ایران کی بشار الاسد کو سیاسی پناہ کی پیشکش؟

کچھ خبروں سے پتہ چلا ہے کہ ایران نے حال ہی میں بشار الاسد کو ‘میزبانی’ کی پیشکش کی ہے، یعنی ان کو سیاسی پناہ دینے اور ائر پورٹ پر ‘ہیرو’ کے طور پر استقبال کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ بیان ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر برائے خارجہ امور علی اکبر ولایتی سے منسوب ہے جو انہوں نے کچھ دن قبل لبنان اور شام کے دورے میں دیا تھا۔

لگتا ہے کہ ایسی خواہشات کی وجہ ‘مثبت’ فضا ہے جو جنگی تباہی میں ایک عنقا شے ہے۔ مثبت خبروں میں ان لبنانی فوجیوں کی رہائی کا بھی ذکر ہے جو دہشت گرد تنظیم النصرہ فرنٹ نے اغوا کئے تھے۔ یہ رہائی قطر اور حزب اللہ کے توسط سے ہونے والی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ ایک اور مثبت خبر میں اس معاہدے کا ذکر ہے جس میں سلیمان فرانجیہ کو لبنان کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ایک طویل تنازع اور دو سال سے زیادہ رہنے والے صدارتی خلا کو پر کیا جاسکے۔

یہ خبریں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بالآخر موجودہ تعطل کے ٹوٹنے کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔ تو کیا بشار الاسد کے جانے کا وقت آ گیا ہے؟

بڑی خبر، چھوٹی کوریج

اگر ولایتی جیسا کوئی اعلی ایرانی عہدیدار اعلان کرے کہ تہران، بشار الاسد کو سیاسی پناہ دے گا تو یہ ہر اعتبار سے ایک بڑا انکشاف تھا جسے حکومتوں اور میڈیا کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کرنے چاہئے تھا۔ تاہم یہ خبر صرف شامی اپوزیشن کے میڈیا میں نظر آئی جسے بہرحال دمشق اور ایران جیسے رقیبوں کی خبروں کے لئے حوالہ نہیں بنایا جاسکتا۔
ایک طویل تحقیق کےبعد مجھے بالآخر ‘المیادین’ ٹی وی چینل کو ولایتی کے انٹرویو کی مکمل ویڈیو مل گئی۔ انٹرویو کے آخر میں میزبان نے ولایتی سے پوچھا تھا کہ کیا تہران جلد ہی بشار الاسد کا استقبال کرے گا، بالخصوص اس حقیقت کے تناظر میں کہ بشار نے ایک ماہ قبل ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ سوال میں اس جانب اشارہ تھا کہ ایران، بشار کا استقبال کرنے سے گریز کر رہا تھا۔
ولایتی کا جواب تھا، ‘بشار الاسدکی دمشق میں موجودگی اہم ہے۔ ہم ایران میں ان کا استقبال اس وقت کریں گے جب یہ ہم پر فرض ہوگا۔ ہم بشار الاسد پر اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ اپنا ملک چھوڑیں۔ وہ جب ایران کا دورہ کریں گے ہم ان کا گرمجوشی سے استقبال کریں گے اور ایک ہیرہ کی طرح کریں گے۔ انہوں نے اپنے عوام کا پانچ سال دفاع کیا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ان کا عہدہ خالی ہو جائے۔’

پراسرار پیغام

ولایتی کے انٹرویو کے آخری حصے کو سننے والا ہر شخص یہی سمجھے گا کہ ایران، بشار الاسد کو سیاسی پناہ دینے کے خیال کو خوش آمدید کہتا ہے۔ تاہم سوال کا پس منظر یہ تھا کہ بشار الاسد اکتوبر میں روس کا دورہ کرچکے تھے مگر ایران نے ابھی تک دورہ کرنے والے صدر کی حیثیت میں ان کا استقبال نہیں کیا تھا۔ ولایتی کے جواب کا مطلب بشار الاسد کو سیاسی پناہ دینا نہیں تھا، مگر اس میں ایک پراسراریت موجود تھی۔ ولایتی نے بشار الاسد کا استقبال کرنے کی بات براہ راست نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ بشارالاسد ان حالات میں ملک چھوڑیں۔ مگر یہ زیادہ قبل ازقیاس بات نہیں کیونکہ وہ ان حالات ہی میں دمشق چھوڑ کر ماسکو گئے جو چار گھنٹے کا سفر تھا جبکہ تہران کا سفر صرف دو گھنٹے کا ہے۔

میرا خیال ہے کہ ایران کا بشارالاسد حکومت سے تعلق بہت مضبوط اور گہرا ہے، اور مشترکہ مفادات سے کہیں ذیادہ وسیع ہے۔ بغاوت کے آغازسے ہی بشار حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے پیچھے تہران کا ہاتھ رہا ہے۔ انقلاب سے قبل کی صورتحال کا جائزہ لینے والوں کا خیال ہے کہ سنہ ۲۰۰۰ء میں بشار الاسد کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شام کی پالیسیاں ایران ہی چلا رہا ہے۔ یہ حقیقت لبنان میں شام کی پر تشدد پالیسی اور وہاں کی اہم شخصیات کے قتل میں ایران کا ہاتھ ہونے کی وضاحت کرتی ہے۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد وہاں مزاحمتی قوتوں اور القاعدہ کی سرگرمیوں کو شام کی حدود سے چلانے میں بھی ایران کا ایک کردار رہا ہے۔ ایران اور شام کا گٹھ جوڑ آج بھی موجود ہے اور تہران، بشار الاسد کا ساتھ آخری وقت تک دیتا رہے گا جب تک دمشق اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔

آخری وقت

کیا بشار الاسد کا آخری وقت قریب آ چکا ہے؟ شکست کے حتمی لمحے کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ بہت سی علاقائی اور بین الاقوامی فوجیں وہاں موجود ہیں۔ لیکن اتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بشار اس جنگ کا فاتح نہیں ہوگا خواہ ایرانی اور روسی فوجیں اس کی مدد اور اقتدار کو طول دینے میں کتنی بھی کامیاب ہو جائیں۔ جہاں تک شام کے معاملات پر ایران اور روس کا اتفاق ہے، یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ بشار کو نکالنے اور ایران میں سیاسی پناہ دینے کے آسان حل کو عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔ اگر ایران اور روس شام پر مختلف موقف اختیار کرتے ہیں تو اسدحکومت کی صورتحال اور زیادہ خراب ہو جائے گی کیونکہ دونوں ملکوں کی زمینی او فضائی فوجیں وہاں اس کی مدد کے لئے لڑ رہی ہیں۔

ایران اور روس کا نقطہ نظر شام کے معاملات پر مختلف ہے مگر اس پر قطعیت سے کچھ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ترکی کے روسی طیارہ گرانے کے واقعہ نے تہران اور ماسکو کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب کر دیا ہے۔ ویانا میں شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ہونے والے والے مذاکرات میں ایران اور روس میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ روسی صدر پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ بشار کے اقتدار میں رہنے سے زیادہ اہم شامی ریاستی اداروں کی بقا ہے۔ یہ موقف ایرانی پالیسی سے بہت دور ہے جس کا اصرار بشار الاسد کے اقتدار کو بنیادی اہمیت اور قانونی حیثیت دینے پر ہے۔ ولایتی نے المیادین کو انٹرویو اسی موقف پر اصرار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘بشار الاسد اپنی مدت کے خاتمے تک صدر رہیں گے اور انہیں نئے الیکشن میں بھی لازمی حصہ لینا چاہئے۔ ایران کو یقین ہے کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے۔’

ایران کی پالیسی یہ ہے کہ بشار الاسدکے اقتدار کو باقی رکھا جائے خواہ اس کے لئے اسلحہ کی طاقت استعمال کرنی پڑے یا انتخابی نتائج بدلنے پڑیں۔ اگر روس کا جھکأو ایسے سیاسی حل کی جانب ہو گیا جس میں بشار الاسد کو نکالنے یا عراقی صدر کی طرز پر نمائشی عہدہ بنانے پر اصرار ہو، تو ان دونوں اتحادیوں میں نیا تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔

بشکریہ:العربیہ ڈاٹ نیٹ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے