واٹس ایپ کے لیے خطرے کی گھنٹی؟ ایک دن میں ایک کروڑ 13 لاکھ ڈاؤن لوڈور کم ہو گئے ۔

واٹس ایپ کی نئی پالیسی: سگنل اور ٹیلی گرام کے ڈاؤن لوڈز میں تیزی سے اضافہ، واٹس ایپ کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

واٹس ایپ پر ذاتی معلومات شیئر کرنے سے متعلق قواعد و ضوابط کی تبدیلی پر بننے والے تنازع کے بعد سے سگنل اور ٹیلی گرام نامی پیغام رساں ایپس کو دنیا بھر سے کثیر تعداد میں افراد نے ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔

واٹس ایپ نے اپنے دو ارب سے زیادہ صارفین سے کچھ روز قبل فیس بک سے مواد شیئر کرنے سے متعلق اجازت مانگی تھی اور یہ شرط رکھی تھی کہ اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں یہ صارفین آٹھ فروری کے بعد سے واٹس ایپ استعمال نہیں کر سکیں گے۔

یہ قواعد و ضوابط برطانیہ اور یورپ میں تو لاگو نہیں ہوں گے، البتہ یہ نوٹیفیکیشن تمام صارفین کو بھیجا گیا ہے۔

واٹس ایپ کی جانب سے سامنے آنے والی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ اس اپ ڈیٹ کے باعث صارفین کو شاپنگ اور ادائیگیوں جیسے فیچر میسر ہوں گے۔

سینسر ٹاور سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق واٹس ایپ کی جانب سے قواعد میں تبدیلی کے اعلان سے قبل ایک ہفتے میں سگنل کو دنیا بھر میں دو لاکھ 46 ہزار صارفین نے ڈاؤن لوڈ کیا، جبکہ ان قواعد کے اعلان کے بعد والے ہفتے میں اب تک 88 لاکھ افراد اسے ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ کرنے والے صارفین میں سے اکثر کا تعلق انڈیا سے ہےجہاں 12 ہزار سے 27 لاکھ ڈاؤن لوڈز، برطانیہ میں 7400 سے ایک لاکھ 91 ہزار ڈاؤن لوڈز اور امریکہ میں 63 ہزار سے 11 لاکھ مرتبہ یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کی گئی۔

سگنل کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹویٹس کے ایک تسلسل میں یہ کہا گیا ہے کہ کچھ افراد کی جانب سے گروپس بنانے سے متعلق شکایات موصول ہوئی تھیں اور تصدیق کے لیے بھیجے گئے کوڈز موصول ہونے میں تاخیر کی بھی شکایات سامنے آئیں کیونکہ کثیر تعداد میں لوگ ایپ ڈاؤن لوڈ کر ررہے ہیں تاہم ہم ان مسائل کو حل کر رہ ےہیں اور ہمارے نئے سرورز آپ کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔

ٹیسلا کے شریک بانی ایلون مسک کی جانب سے سات جنوری کو سگنل کی تائید میں ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ‘سگنل استعمال کریں۔

[pullquote]ٹیلی گرام کے صارفین میں بھی اضافہ[/pullquote]

ٹیلی گرام کو سگنل سے بھی زیادہ مقبولیت ملی ہے اور دنیا بھر میں اس کے ڈاؤن لوڈز میں میں 28 دسمبر کو شروع ہونے والے ہفتے میں 65 لاکھ سے اس سے اگلے ہفتے میں ایک کروڑ دس لاکھ تک ڈاؤن لوڈز کیے گئے ہیں۔ صرف برطانیہ میں ہی دو ہفتوں کے دوران ڈاؤن لوڈ کی تعداد 47 ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ ایک ہزار تک جا پہنچی۔

اس دوران واٹس ایپ کے عالمی طور پر ڈاؤن لوڈز ایک کروڑ 13 لاکھ سے کم ہو کر 92 لاکھ پر آ گئے ہیں۔

[pullquote]کیا یہ واٹس کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے؟[/pullquote]

اس کے باوجود اس صنعت پر نظر رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ یہ واٹس ایپ کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ واٹس ایپ کو اس کے لانچ کے بعد سے پانچ اعشاریہ چھ ارب مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکاہے۔

سینسر ٹاور میں موبائل انسائٹس کے ماہر کریگ چیپل کا کہنا تھا کہ ‘حریفوں کے لیے صارفین کی عادات تبدیل کرنا مشکل ہو گا اور واٹس ایپ دنیا کا سب سے مقبول اور استعمال کیا جانے والے پلیٹ فارم بنا رہے گا۔’

‘یہ دلچسپ ہو گا کہ کیا یہ ٹرینڈ اس طرح برقرار رہتا ہے یا پھر صارفین واپس پرانی عادات پر آجاتے ہیں۔’

واٹس ایپ نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ وہ جو مواد فیس بک کے ساتھ شیئر کریں گے اس میں پیغامات، گروپس اور کال لاگز شامل نہیں ہوں گے۔

[pullquote]نئی حفاظتی پالیسی کیا ہے؟[/pullquote]

نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ اپنے صارفین کو مجبور کر رہا ہے کہ اگر وہ مستقبل میں ایپ کا استعمال جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انھیص نئی حفاظتی پالیسوں کو قبول کرنا ہو گا۔

اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا جائے گا۔

واٹس ایپ اب آپ کے بارے میں جمع کردہ معلومات کو فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر کمپنیوں سے شیئر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس ڈیٹا میں صارف کا فون نمبر جس پر واٹس ایپ رجسٹر کیا گیا ہے شامل ہونے کے علاوہ آئی پی ایڈریس ( انٹرنیٹ کنیکشن استعمال کرنے کا مقام) موبائل فون یا لیپ ٹاپ سے متعلق معلومات، بشمول اس کا ماڈل اور کمپنی، واٹس ایپ ایپلیکیشن کب اور کتنے وقت کے لیے استعمال کی گئی، سٹیٹس، گروپس، رقم کی ادائیگیاں یا کاروباری خصوصیات، پروفائل فوٹو سمیت چند تکنیکی چیزیں بھی شامل ہیں۔

[pullquote]ان تبدیلیوں سے کیا فرق پڑے گا؟[/pullquote]

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صارفین سے متعلق یہ تمام معلومات واٹس ایپ پہلی مرتبہ کسی دوسری کمپنی کے ساتھ شیئر کرے گا؟

سنہ 2014 میں فیس بک نے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خرید لیا تھا۔ جس کے بعد ستمبر 2016 سے واٹس ایپ اپنا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ تاہم اس سال واٹس ایپ کی جانب سے باقاعدہ طور اپنی حفاظتی پالیسی میں چند تبدیلوں کے ساتھ اس بات کو واضح طور پر لکھا گیا ہے۔

فیس بک پر واٹس ایپ کے سربراہ کیتھ کارٹ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں نئی پالیسوں سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے کہا ‘ہم نے اپنی پالیسی کو شفاف بنانے اور لوگوں کے لیے بزنس خصوصیات کی بہتر وضاحت کے لیے اسے اپ ڈیٹ کیا ہے۔ جبکہ ہم نے اکتوبر 2020 میں نئی پالیسی کے بارے میں لکھا تھا۔ اس میں واٹس ایپ پر تجارت اور لوگوں میں کاروبار کا پیغام دینے کی صلاحیت شامل ہے۔ ہمارے لیے واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے کہ یہ اپ ڈیٹ کاروباری مواصلات کی وضاحت کرتی ہے اور فیس بک کے ساتھ واٹس ایپ کے ڈیٹا شیئرنگ کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کرتی ہے۔ اس سے ہمارے عام صارفین پر اثر نہیں پڑتا ہے۔ صارفین دوستوں اور گھر والوں سے نجی طور پر بات چیت کر سکتے ہیں۔‘

اس بارے میں ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر نگہت داد سمجھتی ہیں کہ نئی پالیسی ان صارفین کو متاثر کر سکتی ہے جو واٹس ایپ کے علاوہ کسی اور سوشل ایپلیکیشن جیسے فیس بک اور انسٹاگرام کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ان کا میٹا ڈیٹا بھی ان کمپنیوں کے پاس چلا جائے گا جو اب تک صرف واٹس ایپ کے پاس تھا۔ ‘ہاں اگر آپ دیگر سوشل پلیٹ فارمز پر بھی موجود ہیں تو ان صارفین کے لیے پریشانی کی بات نہیں ہے۔

[pullquote]کیا اب فیس بک یا دیگر کمپنیاں میرا واٹس ایپ پیغام پڑھ سکتی ہیں؟[/pullquote]

نہیں۔ واٹس ایپ پر آپ کی گفتگو کو ایک دوسرے کے درمیان درمیان خفیہ بنایا گیا ہے، یعنی واٹس ایپ آپ کے سبھی چیٹ تھریڈز سمیت آڈیو/ ویڈیو کالز، تصاویر، ویڈیوز اور چیٹ میں بھیجے جانے والا تمام مواد مکمل طور پر محفوظ ہیں اور صرف ان لوگوں کے لیے دستیاب ہیں جن سے آپ گفتگو کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق واٹس ایپ کی نئی پالیسی آپ کے عام ڈیٹا کو فیس بک کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ شیئر کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ آپ کے ڈیٹا اور اس کے پلیٹ فارم کے ساتھ آپ کی مصروفیت، خریداری اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے ہے۔

[pullquote]واٹس ایپ نے پالیسی میں تبدیلی کیوں کی ہے؟[/pullquote]

سنہ 2020 میں مارک زکر برگ کی جانب سے پہلے ہی اس بات کا اعلان کیا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ فیس بک اور اس سے الحاق شدہ دیگر تمام سوشل ایپلیکیشنز ایک دوسرے میں ضم ہوں۔ جسے انسٹاگرام اور فیس بک مسینجر۔

نگہت داد کے مطابق جب سنہ 2014 میں فیس بک نے واٹس ایپ کو خریدا تھا تو ان کی جانب سے یہی کہا گیا تھا کہ وہ رازداری سے متعلق اپنی پالسیوں کو تبدیل نہیں کریں گے۔ لیکن سنہ 2016 میں واٹس ایپ نے صارفین کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی معلومات دوسری کمپنیوں کو استعمال کرنے کہ اجازت دیں یا نہ دیں۔

لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سنہ 2014 میں یہی خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ فیس بک کا پلیٹ فارم ایک بزنس ماڈل ہے جو اشتہارات پر چلتا ہے تو کس طرح واٹس ایپ کو اس ماڈل سے دور رکھ سکیں گے۔

تاہم یہاں چند ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی کا مقصد یہ ہے کہ اب کمپنی چاہتی ہے کہ وہ واٹس ایپ کی مدد سے صارفین کے کاروبار اور خریداری کے حوالے سے دلچسپی کا اندازہ لگا کر فیس بک اور انسٹاگرام پر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹارگٹٹ اشتہار دے سکیں۔

[pullquote]واٹس ایپ کی متبادل ایپلیکیشنز کا استعمال بڑھ گیا[/pullquote]

نئی حفاظتی پالیسی سے متعلق واٹس ایپ صارفين میں پائی جانے والی تشویش کے باعث صارفین کی بڑی تعداد واٹس ایپ جیسی خصوصیات والی دیگر ایپ کی تلاش میں ہیں۔ واٹس ایپ صارفین کی بڑی تعداد نے سگنل اور ٹیلی گرام جیسی ایپ کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

7 جنوری 2021 کو سگنل ایپ کی جانب سے نئے رجسٹر کرنے والی صارفین کے لیے ٹوئیٹر پر یہ پیغام جاری کیا گیا کہ ‘وئیری فیکیشن کوڈز فی الحال متعدد صارفین تک پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہیں کیونکہ ابھی بہت سارے نئے لوگ سگنل کو رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم جلد سے جلد اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیریئرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں’

اسی طرح بہت سے واٹس ایپ صارفین جو واٹس ایپ کا ستعمال ترک کر کے دوسری ایپلیکیشنز کی طرف جانا چاہتے ہیں، ان کی جانب سے یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ کون سی ایپ استعمال کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس تقابلی جائزے کے بعد ہی زیادہ تر صارفین سگنل یا ٹیلی گرام پر منتقل ہو رہے ہیں۔

[pullquote]کیا واٹس ایپ کی نئی پالیسی دنیا بھر کے صارفین پر لاگو ہوگی؟[/pullquote]

نہیں۔ یورپ، برازيل اور امریکہ میں ان نئی پالیسوں کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ وہاں موجود رازداری کے حوالے سے موجود سخت قوانین ہیں۔ جن کی پاسداری کرنے کے لیے واٹس ایپ پابند ہے۔

اس نئی پالیسی سے متعلق پاکستان کی جانب سے آنے والے ردعمل پر وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر لکھا کہ ‘واٹس ایپ کی جانب سے صارفین کے حساس ڈیٹا شئیرنگ پالیسی کے بعد ہم ایک مضبوط ڈیٹا پروٹیکشن قانون بنانے پر غور کر رہے ہیں جس کے تحت ہمارے شہریوں کی پرائیویسی کو یقینی بنایا جا سکے گا’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے