بجلی کے بڑے منصوبے ،تھر کے باسی نظر انداز

سول سوسائیٹی کے نمُائندوں نے تھر میں بغیر کسی پالیسی کے حصول اراضی اور بے خانما لوگوں کی بحالی و آباد کاری میں بڑھتی ہوئی بے ضابطگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے حکوُمت سے مُطالبہ کیا ہے کہ تھر میں کوئلہ کی کان کنی اور بجلی گھروں کے قیام کے لئے حصوُل اراضی اور بے خانما لوگوں کی بحالی و آبادکاری سے مُتعلق عوام دوست پالیسی کا اجرا کیا جائے۔ مجوزہ پالیسی تھر کے مقامی لوگوں کی مشاورت اور شراکت سے تشکیل دی جائے اور اس پالیسی میں مقامی لوگوں کے منفرد حالات زندگی اور اُن کے منفرد حقوُقِ اراضی کو مدِنظر رکھا جائے۔ اُنہوں نے اِن خیالات کا اظہار آج یہاں الائنس فار کلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فشر فوک فورم کے چئیرمین محمد علی شاہ نے کہا کہ حکومت نے تھر کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کوئلہ کے منصوبوں کے ذریعے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں ترقی اور خوُشحالی لائے گی۔ تاہم عملی طور پر کوئلہ کے اِن منصوُبوں کے لئے حصوُلِ اراضی میں ہونے والی بے ضابگیوں اور نا انصافیوں نے ترقی و خوُشحالی کے اُس حسین خواب کو ایک ڈراؤنے خوب میں بدل دیا ہے۔ کوئلہ کے نام پر تھر میں ہونے والی نام نہاد ترقی نے تھر کے مقامی لوگوں کو جبری بے دخلیوں، ذرائع معاش کے خاتمہ، بے بسی، غربت اور احساسِ محرومی کے علاؤہ کچُھ نہیں دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ تھر میں کوئلہ کی منصوبوں کے لئے حصول اراضی اور بے خانما لوگوں کی بحالی و آبادکاری سے متعلق فیصلہ سازی میں مرکزیت، افسر شاہی کے صوابدیدی اختیارات اور عدم شفافیت کی وجہ سے مقامی لوگوں کا جینا دو بھر ہو گیا ہے۔ معاوضوں کی ادائیگوں میں ہونے والی غیر ضروُری تاخیر پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے اُنہوں نہ کہا کہ موجوُدہ غیر یقینی حالات کا فائدہ صرف ان نجی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، جو آئے روز ہزاروں ایکڑ زمین ہتھیا رہی ہیں۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ مجوزہ پالیسی کے اجراء تک تھر میں کسی بھی نئی حصوُل اراضی کو فی الفور بند جائے۔

آلٹرنیٹو لاء کولیکٹو کے نمائندہ ایڈوکیٹ سید غضنفر نے کہا کہ لینڈ ایکوُی زیشن ایکٹ 1894ء جیسے قوانین، جن کے تحت تھر میں حصوُلِ اراضی ہو رہی ہے، دراصل برطانوی نو آبادیاتی دؤر کے قوانین ہیں جن میں مقامی لوگوں اور مالکان کے حق ملکیت اور دیگر انسانی حقُوق کا تحفظ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ریاستی ضروُریات کو شہریوں کے حق ملکیت پر غیر معموُلی ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں ہونے والی حصول اراضی لینڈ ایکوُی زیشن ایکٹ 1894ء کی ظالمانہ ایمرجنسی شقوں کے تحت عمل میں لائی جارہی ہے، جس کا مقصد شہریوں کو اُن کے بنیادی حقوُق سے محروُم کرنا اور نجی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے علاؤہ کچھ نہیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتھر کے مقامی لوگوں کے نمُائندہ جان محمد ہالیپوٹو نے کہا کہ نام نہاد ترقی کے نام پر مقامی لوگوں کو اُن کے آبائی گھروں، گاؤں، کھیتوں اور چراگاہوں (گاؤچر) سے ظالمانہ انداز میں بے دخل کیا جارہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تھر کی اکثریتی آبادی کے ذرائع معاش کا انحصار مال مویشی پالنے اور کھیتی باڑی پر ہے۔ کوئلہ کی کانوں او بجلی گھروں کے لئے حاصل کی جانے والی زمینوں کے نتیجے میں تھر کے لوگ اپنی چراگاہوں اور کھیتوں سے محروُم ہو رہے ہیں۔ تاہم حکومت حصول اراضی سے متاثرہ لوگوں کو متبادل ذرائع روزگار اور متبادل چراگاہیں فراہم نہیں کررہی، جس کے نتیجہ میں بے روزگاری، میں اضافی ہو رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے