بدلتا ہواعالمی منظر نامہ اور پاکستانی کی خارجہ پالیسی !

آج بات ان دو خبروں پر کرنا چاہتا ہوں جو الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سامنے آئیں، ایک پر ہو سکتا ہے لوگوں نے کم توجہ دی ہو مگر دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ضرور ہے۔

پہلی خبر یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات نے بارہ ملکوں کو اپنے ملک میں داخلے پر بابندی لگا دی ہے، جن میں اپنا ملک خداد پاکستان بھی شامل ہے اور اس کا سبب کرونا کی حالیہ لہر کے آنے اور ان ملکوں میں اس پرمناسب کنٹرول نہ ہونابتایا گیا ہے اور اگر اسی وجہ کو سامنے رکھا جائے تو پڑوسی ملک بھارت جہاں کرونا پہلے دن سے ہی بے لگام ہے اس کو اس پابندی سے استشنا حاصل ہے۔ یہاں امت مسلمہ کا درد رکھنے والے اور دوسروں کی آگ کو اپنے گھروں تک لے آنے والے نہ کسی قطار میں اور نہ کسی شمار میں۔

دوسری خبر کا تعلق اسرائیل سے ہے اور جسے اسرائیلی میڈیا ڈنکے کی چوٹ پر نشر کر رہا ہے، وہ یہ کہ دو دن پہلے اسرائیلی وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ کا دورہ سعودی عربیہ ہے، جسے ابھی تو سعودی حکومت باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکاری ہے، مگر جانے والے اس ملاقات کا چرچا ذور و شور سےکر رہےہیں ۔اس تناظر میں عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں کے لیے سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ خطے میں کیا کچھ بدلنے جا رہا ہے اور جس سے اس خطے میں بہت سے ممالک کا بیانیہ بدلنے والا ہے ۔

 گذشتہ کئی دہائیوں سے بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا تھا مگر اب صورتحال بدل چکی ہے، متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن اور مصر سب نے اسرائیل  کے ساتھ امن معاہدے کر لیے ہیں اور اب نہ صرف ان کے مکمل سفارتی تعلقات ہیں بلکہ اردن اور مصر کے سرد مہری والے معاہدے کے برعکس ان دونوں خلیجی ممالک نے بڑی تیزی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔

جہاں تک اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ دو طرفہ تعلقات کے قیام کا سوال ہے، تو یہ اسرائیل کے لیے بہت بڑی سفارتی کامیابی ہو گی۔ اس لیے کہ ایک تو سعودی عرب کا بادشاہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دو مقدس ترین مذہبی مقامات کا اعلیٰ ترین محافظ ہوتا ہے، جو ‘خادم حرمین شریفین‘ کہلاتا ہے، اور دوسرے یہ کہ خلیج کی یہ بادشاہت دنیا کا تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

اسرائیل عرب تعلقات ایک عرصے تک خفیہ رہے لیکن 2009ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو نے خفیہ تعلقات کو منظرِ عام پر لانے کی پالیسی اپنائی جس کے بعد تعاون کے چھوٹے چھوٹے سفارتی اقدامات چلتے رہے اور پھر بڑا قدم اسرائیل نے اس وقت اٹھایا جب انٹرنیشنل رینیوبل انرجی ایجنسی کے ہیڈکواٹرز عرب امارات میں بنانے میں سفارتی مدد کی لیکن اس کے بدلے ایک شرط یہ رکھی کہ اس کے سفارت کاروں کو ان کے ہیڈکوارٹرز میں تسلیم کرنا پڑے گا۔

اس طرح ایک ایک قدم اٹھاتے ہوئے اب پورا جال بن چکا ہے۔ یہ اوباما دور کی بات ہے جب خلیج میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کم ہونا شروع ہوئی جسے ٹرمپ نے بھی جاری رکھا ان حالات میں اسرائیل عرب ریاستوں کا فطری اتحادی بنتا چلا گیا جو خطے میں موجود ہے اور وہاں سے نکل نہیں سکتا۔

عرب ریاستوں نے ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ تعاون جاری رکھا لیکن فلسطین کے مسئلہ پر بھی مؤقف برقرار رکھا۔ اسرائیل اس سے بالکل بھی بددل نہ ہوا، اور عربوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری سے متعلق کام جاری رکھا۔

اس بات میں شک نہیں کہ سعودی عرب کی  پوزیشن عرب امارات سے الگ ہے۔ سعودی عرب حرمین شریفین کی وجہ مسلم دنیا میں الگ مقام رکھتا ہے اور مسلم امّہ کی قیادت کا بھی دعویدار ہے اور  ان حالات میں سعودی عرب کے لیے ایسا کوئی بھی فیصلہ بہت مشکل تو ضرور ہو سکتا ہے  مگر در پردہ اسرائیل سے معاملات اور کھلم کھلا  عرب ریاستوں کا اسرائیل کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کرنا اور حالیہ امریکی سفیر اور اسرائیلی وزیر اعظم  کی سعودی یاترہ جیسی ڈیولیپمنٹ سامنے آنے کے  بعد ناممکن ہر گز نہیں۔

مگر پاکستان جیسی ریاست کہ جو پچھلے بہتر سالوں سے ان عرب ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے موقف کیساتھ تھی اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہو گیا کہ وہ اپنے پرانے موقف اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر قائم رہے یا بدلتی صورتحال کے مطابق فیصلہ کرے۔

اگر پرانے موقف کیساتھ چلتے ہیں تو یہی ممالک آپ کا جینا حرام کر سکتے ہیں کہ پچھلے پچاس سالوں سے کسی صنعت کو کھڑا نہ کرنے ، روزگار اور بنیادی انسانی ضرورتوں کی کم سے کم سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہم نے اپنی جوان افرادی قوت ان صحرا نشینوں کے انفراسٹرکچر کو آسمان تک پہنچانے میں لگا دی، جہاں چند سال قبل ریت کے پہاڑ تھے۔ اب وہ ہمارے ان لوگوں کو جو روزگار کے سلسلے میں وہاں قیام پزیر ہیں واپس کر سکتی اور ان کو سنبھالنا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ترین ضرور ہو سکتا ہے اور اسی کمزوری کو عرب ممالک استعمال کرہیں گےاور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات اب ہماری اس کمزوری کے سبب ہمیں آنکھیں دکھانے لگ پڑے ہیں۔

خیر آنکھیں دکھانے کا عمل تو کافی پرانا ہے ماضی قر یب میں جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ نے تو خیر جو کرنا تھا وہ بعد کی بات ہے سب سے پہلے عرب امارات نے پاکستانیوں کا اپنے ملک میں داخلہ بند کیا۔

رہی بات سعودی عرب کی تو اس نے بھی اپنے نئے ٹارگٹ چن لیے ہیں اور جس اسرائیل کو امریکہ کا ناجائز بچہ کہا جاتا تھا اب وہ ہی ان کی آنکھ کا تارا بننے جا رہا ہے  ۔

پاکستان کے لیے خطے میں بدلتی صورتحال اور عالمی منظر نامے میں تبدیلی کو سامنے رکھ کر اپنی ترجیحات کو وضح   کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔  اب اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اپنے پرانے موقف پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ پاکستان جو کہ مسلسل کئ سالوں سے پرائی جنگ کا ایندھن بنا ہوا ہے، اسے اب ایک  واضح موقف اپنانا ہو گا اور ان معاملات کو دانش مندی سے سلجہانا ہو گا ، جن کی وجہ سے وہ عالمی تنہائی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی تنزلی کا شکار ہے ۔

  
وقت کا تقاضہ ہے کہ اب اپنی عوام اور ملک کو درپیش اندرونی مسائل پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے اور داخلی طور پر دن بدن گرتی معشیت، دگرگوں امن و امان کی صورتحال ، زوال پزیر ہوتا ہوا نظام تعلیم اور  بیروز گاری جیسے عفریت کا سامنا کیسے کرنا ہے ،اس پے سوچا جائے۔جبکہ خارجہ محاذ پر بیرونی دنیا سے تعلقات فرسودہ جزباتیت سے نکل کر اور ملکی مفاد اور بدلتے عالمی حالات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیے جاہیں اور اسی بنیاد پر خارجہ پالیسیاں وضح کی جائیں۔

پرانے اور اوٹ ڈیٹیڈ مسلم امہ والے بیانیہ سے چند سالوں تک جان چھڑانا ہو گی اور وقت اور حالات کی مناسبت سے نیا بیانیہ مرتب کرنا ہو گا اور پوری امت کے غم میں ہلکان ہونے کی بجائے  بیس کروڑ انسانوں کا  یہ جو ملک ہے پہلے ان کو احساس دلانا ہو گا کہ وہ بھی انسان ہیں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کر کے اس کے بعد بھلے آپ پوری مسلم امہ کے والد بن جائیں۔

نائن الیون کے بعد ہم نے اپنی پالیسیوں کی شکست و ریخت بخوبی دیکھ لی ہے کہ جس کے نتیجے میں سن دو ہزار سے دو ہزار دس تک حکومتی عدادوشمار کے مطابق آٹھ بلین ڈالر کا معاشی خسارہ اس غریب ملک کی عوام کو بھگتنا پڑا اور جو جانی نقصان اور  ملکی اداروں کی تبای اس نام نہاد وار ان ٹیرر کے نام پر پرائی جنگ کا حصہ بننے سے ہوئی وہ ایک الگ ہی ہولناک ترین داستان ہے اور جس کے اثرات بد آنے والی کئ نسلوں تک نے بگھتنا ہے ۔

اس سے پہلے کی نسل ابھی تک افغان وار کا حصہ بننے کا صلہ افغان پناہ گزینوں کہ جن کی تعداد اقوام متحدہ کے  ہے  ادارہ برائے مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق دس لاکھ سے زائد ہے ، ان کا  بوجھ برداشت کر کے چکا رہی تھی کہ اوپر سے دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے کے فیصلے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا حکمران اس وقت کچھ عقل سے کام لیتے اور اپنے ملک کے لیے کچھ کرتے ۔

آج تقریبا دس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں اور کم و بیش اتنے ہی عرب امارات میں روزی کما رہے ہیں اور اس کیساتھ  ساتھ زرمبادلہ کی صورت میں ملکی معشیت میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ۔  خارجہ محاذ  پر یہ ہماری بد ترین شکست ہے کہ بھارت کے سعودی عرب سمیت عرب   امارت کے دروازے کھلے ہیں، جب کہ ہمارے لیے بند اور خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں ان ممالک میں نئے جانے والے تو ایک طرف پہلے سے بسلسلہ روزگار وہاں موجود پاکستانیوں کو اگر براہ راست نہ نکالا گیا تو ان کے لیے وہاں کام کرنا مشکل ضرور کر دیا جائے گا جس سے وہ خود ہی ملک چھوڑ کر چلے جائیں ،اس کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، یہاں تو ریاست مدینہ والوں نے کرروڑ  نوکریوں کا وعدہ کر کے لاکھوں سے نوالہ چھین لیا ہے اور اگر اوپر سے اورسیز بھائیوں کو بھیج دیا گیا تو کیا حال ہو گا، بتانے کی ضرورت نہیں۔  ملکی حالات تو پہلے بھی خوش کن نہیں تھے مگر ایسی بھی حالت نہیں تھی جو اب ہے۔

 دو سال پہلے اس کچلی عوام نے ایک امید جس کا خوبصورت نام تبدیلی بتایا گیا تھا ، اس کو ووٹ دیا اور خیر سے وہ ہی تبدیلی اتنے بھیانک چہرے کیساتھ سامنے آئی کہ اس سے پہلے والے سارے ڈراؤنے خواب سہانے سپنے لگنے لگے۔

صرف امید پے دنیا قائم ہے اور ہم بھی صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ شاہد اب کی بار ان حکمرانوں کو جو احتساب اور تبدیلی کی چھتری تلے آئے ہیں  وہ عالمی معاملات تو دور کی بات داخلی صورتحال کو ہی سنبھال لیں تو بڑی بات ہو گی ۔ ورنہ اب تو حال یہ ہے کہ جلتے گھر کے کنارے بانسری نواز بیھٹا ہے اور ایک ہی لے پے نغما سرا ہے ۔۔۔۔۔
چھوڑوں گا نہیں اور گھبرانا نہیں ۔۔۔۔
مگر آخر کب تک۔۔۔۔ ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے