کرونا کے پشاور کی ہوا پر مثبت اثرات

پشاور کی ہوا آج کیسی ہوگی آج اس میں سفر کے لئے باہر نکلناسانس کے لئے نقصان دہ تو نہیں ؟ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان ہر روز صبح ایک موبائل ایپ کے ذریعے ہوا کا معیار جانچتے ہیں۔وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دن بھر ہوا کتنی زہریلی ہوتی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ شہر کی ہوا کا کوالٹی انڈیکس ڈیڑھ سو سے دو سو کا ہندسہ عبور کر چکا ہوتا ہے۔

اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زبیر خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک میں شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پراجیکٹ کو ہیڈ کرتے ہیں۔ وہ دن بھر پشاور کی آب و ہوا کا معیار اس لیے چیک کرتے ہیں کہ کیا یہ سانس لینے کے لئے نقصان دہ تو نہیں؟

ڈاکٹر زبیر کا کہنا ہے کہ ہم انسانوں نے تو اس شہر پر رحم نہیں کیا مگر کورونا وائرس جو دنیا بھر میں انسانوں کے لئے تباہی کا سبب بنا ہوا ہے وہ اس شہر کے لیے باعث رحمت ثابت ہواہے ۔ وہ شہر جسے ۵ سال قبل اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او یعنی ادارہ عالمی صحت نے پہلے دس آلودہ ترین شہروں میں شامل کیا تھا چند ماہ پہلے تک وینس جیسے شہر کے برابر آ گیا تھا۔۔مگر کیسے؟

خیبر پختونخوا سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ اور خوشحال خٹک یونیورسٹی شعبہ کمپیوٹر سائنس نے2019ء میں‌ باہمی اشتراک سے پشاور میں سات مقامات پر ائیر کوالٹی سینسرز لگائے ۔خیبر پختونخوا کے معاون سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ضیاء اللہ بنگش کے مطابق اس منصوبے کا مقصد شہر کی آب و ہوا اور اس کے ذریعے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے تھے۔ پشاور کو آلودہ ترین شہروں کی فہرست سے نکالنا ان کے لئے ایک چیلنج تھا کیونکہ پشاور کی آب وہوا کو طبی ماہرین نے خطرناک قرار دیا تھا۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ماہر امراض سینہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جمشید عالم کہتے ہیں کہ دو سو سے ڈھائی سو تک مریض روزانہ ان کے پاس معائنے کے لئے آتے ہیں۔اور جب حالات خراب یا موسم تبدیل ہوتا ہے تو مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق پچاس فیصد سے زیادہ مریض فضائی آلودگی کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں دمہ،کھانسی اور ناک کی الرجی کی بیماریاں شامل ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ آلودگی سے متاثرہ مریضوں میں اکثر ایک ماہ کے بچے سے لے کر تیس سال سے زیادہ عمر والے افراد شامل ہیں جن کی شرح نواسی(89)فیصد ہے۔

ڈاکٹر جمشید عالم کے مطابق ہوا کی آلودگی کی وجہ سے پھیپھڑے کمزور ہو جاتے ہیں اور صحیح کام کرنا چھوڑ دیتے ہیںاورقوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور یوں کورونا اور اس جیسی دوسری بیماریاں انسان کو جلد اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ صاف ماحول میں رہنے والے صحت مند انسان کے مقابلے میں آلودہ فضاء میں سانس لینے والوں پر کورونا پچاس فیصد زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

سال 2016 میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں پشاور کو دنیا کے تین ہزار آلودہ ترین شہر وں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔بین الاقوامی ائیر کوالٹی انڈیکیٹرز کے مطابق اگر کسی شہر کی آب و ہوا 50 کے پیرا میٹر کو عبور کر لے تو وہ صحت کے لیے خطرناک ہو جاتی ہے جبکہ پشاور کا ائیر انڈکس عام طور پر 200 سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔

ڈاکٹر زبیر کے مطابق پشاور میں ہوا کا معیار چیک کرنے کے لیے سات مقامات پر سینسرز لگا دیے گئے ہیں جس میں حاجی کیمپ اڈہ، چیف سیکرٹری آفس، کوہاٹ روڈ، رورلز اکیڈمی، لوکل گورنمنٹ آفس ،انڈسٹریل اسٹیٹ شامل ہیں جو نہ صرف ہوا میں موجود خطرناک ذرات بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ دیگر گیسز جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ ،نائٹروجن، اور اوزون لیئرز کو بھی مانیٹر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ دن کے وقت پشاور کی آب وہوا پیرامیٹرز کے انتہائی خطرناک ہندسے تک پہنج جاتی ہے جبکہ رات کے وقت ٹریفک اور کارخانے اور فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے پارہ کچھ حد تک نیچے آجاتا ہے۔ڈاکٹر زبیر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے پشاور کی آب وہوا بین الاقوامی ائیر کوالٹی پیرامیٹرز کے معیار پر پورا اتری تھی یعنی پشاور میں ائیر کوالٹی 50 پر پہنچ کر سانس لینے کے قابل ہو گئی تھی ۔مگر لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد اب ایک بار پھر ائیر کوالٹی انڈکس 150 اور 200 کے درمیان رہتا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے اینوائرمنٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر بشر یٰ نے پشاور کی فضائی آلودگی کی وجہ بے ہنگم ٹریفک اور پالیسیوں پر عمل درآمد نہ ہونے کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول کو محفوظ بنانے کے لئے صوبے میں کوئی بھی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تا ہم کویڈ لاک ڈاون میں ہوا کا موزوں ہو جانا بہت سے مسائل کے حل کی طرف اشارہ تھا مگر بد قسمتی سے ہم حالات سے سیکھتے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر بشریٰ کہتی ہیں کہ لاک ڈاون نے ہمیں ٹریفک اور انڈسٹریز کو ریگولرائز کرنا سکھایا تھا لیکن لاک ڈاون ختم تو سب ختم۔ ہم نے کوئی مثبت اور دیرپا منصوبہ بندی کرنی نہیں سیکھی۔ پشاور میں اگر ائیر انڈیکس ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ شہر میں گاڑیوں کی انٹری، وہیکل ٹیسٹنگ سٹیشنز اور فیول کوالٹی چیکنگ جیسے کاموں کو ریگولرائز کرنا ہوگا۔انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کو صوبائی اور ضلعی سطح پر فعال کرنا ہوگا۔ جب قانون ہوگا اور ان پر عمل درآمد یقینی ہوگا تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔

پشاور ٹریفک پولیس کے مطابق شہر میں روزانہ تقریبا سات لاکھ تک چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں جس میں 85 ہزار رکشے، 3 لاکھ 25 ہزار 980 موٹر سائیکلیں، ایک لاکھ 27 ہزار موٹرکارز، 5 ہزار 7 سو ٹیکسیاں، 263 بسیں، ایک ہزار 33 ایمبولینسیں اور 30 ہزار دیگر چھوٹی گاڑیاں شامل ہیں۔

لاک ڈاون کے دوران ائیر کوالٹی انڈکس کے اتار چڑھاؤ والے اعشاریوں نے حکومت کو کچھ ایسے اشارے ضرور دیے ہیں جن پر کام کر کے اس شہر اور اس کے باسیوں پر رحم کیا جا سکتا ہے۔اس لیے تو معاون خصوصی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ضیاءاللہ بنگش کہتے ہیں کہ اب ائیر کوالٹی مانیٹرنگ سینسرز کا دائرہ دوسرے اضلاع تک بھی پھیلایا جائے گا جس کے لیے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں اور سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ طلبہ کی خدمات لی جارہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کو ماحول دوست گاڑیاں بنانے کی تجویز بھی پیش کر دی ہے جس پر جلد عمل درآمد کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بی آرٹی منصوبے کی وجہ سے شہر میں کافی حد تک فضائی آلودگی پر قابو پا لیا گیا ہے جس کی رپورٹ بہت جلد سامنے لائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے