انصاف مرحوم اور نازیبا نالاہوری!

یہ کئی برس پہلے کی بات ہے کہ میں اسلام آباد گیا تو وہاں اپنے استاد ’’انصاف‘‘ مرحوم کی مرقد پر بھی حاضری دی اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس دفعہ ان کی مرقد کے اردگرد سبزہ نورستہ اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ رنگ برنگے پھول بھی کھلے ہوئے تھے اور فضا بہت روشن روشن سی تھی۔ حالانکہ دو تین سال پہلے تک وہاں خاردار جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں جو آنے جانے والوں کو زخمی کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہاں چرسی بھنگی اور جواریے بیٹھے رہتے تھے جو چرس کے سوٹے لگاتے اور منگ پتہ کھیلتے نظر آتے تھے جبکہ اس سے پہلے کی جو بات میں کر رہا ہوں وہاں بہت معقول لوگ مؤدب انداز میں بیٹھتے تھے۔

سابقہ دو تین برسوں میں کچھ ناہنجار، انصاف مرحوم کی قبر پر غلاظت بھی پھینک جاتے اور کچھ ایسے بھی تھے جو ہر جمعرات کو حاضری دیتے اور جاتے ہوئے مرقد مبارک پر چار چھ جوتیاں مارتے اور استاد مکرم انصاف مرحوم کا ٹھٹھہ اڑاتے چنانچہ انصاف مرحوم میرے خواب میں تشریف لائے اور اس تشویشناک صورتحال سے مجھے آگاہ کیا۔ استاد بہت غمزدہ تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، انہوں نے مجسٹریٹ درجہ چہارم پر شک ظاہر کیا کہ یہ سب کچھ اس کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ یہ مجسٹریٹ درجہ چہارم وہی تھا جو استاد انصاف مرحوم کی محبوبہ کو لے اڑا تھا اور اس نے استاد کو ان کی زندگی میں اس کے علاوہ بھی بہت سی اذیتیں دی تھیں۔ چنانچہ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں سیدھا مجسٹریٹ درجہ چہارم کے پاس گیا اور اس کے رویے کی شکایت کی۔ اس وقت اس کے پاس ایک سائلہ بیٹھی تھی جو اتنی خوبصورت تھی کہ اس کے گرد متعدد ’’سائل‘‘ اکٹھے ہو گئے تھے۔

مجسٹریٹ درجہ چہارم نے بہت توجہ سے میری بات سنی اور کہا ’’استاد انصاف مرحوم نے خواہ مخواہ میرے بارے میں بدگمانی سے کام لیا کیونکہ ان کے اپنے کارنامے ایسے ہیں کہ مجھے ان کی قبر پر جوتے مروانے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ اس سلسلے میں ماشاء اللہ خود کفیل واقع ہوئے ہیں‘‘۔ مجھے مجسٹریٹ درجہ چہارم کے اس بیان سے سخت رنج پہنچا کیونکہ میرے نزدیک مرنے والے کی خوبیاں بیان کرنا چاہئیں خواہ اس کی خوبیاں تلاش کرنے کے لئے کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔ بہرحال چند برس پہلے تک صورتحال بالکل مختلف تھی۔ عقیدت مندوں نے مرقد مبارک پر دیے بھی جلائے ہوئے تھے۔ اگربتیوں کی خوشبو بھی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، اس کے علاوہ ایک حیران کن بات یہ تھی کہ وکلاء کی تنظیموں، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے پھولوں کی چادر بھی مرقد پر چڑھائی گئی تھی۔

مگر جو بات ان تمام باتوں سے زیادہ حیران کن تھی، وہ یہ تھی کہ مرقد مبارک کے حوالے سے خاص وعام میں بہت عجیب وغریب قسم کی روایتیں مشہور ہو چکی تھیں مثلاً یہ روایت کئی لوگوں نے بیان کی کہ انصاف کبھی مردہ اور کبھی زندہ ہو جاتے ہیں چنانچہ بعض مرتبہ انہوں نے دن اور رات کے کئی لمحات میں انہیں چلتے پھرتے اور لوگوں سے باتیں کرتے دیکھا ہے بلکہ ایک روایت یہ بھی سننے میں آئی کہ ملک بھر میں جہاں کہیں کسی پر ظلم ہو، کرپشن ہو، قانون کی خلاف ورزی ہو،آئین کی بے حرمتی ہو، انصاف موقع پر پہنچتے ہیں اور ظالموں کو سزائیں سناتے ہیں۔ میرے لئے یہ سب باتیں ناقابلِ یقین ہیں کیونکہ میں انصاف مرحوم کا شاگرد ہوں۔ مجھ سمیت ساری دنیا جانتی ہے کہ انصاف کو مرحوم ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں۔ مجھے تو یہ سب باتیں تو ہم پرستی کا شاخسانہ لگتی ہیں یا پھر ممکن ہے انصاف مرحوم کے جسد خاکی میں کبھی کبھی کوئی نیک روح حلول کر جاتی ہو جس کی وجہ سے لوگوں کے خیالات میں یہ تبدیلی آئی ہو۔وجہ کچھ بھی ہو، مجھے خوشی ہے کہ اب کچھ لوگ میرے استاد کی عزت کرنے لگے ہیں ورنہ تو ان کی ذاتِ بابرکات کے بارے میں بہت ناگفتہ قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں تاہم مجھے اب بھی شبہ ہے کہ جو لوگ جس انصاف کی عزت کر رہے ہیں وہ کوئی اور انصاف ہے اور شاید دو تین سے زیادہ تعداد میں ۔

استاد کے ایک شاگرد نازیبا لاہوری نے ازراہِ عقیدت انصاف مرحوم کی ایک علامتی قبر بھی بنائی ہے۔ حاضرین کا کہنا ہے عقیدت سے زیادہ مال بنانے کا جذبہ شامل ہے کیونکہ نازیبا لاہوری انصاف مرحوم کی اس علامتی قبر کا مجاور بن کر بیٹھا ہوا ہے، سال میں دس پندرہ مرتبہ استاد کا عرس مناتا اور ان سائلوں سے پیسے بٹورتا رہا ہے جو استاد کی قبر پر مرادیں مانگنے آتے تھے ۔نازیبا لاہوری کے والدین کا کہنا ہے کہ یہ علامتی قبر انصاف کے ساتھ سخت زیادتی ہے کیونکہ اس سے ان کی سخت بدنامی ہو رہی ہے ۔چنانچہ وہ گاہے گاہے مطالعہ کرتے رہتے ہیں کہ اس مجاور کو یہاں سے ہٹایا جائے یا نذر نیاز کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ بند کیا جائے جبکہ میں ان حاضرین سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرا خیال ہے کہ جس طرح اسلام آباد میں انصاف مرحوم کی مرقد مبارک کو کبھی کبھی عزت و توقیر دی جاتی ہے اور لوگوں کو وہاں سے فیض ملنے لگا ہے اسی طرح ان شاءاللہ سارے پاکستان میں موجود انصاف مرحوم کی روایتی قبر بھی بہت جلد مرجع خاص و عام بنے گی اور لوگ دل کی مرادیں پائیں گے ۔حاسدوں کا کام حسد کرنا ہے، وہ حسد کی آگ میں جلتے رہیں، نازیبا لاہوری کو ان کی وجہ سے اپنا دل کھٹا نہیں کرنا چاہئے اور دعا کرتے رہنا چاہئے کہ ان کے اور میرے محبوب انصاف مرحوم جنہیں کچھ لوگ زندہ اور کچھ تاحال مردہ تصور کرتے ہیں، اپنے فیوض وبرکات کا دائرہ ایک دن سارے پاکستان تک پھیلا دیں گے تاکہ مجسٹریٹ درجہ چہارم کا منہ بھی کالا ہو جو استاد مرحوم کی محبوبہ کو لے اڑا تھا اور اس کے بعد بھی استاد کی روح کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا …جھوٹوں پر خدا کی لعنت!

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے