ڈھیٹ جرثوموں کو ختم کرنے والے نئی اینٹی بایوٹکس میں پیش رفت

پینسلوانیا: ہم جانتے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے بیکٹیریا ہماری اینٹی بایوٹکس کو ناکارہ بنارہے ہیں اور یوں کئی امراض کے خلاف ہمارے اینٹی بایوٹکس ہتھیار ناکارہ ثابت ہورہے ہیں۔ دوسری جانب ان مریضوں کے اخراجات بڑھ رہے ہیں لیکن اب نئی قسم کی اینٹی بایوٹکس دوا سے کئی طرح کے بیکٹیریا سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔

جامعہ پینسلوانیہ میں واقع وسٹار انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے بالکل نئے اقسام کے مرکبات تیار کیے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے بہت سے ایسے بیکٹیریا کو ہلاک کیا جاسکتا ہے جو اچھی اینٹی بایوٹکس کو بھی ناکام بناچکے ہیں۔ واضح رہے کہ طب کی یہ کیفیت اینٹی مائیکروبیئل ریزسسٹنس(اے ایم آر) کہلاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ 2050ء تک اینٹی بایوٹکس کے بے اثر ہونے اور موجودہ بیکٹیریا کے مضبوط ہونے کی شرح اتنی بلند ہوجائے گی کہ سالانہ ایک کروڑ افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں اور ان ک علاج پر ہر سال 100 ٹریلیئن ڈالر کی رقم خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ ہماری تمام ادویہ ان کے سامنے بے تاثیر ہوتی جارہی ہیں جس سے صحت کا عالمی بحران پیدا ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے صحت کے دس بڑے بحرانوں میں شامل کیا گیا ہے۔

اپنی نئی اینٹی بایوٹکس کے بارے میں ڈاکٹر فاروق دوتی والا نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم نے ’ڈویل ایکٹنگ امیونو اینٹی بایوٹکس‘ یا ڈاے آئی اے تیار کی ہے جو روایتی اینٹی بایوٹکس کی طرح بیکٹیریا کے افعال، نیوکلیائی ایسڈ اور پروٹین سازی اور اس کے راستے کو روکتی ہیں لیکن ساتھ ہی جسم کے قدرتی امنیاتی (دفاعی) نظام کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ اس طرح بیکٹیریا پر دو طرف سے حملہ ہوتا ہے۔

اس کے لیے پہلے میٹابولک پاتھ ویز کو سمجھا گیا اور ان کو ہدف بنایا گیا۔ اس کے لیے کئی کروڑ کمپیوٹر سیمولیشن سے مدد لی گئی اور بہترین مرکبات کا انتخاب کیا گیا اوراس بنیاد پر دوائیں بنائی گئیں جو آئی ایس پی ایچ انہبیٹر پرعمل کرتی ہیں اور ان سے بیکٹیریا کو تلف کرنے میں کامیابی ملی۔

اب اس ٹیکنالوجی کے تحت نئی ادویہ پر مزید تحقیق کی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے