حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے صوبائی وزراے تعلیم سے میٹنگ کے بعد اعلان کیا کہ تمام سرکاری ونجی تعلیمی ادارے 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند رہیں گے۔حسب توقع اعلان تھا تاہم اس کا انتظار شائد ان لاکھوں طلبہ کو تھا جو اس وقت زیر تعلیم ہیں۔ٹوئیٹر پر اس فیصلے کے بعد مختلف ٹرینڈز چل نکلے ۔لکھنے والے بہت ستمگر ہوتے ہیں ایک ظالم نے تو یہ تک لکھ دیا کہ طلبا اور سرکاری سکولز کے اساتذہ نے 26 نومبر کو یوم شفقت منانے کا اعلان کردیا ہے۔بہرحال کورونا کے پھیلاو کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے تحت تعلیمی اداروں کی بندش ایک احسن اقدام ہے۔لیکن چھٹیوں کے اعلان کے ساتھ ہی شفقت محمود شہرت کی بلندیوں کوچھورہے ہیں۔کپتان کی ٹیم کا پہلا کھلاڑی ہے جس کو عوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے کہیں یہ شہرت کپتان کے لیئے خطرناک ثابت نا ہو اس لیے مشتری ہوشیار باش کیونکہ حالات ہی ایسے ہیں کہ کوئی بھی نعم البدل بن سکتا ہے۔

جہاں تک کپتان کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کا سوال ہے تو میڈیا پر تو ان حکومتی معاشی ماہرین کے مطابق سب ہرا ہرا ہی چل رہا ہے سب اعدادوشمار بہتری ظاہرکررہے ہیں معیشت سنبھل رہی ہے ڈالر کم ہورہا ہے خسارے کم ہورہے ہیں گویا حکومت معاشی نقطہ عروج کو چھونے جارہی ہے جبکہ عام آدمی کی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔مہنگائی نے جینا دوبھر کردیا ہے ۔روزمرہ کی ضروریات زندگی حتی کے سبزی تک کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔خدا جانے کب حکومتی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات عوام تک پہنچیں گے۔فی الحال توسردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی گیس کے بحران میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔گیس لوڈ شیڈنگ سے عوام زلیل وخوار ہورہی ہے۔گیس بلوں کی صورت میں عوام حکومت کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کررہی ہے مگر گیس نا ہونے کے برابر ہے۔وقت پر گیس کی عدم دستیابی سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں۔سوال تو بنتا ہے کہ حکومت نے اس ضمن میں قبل ازوقت تیاری کیوں نہیں کی اور اس کوتاہی کا زمہ دار کون ہے۔

کوتاہی اور غفلت تو گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوے سیاسی کارکنوں کے معاملے پر بھی ہوئی ہے جہاں اطلاعات کے مطابق نا صرف ان پر لاٹھی چارج کیا گیا بلکہ آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا جس سے مظاہرین مشتعل ہوگئے۔پتہ نہیں کسی بھی ایشو پر پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف حکومتی روایتی ہتھکنڈوں سے کب جان چھوٹے گی۔جب مظاہرین پر حکومتی اداروں کی طرف سے تشدد ہوتا ہے تو لگتا ہے کچھ نہیں بدلا کیونکہ ہر حکومت مظاہرین سے مذاکرات کی بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے۔شاید جمہوریت کے علمبرداروں کو جمہور سے جمہوری طریقے سے پیش آنے کے لیے بھی مزید تعلیم اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔مسند اقتدار پر براجمان ارضی خلیفہ اور اس کے حواریوں کو کون سمجھائے کہ خلعت فاخرہ ملنے سے احترام انسانیت ختم نہیں ہوجاتا۔انسان کی تکریم ابدی وازلی ہے لہذا وقتی دھوکے سے بچتے ہوے انسانوں سے انسانی رویوں کے ساتھ معاملہ فہمی مستقبل کی مشکلات کوکم کرتی ہے ۔

تاہم حکومتی حلقوں میں معاملہ فہمی کے فقدان کے سبب اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومتی مشکلات میں اضافہ کرنے جارہی ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ اب تک کوئی درمیانی راہ کیوں نہیں نکالی جاسکی۔گیارہ جماعتوں کے اتحاد کو اگر کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو یہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔پی ڈی ایم آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور ان کے شیڈول کے مطابق دو جلسے باقی رہ گئے ہیں جس میں سے ایک ملتان اور آخری دسمبر میں لاہور میں ہوگا۔اس کے بعد پی ڈی ایم اپنے احتجاج کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوجائے گی۔پشاور جلسہ میں اپوزیشن رہنماوں کے تلخ لہجوں سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن اس سفر کے دوران بیچ میں کہیں بھی پڑاو ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ارباب اختیار کے لیئے سوچنے کا مرحلہ ہے کہ اگر کاروں حتمی فیصلے کی جانب چل پڑا تو شائد تبدیلی سرکار کا نقصان اتنا نا ہو کیونکہ اس غبارے میں ہوا کسی اور کی بھری ہوئی ہے۔یہ خواب کسی اور کا ہے جس میں تعبیر کے رنگ بھرنے میں برسراقتدار ناکام نظرآرہے ہیں۔

خواب تو شاید راوی ریوراتھارٹی کا بھی پورا نا ہوسکے ۔حکومتی مشینری اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ہرممکن کوشش کرے گی اگر لاہوری مذاحمت پر ڈٹ گئے تو حکومت کے لیئے ایک نیا محاز کھل جائے گا اور پھر یہاں پر اپوزیشن خوب سیاست کرے گی۔ویسے بھی اپوزیشن کے پاس سیاست کرنے کے لیے بہت سے ایشوز ہیں۔مہنگائی، بے روزگاری،صحت ، تعلیم،امن وامان گویا ہر شعبہ ہاے زندگی میں حکومتی کارکردگی پر سیاست کی جاسکتی ہے اور سیاست ہوبھی رہی ہے۔اپوزیشن جس طاقت کے سرچشمے کی رٹ کو چیلنج کرنے جارہی ہے اس کا نتیجہ خدا جانے کیا نکلے مگر غریب عوام اس جنگ میں پس رہی ہے۔عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔بنیادی ضروریات زندگی گویا آسائشات کا درجہ حاصل کرچکی ہیں۔زیرزمین آرسینک ملے پانی اور سموگ زدہ فضا میں سانس لینے کی عیاشی کے سوا یہاں کچھ بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔زندگی کو جینے میں اور زندگی کو گذارنے میں بہت فرق ہے اور جینے کی خواہش میں زندگی گذارنے والوں کا دکھ کب کوئی سمجھ سکتا ہے۔اس قوم کی بے بسی کی انتہا ہے کہ جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہے اسی سے ہی مسیحائی کی امید لگاے بیٹھی ہے۔چلیں امید لگانا اچھی بات ہے کم سے کم مایوسی سے تو بہت بہترہے ۔اور امید کرتے ہیں کہ ارباب اختیار معاملات کے حل کے لیئے قومی ڈائیلاگ شروع کرائیں گے جہاں پر ملک میں موجود سیاسی ، سماجی اور معاشی بحران کے خاتمے پر بات ہوسکے ۔عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔جہاں پر حقیقی معنوں میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے ایک ایسا نیا پاکستان جہاں پر فصل گل کو اندیشہ زوال نہ ہو۔کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو۔جہاں پر بسنے والے کسی بھی عام شہری کے لیئے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے