مجھے انگریزی نہیں آتی

میں پنجاب میں پیدا ہوا ہوں تو انگریزی سے دور دور تک کیا ناطہ بنتاہے ۔ میں سندھی ، بلوچی ،یا پٹھان بھی ہوتا تو بھی یہی حال ہوتا ، ہم پاکستانیوں کو اپنی مادری زبانوں سے ماں جیسا ہی پیار ہے ۔ اگر مذہب کے بعد ہم سب کسی نقطے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ ہماری مادری یا پھر قومی زبان اردو ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جو الفاظ کا چناؤ ہوتا ہے یہ گھائل دل کو مرہم دے سکتا ہے اور یہی الفاظ کسی کی دنیا اجاڑ دیتے ہیں۔

آزادی کے بعد اگر کوئی غلامی کا طوق ہماری گردنوں سے نہیں نکل پایا تو وہ ہے انگریزی زبان ۔ ہمارے ملک کی بڑی کلاس انگریزی بول کر خود کو عوام سے ممتاز سمجھتی ہے ، ویسے عجیب بات ہے لنڈے کو اُترن سمجھنے والے لنڈے کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔

کوئی بھی علم سیکھنا نیکی ہے ، چاہے وہ کوئی زبان ہی کیوں نا ہو لیکن اگر نیکی بھی آپکو مغرور بنا رہی ہے تو نیکی نیکی نہیں رہتی ۔ علم ضرور سیکھئے مگر احتیاط کیجئے کہ کہیں آپ اپنے آپ میں خود کو ارفع و اعلی تو نہیں سمجھنے لگ گئے۔

مملکت خداداد کے حالات یہ ہیں کہ بچے اردو میں فیل ہو رہے ہیں اور انگریزی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔اور ذہین اتنے ہیں کہ انگریز بھی انکی انگریزی پڑھ کر سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ او بھائی یہ غالب والی انگریزی کیسے سیکھ اور لکھ لیتے ہو۔

دراصل انگریزی ایک برانڈ بن چکا ہے ، انگریزی بولنے کے لہجے سے آپ کی پہچان ہوتی ہے ۔۔۔ دراصل ہمارے ملک میں انگریزی بھی مختلف لہجوں میں بولی جاتی ، پنجابی انگریزی ، سندھی انگریزی اور پٹھان انگریزی پھر اسکے بعد آتی ہے پڑھے لکھوں کی انگریزی اور سب سے بڑھ کر ( ایلیٹ) امیروں کی انگریزی ۔ ویسے تو ہمارے ہاں اُردو کیلئے بھی یہی سب لہجے استعمال ہوتے ہیں لیکن اردو بولنے پر معذرت کیساتھ کوئی فخر محسوس نہیں کرتا۔

پھر کہتے ہیں ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہیں ۔او بھائی قوم بننے کیلئے سب سے پہلے اپنی زبان میں بات کرنا سیکھو ، حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے : (بولو تاکہ پہچانے جاؤ اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے) اب جب پہچان کا معیار ہی آپ کے الفاظ ہیں تو دنیا بھر میں اپنی بات کے اظہار کا بہترین طریقہ مادری زبان ہے ۔ لیکن نا ! ہم نے انے واہ انگریزی مارنی ہے بھلے مطلب جو بھی بنتا ہو ۔۔ زیادہ سے زیادہ غلط ہی بولیں گے تو ہمیں پتہ ہے کہ اگلے کو کونسی انگریزی آتی ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں وہ استاد بھی انگریزی بولنے کی سعی کرتے ہیں جو ٹاٹ کے سکولوں سے پڑھ کر آئے ہوتے ہیں ، نہ چاہ کر بھی انکو انگریزی انگریزی کرنا پڑتی ہے اور کچھ لوگ اس لیے بھی انگریزی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے دور میں Tens اتنے Tens کرتے تھے کہ اللہ معاف کرے۔ ہم ایک طرف فعل ماضی،حال اور مستقبل پڑھ رہے ہوتے تھے تو دوسری طرف Past, Present , Perfect کے رٹے لگا رہے ہوتے تھے اور اللہ بھلا کرے امتحانی بورڈز والوں کا کب ماضی کو حال بنا کر ہمارا مستقبل تاریک کردیا گیا یہ تب پتہ چلتا تھا جب کمرہ امتحان سے باہر نکل کر کلاس کے لائق فائق طلبا بتا رہے ہوتے تھے یہ تو ماضی کا جملہ تھا دوسری فارم لگنا تھا اور Has, Have کے ساتھ تسری فارم لگنا تھی ، اُدھر ہی پتہ چل جاتا تھا کہ پپو فیل ہے۔

ایم فل میں میری پٹھان کلاس فیلو تھی ، امریکہ سے پڑھ کر آئی تھی اور انے واہ انگریزی بولتی تھی اور ہم ٹھہرے انگریزی سے بھاگنے والے پہلے دو تین دفعہ تو چپ رہا پھر اس کی باتوں کا جواب پنجابی میں دینا شروع کر دیا ۔۔ آخر تنگ آکر کہنے لگی یہ تم پنجابی میں کیوں جواب دیتے ہو تو میں نے کہہ دیا یہ تو تمہیں انگریزی بولنے سے پہلے سوچنا چاہیئے نا ۔۔ مطلب اِنج تے فر اِنج ای سہی ۔جے سانوں انگریزی سمجھ نہیں آندی تے فر جواب پنجابی وچ ملے گا ۔

حال ہی کی بات ہے آفس میں ایک انٹرویو میں بابر اعوان نے انگریزی لفظ Façade بولا جس کا مطلب تھا ظاہری شکل لیکن ہمارے سمیت سبھی نے اسکو فساد سمجھا اور فساد ہی لکھا۔ اللہ بھلے کا ہمارے باس کا سنتے ہی اپنے کمرے میں بلا لیا عزت افزائی فرمائی اور پھر مطلب بتایا ۔ میں نے کہا سَر پہلی بار سنا ہے لفظ کہنے لگے اب میں انگریزی کیلئے کوئی اور بندہ لا کر بیٹھا دوں یہاں ۔۔ ہن دسو بچارا پاکستانی کتھے جاوے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ انگریزی کا مسئلہ ہی نہیں ہے ، فرانس ، جرمنی ، چین ، جاپان، عرب ممالک اور حتی کہ ایران والے بھی انگریزی کو گھاس نہیں ڈالتے لیکن وہ ترقی کی منازل طے کر رہے۔ لیکن یا برصغیر پاک و ہند کے غلام آج تک انگریزی کی زنجیر نہیں توڑ پا رہے ہیں۔

ہمارے پرانے چیف جسٹس جمالی صاحب نے اُردو کو دفاتر میں رائج کرنے کا فیصلہ دیا تھا لیکن ہماری انگریزی والی کلاس نے اس فیصلے پر اتنا ہی عمل کیا جتنا ہمارے تھانے والے قانون پر عمل کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی انگریزی میں لیا جاتا ہے مطلب اگر آپکو انگریزی نہیں آتی اور آپ بھلے کتنے ہی لائق ہیں آپ جائیں بھاڑ میں آپکی سروسز کی کسی کو ضرورت نہیں کیونکہ سارے احکامات تو انگریزی میں صادر کیے جاتے ہیں ، عدالتی فیصلے بھی انگریزی میں جاری کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کی زیادہ تر عوام تو ان فیصلوں کی زبان سے نا بلد نظر آتی ہے جبکہ کئی وکیل بھی ان فیصلوں کو پڑھنے کیلئے (ڈکشنری) لغت کا استعمال کرتے ہیں۔

آخر کب یہ انگریزی ہمارے علم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہے گی اور ہم اسکو چھوڑ کر اپنی زبان میں پڑھنا، لکھنا اور بولنا شروع کریں گے تاکہ ہماری بھی پہچان ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے