نازک موڑ، بھاری زمہ داریاں

نظریں کہیں اور ٹکی ہوئی تھی نشانہ کہیں اور لگ گیا۔ انگلیاں کسی اور پر اٹھ رہی تھیں اور ملزم کوئی اور بن کر سامنے آگیا۔ نظر دھوکہ کھاگئی صاحب۔ گویا جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ کچھ عمارتیں منہدم ہوگئیں تبھی کچھ پتھروں کو جگہ مل گئی کہ مل کر کوئی دیوار کی شکل اختیار کرلیں۔

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے گلگت بلتستان میں خالد خورشید کو قائد ایوان نامزد کرکے درجنوں سوالات کا جواب دیدیا۔ اسمبلی میں کی گئی پہلی تقریر میں ہی خالد خورشید نے ثابت کردیا کہ گلگت بلتستان میں حکومت کو چلانے کے لئے فردوس عاشق اعوان کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پیپلزپارٹی کے صدر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا انتہائی ہلکے موڈ میں اشارتاً جواب دیکر انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کردیا کہ ہاؤس چلانے کی اصل زمہ داری حکومت کی ہے اور حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں کو اسمبلی امور میں ساتھ لیکر چلے گی۔ یہ اس امر کی بھی نفی ہے جو وفاق، پنجاب اور دیگر اسمبلیوں میں حکومتی اراکین کی جانب سے حزب اختلاف کے اراکین کے ساتھ ہوتا ہے۔ قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈوکیٹ نے بھی ا پنی پہلی تقریر میں اپنی جذبات کو الفاظ کا سانچہ پہنادیا۔ تمام تحفظات اور جذبات کا جمہوری انداز اظہار کرکے انہوں نے حلقہ 1 گلگت اور پیپلزپارٹی کے فیصلے کو درست ثابت کردیا۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو نوک جھوک رہی اس پر اسمبلی کی کاروائی دیکھنے آیا ہوا ہر فرد اس سے محظوظ ہوا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازوں کو عوام اور ملاقاتیوں کے لئے کھلے رکھنے کا اعلان سابقہ حکومت کی بدقسمتی میں سے ایک ہے۔

خالد خورشید کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بنائے جانے پر تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے شخص نے اپنی خوشی کااظہار کیا ہے۔ بطور رکن حلف لینے والے خالد خورشید اور اسمبلی سے وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے خالد خورشید میں بڑا فرق نظر آگیا۔ دو روز قبل مختلف مقامات پر کرنے والی سطحی گفتگو کو خالد خورشید نے اسمبلی کی جاندار تقریر کے زریعے صاف کردیا۔ خالد خورشید نے سی پیک میں گلگت بلتستان کے نظر انداز رہنے اور آئینی حقوق کے معاملے کو بھی اپنے پہلی تقریر میں شامل کردیا۔

یقینی طور پر گلگت بلتستان کا معاملہ آئے روز نازک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے یکم نومبر کو باضابطہ طور پر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ آئینی حیثیت میں متوقع تبدیلی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ گلگت بلتستان کے ارد گرد صورتحال دیکھی جائے تو آئینی تبدیلیوں نے عوام میں بڑی بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔ فاٹا کے عوام اس وقت اپنا پرسان حال ڈھونڈرہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی ہی طرح کارگل اور لداخ والوں نے بھی اپنی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کو اپنا دیرینہ مطالبہ قرار دیا جس پر ان کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے انڈیا نے اس علاقے کو اپنا یونین ٹیریٹری بناتے ہوئے بلاواسطہ مرکز کے ماتحت لایا ہے۔ اب وہاں کے شہری بھی اپنے وجود سے خوفزدہ ہیں، انہیں اپنے معاملات ہاتھ سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اب عبوری صوبہ یا آئینی صوبہ کے حوالے سے کسی بھی قسم کی چیز عوام کے سامنے نہیں آئی ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین نہ کرنے سے جہاں درجنوں قانونی مسائل ہیں وہی پر اس کے تعین ہونے کی صورت میں دریا سمندر سے مل کر اپنے وجود کو کھودینے کے خطرات سے بھی خوفزدہ ہے۔ایسی صورتحال میں خالد خورشید پر بطور وزیراعلیٰ بہت بڑی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانونی، آئینی، سماجی اور گلگت بلتستان کے رواجی و روایتی معاملات کو قبل از منظوری عوام کے سامنے لائیں اور گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کرائیں۔ تاکہ مذکورہ خدشات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کو متعدد امور پر زبردست مواقع ملے۔ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو حکومت کی حد تک کیش کراتے ہوئے بجٹ میں اضافہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے کسی بھی منصوبے پر فنڈز کی کمی ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ مرکزی حکومت نے اپنی صوبائی حکومت کو ہر معاملے میں تعاون کرتی رہی۔ حفیظ حکومت کا شاید ہی کوئی کاغذ بغیر منظوری کے وفاق سے واپس آگیا ہو۔ اب کس کس قسم کے کاغذ بھیجے گئے ہیں یہ شاید خالد خورشید آئندہ دنوں میں سامنے لیکر آئیں گے۔

خالد خورشید نے اس امر کی بھی ابتدائی تقریر میں نشاندہی کردی کہ گلگت بلتستان کو چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ یہ سوال پلٹ کر سابقہ حکومت کی جانب ہی جاتا ہے کہ سی پیک منصوبے سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے۔ سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کو فائیو وے لنک کرنے کے منصوبے کا کیا بنا؟ گلگت بلتستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کیوں نہیں ہوسکی؟محکمہ جات میں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ اب بھی جوں کا توں کیوں پڑا ہوا ہے۔ان سوالات سے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا آغاز کرنا ہے۔

خالد خورشید صاحب نے جس وقت بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھالیا اس وقت گلگت شہر میں لوگ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے گزررہے تھے۔بجلی کے اس مسئلے کا چونکہ وزیراعلیٰ نے اپنے ابتدائی خطاب میں بھی زکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دہرادیا کہ گلگت بلتستان میں 50 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن پھر بھی علاقے کے عوام لوڈشیڈنگ برداشت کررہے ہیں۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے بجلی کے منصوبوں کے لئے پاور پالیسی کو 2018 میں تیار کرکے وفاقی حکومت کو منظوری کے لئے بھیج دیا تھا تاہم عمران خان نے بطور وزیراعظم مسلم لیگ ن کے اقدامات کو ٹرن ڈاؤن کرنے کا تہیہ کیا ہواتھا اسی وجہ سے گلگت بلتستان کی پاور پالیسی بھی اب تک منظور نہیں ہوسکی ہے۔ پاور پالیسی کی تیاری سیکریٹری ظفر وقار تاج کے دور میں ہوئی تھی اور اب تک متعدد سیکریٹریز تبدیل ہوگئے لیکن پاورپالیسی منظور نہیں ہوسکی۔

خالد خورشید کا خاندانی اور پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے وہ معزز اور پڑھے لکھے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی جس طرح وزراء کے قلمدانوں کی تقسیم عمل میں لائی گئی اس کو خالد خورشید کاکمزور آغاز تصور کیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ کے حلف سے پہلے ہی اسلام آباد سے وزراء کی تقرری اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ فیصلے گلگت بلتستان میں نہیں ہوتے ہیں۔خالد خورشید کے اس کمزور آغاز اور اچھی تقریر کی بنیاد پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ مستقبل میں اس امر کی نفی کریں گے کہ وہ اپنے فیصلے خود نہیں لے سکتے ہیں، اس اہم عنصر کے ساتھ ان کی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہوگا۔ امید ہوگی کہ جلد از جلد گزشتہ حکومتوں سے نکل کر خالد خورشید اپنے حکومتی منصوبوں اور اقدامات کی جانب بڑھیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے