کو ترجیح دیں۔

اب اگر ویکسین کی بھاری پروڈکشن کے امیر ممالک پہلے ہی سودے کر چکے ہیں تو باقی دنیا کیا کرے گی ؟ اور جس ممکنہ قیمت پر یہ ویکسین دستیاب ہو گی کیا غریب ممالک کا عام آدمی یہ قیمت برداشت کر پائے گا۔اس مسئلے کے تدارک کے لیے عالمی ادارہِ صحت نے تئیس ارب ڈالر کا فنڈ قائم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ ویکسین کی عالمی سطح پر منصفانہ اور سستی تقسیم ممکن ہو سکے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ سن دو ہزار سے قائم گلوبل الائنز فار ویکسین اینڈ ایمونائزیشن(گیوی)نے کوویکس انیشیٹو کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔اس کے تحت عالمی دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین کی سات سو ملین خوراکوں کا سودا کیا گیا ہے۔

گیوی میں عالمی ادارہِ صحت،عالمی بینک، یونیسیف، بل اینڈ ملینڈا گیٹ فاؤنڈیشن، برطانیہ سمیت چند ڈونر ممالک ، نجی اداروں اور سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کی امدادی شراکت داری ہے۔بیاسی ممالک کویکس انشیٹو کے رکن بن چکے ہیں ( یعنی وہ ممالک جو دوا ساز کمپنیوں سے براہ راست سودے نہیں کر پائیں گے )۔گیوی ان دوا ساز کمپنیوں سے پانچ برس کی کھیپ کے سودے کرے گا۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کمپنیوں سے قیمت پر سودے بازی ممکن ہو گی۔اور پھر یہ ویکسین منصوبے میں شامل ڈونرز کی مدد سے غریب ممالک کو اوسطاً چار ڈالر فی خوراک کی قیمت پر فراہم کرنا ممکن ہو پائے گا۔

ایک اور پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ بھارت ، روس اور چین نے ریاستی سطح پر وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں تیار کردہ ویکسین کی عالمی پیمانے پر منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے اور کوشش کی جائے گی کہ اس پر منافع کی شرح کم سے کم رہ سکے۔پاکستان چونکہ چینی ویکسین (کین سائنو بائیونک ) کی آزمائش کے منصوبے میں شراکت دار ہے لہٰذااسے چینی ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

پاکستانی حکومت نے ویکسین کی خریداری کے لیے ابتدائی طور پر ایک ارب ڈالر مختص کیے ہیں اور دو عالمی کمپنیوں سے بات چیت بھی ہو رہی ہے البتہ ان کمپنیوں کے نام فی الحال ظاہر نہیں کیے جا رہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ ہر وبا اور مصیبت اکثریت کے لیے زحمت مگر کچھ لوگوں کے لیے رحمت ہوتی ہے اس کا اطلاق کورونا کی ویکسینی سیاست پر بھی ہوتا ہے۔بلاشبہ جو کمپنیاں دوائیں اور ویکسین تیار کرتی ہیں انھیں ان کی تحقیق اور محنت کا صلہ منافع کی شکل میں لازماً ملنا چاہیے۔ مگر منافع کا حق اگر منافع خوری کی دوڑ میں بدل جائے تو پھر اس رجحان کو اپنی آواز بلند کر کے روکنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہر کوئی امریکی طبی محقق اور ماہرِ جراثیمیات جوناس سلک جیسا فرشتہ نہیں ہوتا جس نے انیس سو تریپن میں دنیا کو پولیو ویکسین کا تحفہ دیا مگر اسے اپنے نام پر پیٹنٹ کرانے سے انکار کر دیا۔جب پوچھا گیا کہ آپ اس عظیم کام کو پیٹنٹ کیوں نہیں کروانا چاہتے تو ترنت جواب دیا ’’ کیا سب پر چمکنے والے سورج کو بھی پیٹنٹ کروایا جا سکتا ہے؟‘‘

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے