کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

دنیا میں جتنی بھی بڑی جمہوریتیں قائم ہیں انکا مطالعہ کرنے سے ایک چیز سامنے ضرور آتی ہے کہ وہاں جمہوریت گراس روٹ لیول سے شروع ہوتی ہے اور درجہ بہ درجہ نظام میں اوپر کی جانب سفر کرتی ہے اور پارلیمنٹ تک پہنچتی ہے .

حقیقی جمہوریتوں میں بلدیاتی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور بلدیاتی ادارے با اختیار اور منظم ہوتے ہیں جس سے لوکل سطح پر اختیارات کی منتقلی ممکن ہو پاتی ہے

لیکن یہاں معاملہ کچھ ٹیھڑ ا ہے ہمارے ہاں اول تو جمہوری نظام تسلسل سے قائم نہیں رہا اور اگر جتنا عرصہ جمہوری اور سیاسی حکومتیں رہیں انہوں نے بلدیاتی انتخابات کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور اس جانب توجہ نہیں دی .

اسکی وجہ ہے یہ ہے کہ ممبران اسمبلی خدمت کے جذبے سے نہیں بلکے مال بنانے کے چکر میں الیکشن لڑتے ہیں بہت ہی کم ایسے سیاست دان ہونگے جو حقیقت میں خدمت خلق کے جذبے سے سیاست میں اے ہونگے . جب کوئی الیکشن پر تین چار کروڑ روپے لگا دیتا ہے تو پھر جیتنے کے بعد اسکی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیسے پورے کر لے . اس لئے سیاسی پارٹیاں انکو ترقیاتی فنڈ کے نام پر پیسا جاری کرتی ہیں جس میں سے وہ مال بناتے ہیں .

دوسری بات یہ کہ سیاسی جماعتیں اختیارات اور طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرتی جس میں انکے مفادات شامل ہوتے ہیں ،

تیسری چیز عوام کے سمجھنے کی ہے اور وہ یہ کہ ممبران اسمبلی کا کام نالیاں پکی کروانا سیوریج لائنز دلوانا اور سٹریٹ لائٹس لگوانا نہیں ہوتا بلکے انکا کام اسمبلی میں بیٹھ کر قانون سازی کرنا اور پالیسی سازی کرنا ہوتا ہے جب کہ لوکل گورمنٹس کام مقامی سطح پر عوامی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے . ہم لوگ اس چیز کو نہیں سمجھتے جسکا ناجائز فائدہ یہ حکمران طبقہ اٹھاتا ہے اس کے ذریے وہ مال بھی بناتے ہیں اور اختیارات کو بھی اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھتے ہیں

پاکستان میں قریب دس سال کے عرصے کے بعد ایک جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات شیڈول دیا جو کہ کسی مذاق سے کم نہیں ، وہ بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ممکن ہوا لیکن لیت و لال جاری رہی رہا اور آخر انتخابات ہووے ، میرا ماننا یہ ہے کہ نتائج جو بھی ہوں کتنی ہی دھاندلی کیوں نہ ہو جاے یا الیکشن کمیشن اپنا صحیح کردار ادا نہ کر پاے لیکن انتخابات کا تسلسل قائم رہنا چاہے اس سے جمہوری رویے مضبوط ہونگے اور لوکل سطح پر عوام میں جمہوریت پروان چڑھے گی اور انکے رویوں میں مثبت تبدیلی اے گی.

تبدیلی ایک دو دن یا سال میں نہیں آتی بلکے اس میں عرصہ لگتا ہے . بظاھر تو یہی لگتا ہے کہ تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے اور سب امید کر رہے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں میچور ہوئی ہیں . خیر بلدیاتی انتخابات ہو تو گئے میں تو یہی کہونگا کہ ” کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ” اور یہ انتخابات ہووے اب یہ عوام کا کام تھا کہ وہ بہترین امیدواروں کو کامیاب کریں جو انکے علاقوں کے مسائل ہو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے