اورنج لائین میٹرو ٹرین کے جھرونکوں سے میرا سوہنا شہر لاہور

پچھلے ہفتے گھر والوں کے پر زور اصرار پر اورنج ٹرین کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ میری منزل شالیمار گارڈن تھی۔اورنج لائن میٹرو بس سروس جو پاکستان کا بجلی سے چلنے والا پہلا ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ ہے ۔ پاکستان اور چین نے بیک وقت اسکا بٹن دبا کر افتتاح کیا ۔سفر کے بارے میں آپ سے آگے چل کر بات ہوتی ہے۔ پہلے ذرا اس پراجیکٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

سی پیک کے تحت عملی شکل اختیار کرنے والے اس منصوبے کا مقابلہ دنیا میں موجود عالمی سطح کے کسی آمدورفت کے منصوبے سے کی جا سکتی ہے۔ جو کہ عوام کے لئے ایک بہت بڑی سفری سہولت ثابت ہو رہا ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ شہری ترقی کو مضبوط کرے گا بلکہ ہمارے وطن کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا ۔

موجودہ حکومت نے پچھلی روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا یا۔ اس پراجیکٹ مکمل ہونے کے لئے لوگوں نے بہت انتظار کیا ہے اور بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے۔جس وقت یہ پراجیکٹ تعمیر کے مراحل میں تھا تو عوام نے بغیر کسی وقت معین کے بجلی کی بندش،پانی کی بندش ، راہ میں رکاوٹوں اور متبادل راستے کی وجہ سے دفتر ،کالج،سکول اور اپنی منزل تک وقت کا ضیاع اور سب سے بڑھ کر جن لوگوں کے مکان اس پراجیکٹ کے راستے میں تھے انہوں نے اپنے گھروں کی قربانی دی۔ حکومت نے انکے گھروں کے عوض متبادل رقم دی۔

الحمداللہ اب جب یہ پراجیکٹ عملی صورت میں ہمارے سامنے رواں دواں ہے تو وہ مصائب بھی ماضی کا ایک خواب لگتے ہیں ۔بہت سے لوگ یہاں پر رہائشی اور کاروباری مراکز کی وجی سے مستفید ہو رہے ہیں ۔

اسکا ٹریک 27.1 کلومیٹر لمبا ہے، اسکا روٹ علی ٹاون سے ڈیڑہ گجر تک ہے ،جس میں ٹوٹل اسٹیشن 26 ہیں، دو اسٹیشن انارکلی اور جی-پی-او زیر زمین ،جبکہ 24 زمین کے اوپر ہیں ۔ایک سے دوسری اسٹیشن تک کا کریہ 40 روپے ہے جبکہ اس روٹ کو مکمل وقت 45 منٹ ہیں ۔روزانہ کے مسافروں کے بیٹھنے کے جگہ تقریبا 245،000 ہے۔ حکومت اس پر سالانہ 12 بلین روپے سبسڈی دے گی اسکے وجہ سے اس پراجیکٹ کو سفید ہاتھی بھی کہا گیا۔ اسکی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر/گھنٹے ہے۔اس پراجیکٹ کے دو ہائی وولٹیج الیکٹریکل سب اسٹیشن بنائیں گئے ہیں ایک یو۔ای۔ٹی کے پاس اور دوسرا شاہ نور کے پاس۔

اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو ہم نے اس پراجیکٹ کو لاہور کے دو تاریخی مقامات ایک چوبرجی اور دوسرا شالیمار گارڈن کی وجہ سے نہ صرف تنقید کا شکار دیکھا ہے بلکہ معاملے کو چند مخصوص لوگوں نے کورٹ میں بھی داخل کیا جسکی وجہ سے اسکا تعمیری کام تعطل کا شکار رہا۔اس کے تعمیری راستے میں 600 درخت آرہے تھے، جن کو کاٹنا ضروری تھا۔

مگر ان ساری تکلف دہ صورتوں کے باوجود اب یہ لوگوں کے خوشی اور سکون کا باعث ہے۔جن لوگوں کو دفتر پہنچنے میں 45 منٹ لگتے تھے اب وہ 20 منٹ میں دفتر،سکول اور کالج ،یونیورسٹیوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔

[pullquote]اس منصوبے کی تکمیل سے چند بڑے ضروری فوائد یہ ہیں کہ:[/pullquote]

1) وقت کی بچت
2)پیسے کی بچت
3)دھکوں سے نجات
4)آرام دہ ماحول
5)آلودگی سے پاک ماحول
6)دوستانہ ماحول
7)رش ڈرائیونگ سے نجات
8)موقع پر موجود سروس سٹاف
9)قابل رسائی سفر
10)خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز
11)مریضوں اور بوڑھوں کے لئے
12)لفٹ کا انتظام
13)خوبصورت ایکسکلیٹرز
14)ویل چیئرز یوزرز کے لئے الگ مختص سیٹس

لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ بج بھی کوئی اس طرح کے نئے منصوبے وقوع پذیر ہوتے ہیں تو فوائد کے ساتھ ہمیں کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ جب کوئی چیز استعمال میں آتی ہے تو ہی اسکے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

اس پراجیکٹ میں بھی کچھ اےسے پہلو ہیں جن کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اسٹیشن کے فرش بہت زیادہ پھسلنے والے ہیں جو کہ ،بزرگ،خواتین، معذورں کے لئے نقصان دہ ہے ۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لئے مناسب فاصلوں پر باسکٹ کی عدم دستیابی،صفائی کا ناقص نظام ،اوپری اور نیچے فلورز پر،
جس میں ہم لوگوں کا زیادہ ہاتھ ہے۔لوگوں نے کھانے پینے کے خالی ڈبے اور استعمال شدہ ماسک یونہی فرش پر پھینک دیے ہوئے تھے ۔

اگر ہم بھی اپنے پارکز ،عمارتوں،مالز اور اسٹیشن کا صیحح استعمال اور خیال کریں تو ہمارا ملک بھی خوبصورت نظاروں کے ساتھ صاف بھی رہ سکتا ہے۔
تین اسٹیشن ایسے ہیں جن کے نام اس جگہ کے لحاظ سے مختلف ہونے سے لوگ پریشانی کا شکا ر ہیں ۔جیسے وحدت روڈ سٹاپ کا نام اس جگہ ملتان چونگی کے نام پر ہونا چاہیے۔

دوسرا صلاح الدین روڈ کا نام سکیم موڑ اور بند روڈ کا نام چوک یتیم خانہ ہو تو کوگوں کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔کیونکہ لوگ ان ناموں کی وجہ سے یا تو اگلے اسٹیشن پر یا اس سے پہلے اسٹیشن پر اتر جاتے ہیں ۔اس سے انکا وقت کا بہت حرج ہوتا ہے۔

[pullquote]چند باتوں کا اور دھیان بھی رکھیں۔[/pullquote]

ٹوکن کو صحیح مطلوبہ جگہ پر ٹچ کریں تاکہ پریشانی سے بچا جا سکے دوسرا عملے کے ساتھ تعاون کریں اور اگر ٹرین میں خواتین کے بیٹھنے کی جگہ نہیں اور آپ کے پاس جگہ ہے تو پلیز انکو جگہ دیں ،بزرگوں کو جگہ دیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ترقی پزیر ملک جو پہلے ہی قرضوں میں جکڑے ہوں، وہ اپنی عوام کے لئے کس طرح سے ایسے منصوبے بناتے ہیں ،اس ملک کی قدر کریں اور اس کو صاف اور سبز بنائیں ۔

مجھے تو بہت مزہ آیا، میں نے شالیمار گارڈن تک کا سفر کیا۔ جو کہ بہت راحت افزوں اور دلکش تھا اور کم وقت بالا نشین بھی۔ آپ بھی ضرور جائیے اور ٹوکن کو اپنی مطلوبہ جگہ پر لگانا نہ بھولیے ، وگرنہ میری طرح پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے