عدل، تدبیر اور رائے

شیخ سعدیؒ کی بوستان وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں پہلے حصّہ میں ختم کی تھی۔ یہ ہدایتیں، نصیحتیں، مشورے معلومات کا خزینہ اور روح پرور ہیں۔

16جو (بادشاہ) اپنی رعایا کے دل خراب کرتا ہے وہ پھر خواب ہی میں اپنی مملکت کو آباد دیکھتا ہے (اُس کی مملکت ویرانی کا شکار ہو جاتی ہے)۔ 17ظلم و ستم سے خرابی اور بدنامی حاصل ہوتی ہے، جو پیش بین؍ دور اندیش ہے وہ اس بات کو غور و فکر سے پوری طرح سمجھ لیتا (اور اس سے بچتا) ہے۔ 18رعایا کو بیداد (ظلم و ستم) سے مارنا اچھی بات نہیں کیونکہ وہ تو سلطنت کے لئے پناہ اور پشت ؍ سہارا ہے۔ 19تو اپنے لئے دہقان کا خاص دھیان رکھ، کیونکہ خوش دل مزدور کام زیادہ کرتا ہے۔ 20کسی ایسے شخص کے ساتھ برائی کرنا اچھی بات نہیں جس سے تو نے بہت بھلائیاں دیکھی ہوں گی۔ 21میں نے سنا ہے کہ خسرو (پرویز) نے، جب اس کی آنکھیں دیکھنے سے رہ گئیں (غالباً مراد ہے نزع کی حالت) شیرویہ سے کہا کہ تو جو بھی نیت کرے اس پرقائم رہ اور رعایا کی فلاح و بہبود پر توجہ رکھ۔ 22خبردار! کہیں عدل و انصاف اور رائے (دوسروں کے مشورے) سے سر نہ موڑنا تاکہ رعایا تیرے ہاتھوں سے پائوں نہ موڑلے (یعنی باغی نہ ہوجائے)۔ 23رعایا ایک ظالم حکمراں سے دور بھاگتی ہے اور اس کا برا نام زمانے میں افسانہ بن جاتا یعنی پھیل جاتا ہے۔

24زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایسا آدمی (حکمراں)‘ جس نے برائی پر اپنی بنیاد رکھی ہو، اپنی بنیاد اُکھیڑ ڈالتا ہے (ظالم حکمراں زیادہ عرصہ حکومت نہیں کرسکتا)۔ 25ایک شمشیر زن مرد اتنی خرابی پیدا نہیں کرتا جتنی بچے اور عورت (کمزوروں) کے دل کی آہیں کرتی ہیں (کمزوروں کی آہیں ظالم حکمراں کو لے ڈوبتی ہیں)۔ 26تو نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک بیوہ عورت نے جو چراغ جلایا اس نے ایک شہر ہی کو جلا ڈالا۔ 27بھلا دنیا میں اس سے بڑھ کر بہرہ ور؍خوش بخت کون ہے یا کون ہوسکتا ہے جس نے حکمرانی میں انصاف کی زندگی بسر کی۔ 28جب تیرا وقت اس دنیا سے کوچ کرنے کا آئے گا تو (تیرے انصاف کی بنا پر) لوگ تیری قبر پر ترس کھایا کریں گے (انہیں تیرے مرنے پر بہت افسوس ہوا کرے گا)۔ 29جب برے اور اچھے لوگ دنیا سے گزر جاتے ہیں یعنی سب کو مر جانا ہے تو یہی بہتر ہے کہ تیرے مرنے کے بعد لوگ تیرا نام اچھائی سے لیا کریں۔ 30تو کسی خدا ترس (خدا کا خوف رکھنے والے) کو رعایا پر مقرر کر (جو رعایا کے معاملات انصاف سے طے کیا کرے) اس لئے کہ ایک پرہیزگار ؍ متقی آدمی ملک کا معمار ہوتا ہے (ملک کی اچھی تعمیر کرتا ہے اپنے عدل و انصاف سے)۔ 31وہ جو تیرا فائدہ عوام کو دُکھ پہنچانے میں تلاش کرتا ہے۔

وہ تیرا برا چاہنے والا اور عوام کا خون پی جانے والا ہے۔ 32مملکت و سلطنت کسی ایسے انسان کے ہاتھ میں ہونا خطا ہے یا بجا نہیں، اس لئے کہ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں لوگ خدا کے حضور گڑگڑانے لگتے ہیں (ان کی تباہی کی دعا کرتے ہیں)۔ 33ایک اچھی تربیت پانے والا نیکوکار برائی سے دور رہتا ہے۔ تو جب تُو کسی کی بری تربیت کرے گا تو تُو اپنی جان کا دشمن ہوگا۔ 34موذی کی مکافات اس کی دلجوئی سے نہ کر، اس لئے کہ (ایسے موذی کی) جڑ تو باغ سے نکال دینی چاہئے (اسے خلق آزادی کا بالکل موقع نہ دینا چاہئے، اسے آغاز ہی میں ختم کردینا چاہئے)۔ 35تو کسی ظلم کے رسیا حاکم (گورنر) پر صبر نہ کر (اسے ظلم کی مہلت نہ دے)،اس کے تو موٹاپے کی کھال ادھیڑ دینی چاہئے (اس کے غرور و تکبر اور ظلم کا شروع ہی میں خاتمہ کردینا ضروری ہے)۔ 36(اس لئے کہ) بھیڑیے کا سر شروع ہی میں کاٹ دینا ضروری ہے نہ کہ اس وقت جب اس نے لوگوں کی بھیڑیں پھاڑ کھائیں۔ 37ایک اسیر تاجر نے کیا خوب بات کہی جب چوروں نے تِیر سے اس کی گردن پکڑلی ۔

38جب لٹیرے دلیری و مردانگی کرتے ہیں تو (ان کے مقابلے میں) لشکر کے دلیر اور عورتوں کے گروہ کیا ہیں (دلیری میں ان کی کوئی حیثیت نہیں)۔ 39جس بادشاہ نے تاجروں کو زخمی کیا اس نے شہر اور فوج پر خیر کا دروازہ بند کردیا۔ 40دانا لوگ جب رسم بد (یا ظلم و جور کے طور طریقوں ) کا شہرہ سنیں گے تو وہ پھر اس طرف ؍ ملک میں کیوں جائیں گے؟ (نہیں جائیں گے)۔ 41تجھے نیک نامی حاصل کرنی اور نیکی قبول کرنی چاہئے تو تاجروں اور قاصدوں ؍ نامہ بروں کا بڑا دھیان رکھ (ان سے اچھا سلوک کر)۔ 42۔بزرگ لوگ مسافر کا دل و جان سے دھیان رکھتے ہیں تاکہ وہ دنیا میں ان کی نیک نامی کا شہرہ کریں۔ 43وہ مملکت بہت جلد تباہ ہو جاتی ہے جس سے کوئی مسافر دل آزردہ ہوکر آئے۔ 44تو مسافر ؍ پردیسی کا آشنا اور سیاح کا دوست بن‘ اس لئےکہ سیاح نیک نامی کو دوسروں تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔

45تو مہمان سے اچھا سلوک کر اور مسافر کو عزیز رکھ ، تاہم ان کے آسیب سے بھی بچ کر رہ۔ 46کسی اجنبی سے بچ کے رہنا اچھی بات ہے اس لئےکہ وہ دوست کے لباس میں دشمن ہوسکتا ہے۔ 47ایسا پردیسی ؍ مسافر جس کا سر فتنے پر ہو (فتنے کا ارادہ کرنے والا ہو) اسے تو تکلیف نہ پہنچا بلکہ اسے اپنے ملک سے نکال دے۔ 48اگر تو اس پر ناراض نہیں ہوتا تو یہ عین مناسب ہے، اس لئے کہ خود اس کی بد فطرتی دشمن کے طور پر اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ 49اور اگر اس کا مولد (جائے ولادت) پارس ہو تو پھر اسے صنعا یا سقلاب اور روم (دوسرے ملکوں میں )نہ بھیج۔ 50وہاں (پارس میں) بھی اسے چاشت تک امن میں نہ رہنے دے تاکہ وہ کسی اور پر مصیبت کھڑی نہ کرے۔ 51کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہ سرزمین برگشتہ ہوجائے جہاں سے لوگ اس طرح باہر آتے ہیں (مراد یہ کہ جس دیارمیں اس قسم کے فتنہ پرور ہوں اس کا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے)۔ 52اپنے ندیموں کی قدر میں اضافہ کر اس لئے کہ اپنے پروردہ سے عذر ممکن نہیں ہوتا۔ 53جب کوئی خدمت گزار پرانا ؍ بوڑھا ہوجائے تو اس کے سالانہ حق کو فراموش نہ کر (یہی مراد ہوسکتی ہے کہ اسے باقاعدہ تنخواہ یا پنشن دیتا رہ)۔ ’’ترجمہ محترم ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، پبلشر سنگ میل لاہور‘‘۔
بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے