فلسفہ،مذھب اورسائنس

کچھ دنوں سے ھمارے چند اہل علم دوستوں کے درمیان مذھب اور فلسفہ کی جنگ جاری ھے ۔ روایتی مذھب کے علمبردار اس پورے فلسفیانہ پس منظر اور تاریخ کو ھی ردی کے قابل سمجھتے ھیں جو انسانی علم کے ارتقا میں بنیادی کردار رکھتی ھے ۔ علم کی ہر شاخ میں اس فلسفیانہ اساس کی اہمیت کو پہچاننے سے عاری دکھائی دیتے ھیں ۔ جس مغربی تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ھے اس کے مبادی سے ھی ناواقف ھیں ۔ غزالی کی تلقین ان کو یاد رھی مگر ابن رشد کا فلسفہ نہیں جس نے جدید مغرب کی بنیاد رکھی ۔ یہ بھول گئے کہ فلسفہ و منطق سوچنے کا ایک انداز عطا کرتا ھے اور سوالات اٹھاتا ھے جو قرآن کے علم کلام کا بھی محور ھے ۔ نظام کی تشکیل فلسفہ کی مرھون منت ھے ۔ کسی بھی علم کے ایک پہلو کو لے کر اس کی کلی نفی کرنا دانشمندی کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ھے ۔

دوسری طرف فلسفہ کے اثرات بد بھی ایک سچائی ھیں ۔ بعض دفعہ فلسفی سطح پر تیرتی حقیقت کو بھی لایعنی منطق اور مباحث سے مشکوک بنا دیتے ھیں ۔ فلسفہ کی ہزاروں سال کی تاریخ مابعدالطبیعیاتی مباحث میں وحی کی اہمیت کو نظر انداز کر کے اصطلاحات کی گنجلک تعبیرات کے ذریعے رعب ڈالنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ انسان نے اسی وقت جدید دور اور سائنس کی دنیا میں قدم رکھا جب اس نے "کیوں ” سے ” کیسے ” کی طرف پیش قدمی کی اور سوچ کی محدودیت کے اقرار کے ساتھ اپنی سمت درست کی ۔ کلیسا کے دور کا مذھبی جبر بھی سائنس نے توڑا ورنہ فلسفہ اس کو محض تقویت پہنچانے کا باعث بنا رھا ۔

میں نے بڑے بڑے فلسفیوں کو کامن سینس اور بڑے بڑے مذھبیات کے ماہرین کو فلسفہ سے نابلد ھونے کی وجہ سے چیزوں کو گہرائی میں سمجھنے کی صلاحیت سے محروم دیکھا ھے ۔ حق دونوں کے درمیان ھے ۔ فلسفہ اور مذھب دونوں ایک دوسرے کے معاون بنیں تو بہت کچھ دریافت کر سکتے ھیں ۔ جیسا کہ سائنس اور فلسفہ اٹھارویں صدی کے بعد سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دئے محو سفر ھیں ۔ جیسا کہ الحاد اپنی بنیاد جدید سائنسی ایجادات و دریافت سے کشید کرتا ھے۔ جیسا کہ مابعد جدیدیت اخذ کرتی ھے ۔ فرق صرف یہ ھے کہ پہلے سائنس فلسفہ پر اپنی بنیاد رکھتی تھی اور اب فلسفہ سائنس سے متاثر ھوتا ھے ۔ باگ ڈور اب سائنس کے ہاتھ میں ھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے