امی جی کی زندگی آسان نہیں تھی – امی صرف دو سال کی تھیں جب ان کی امی یعنی میری نانی اماں انتقال کر گئیں ۔ کوئی بہن بھائی نہیں تھا ۔ والد سارا دن کام پر ہوتے ۔ کبھی کئی کئی دن سفر میں رہتے ۔ گو کہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا ۔ خیال رکھنے والے بہت تھے۔ لیکن بن ماں کے ایک بیٹی کن مشکل مراحل سے گزرتی ہے یہ شاید ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ زندگی کے اس سفر میں جب میرے والد ہمسفر ہوئے۔ تو زندگی میں کچھ آسانی پیدا ہوئی ۔ اللہ تعالی نے اولاد کی نعمت سے نوازا – مرحوم والد صاحب نے امی کی ہر خواہش کو ممکنہ حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ زندگی میں ہر سہولت مہیا کی ۔ 2011 میں وہ بھی دار فانی سے انتقال کر گئے ۔ امی اکیلی رہ گئیں۔ اگرچہ بیٹے بیٹیاں تھیں – بہوویں تھیں -گھر میں پوتے پوتیاں تھیں ۔ ہر آسائش مہیا تھی ۔ لیکن ظاہر ہے زندگی کا ہمسفر چلا جائے تو دنیا ویران ہو جاتی ہے ۔ آخری 10 سالوں میں امی جی کو بہت سی بیماریوں نے گھیر رکھا تھا ۔ ہیپاٹائٹس سی نے دو مرتبہ حملہ کیا – لیکن امی کو ہرا نہ سکا۔
ہیپاٹائٹس کے انجکشن اور پھر کیپسول لینا نہایت ہی تکلیف دہ علاج تھا۔ لیکن امی جی کی will power اچھی تھی ۔ انہوں نے اس بیماری کو مات دی- امی کو 22 سال شوگر رہا – 300 پوائنٹ پر شوگر میں بھی امی جی نارمل ہی محسوس کرتی تھیں۔ لیکن شوگر کے اندرونی اثرات نے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنا کام دکھانا شروع کر لیا تھا۔ جسم میں درد ، جوڑوں کا درد ، پاؤں کی تکلیف سمیت دیگر پیچیدگیاں پیدا ہونے لگی تھیں۔
اکتوبر 2020 میں امی جی کے پاؤں کی ایک انگلی متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ انگلی تک خون کی سپلائی متاثر ہے ۔ درد کی شدت کا یہ عالم تھا کہ میں نے ایک ماہ تک امی کو بستر پر لیٹا ہوا نہیں دیکھا –وہ چوبیس گھنٹے بیٹھ کر گزارتیں۔ درد کی وجہ سے کھانا اور سونا رہ گیا تھا۔ بالآخر سرجن کے مشورے سے 11 نومبر کو انگلی کو کاٹ دیا گیا۔ جس کے بعد درد ختم ہو گیا۔ اب ہم نے زخم کا علاج کرنا شروع کر دیا۔
یہ علاج چل ہی رہا تھا کہ 2 دسمبر کو امی جی کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہ 3 دن ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد گھر واپس آئیں ۔میں نے ڈسچارج ہوتے وقت ڈاکٹر سے پوچھا کہ امی کو دل کے علاج کی کوئی اور ضرورت ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ اور کہا کہ دل کے سارے فنکشن درست کام کر رہے ہیں ۔ اس علاج نے امی پر بہتر اثر ڈالا۔ وہ 2 ماہ سے وہیل چئیر پر تھیں۔ لیکن اس ٹریٹمنٹ کے بعد انہوں نے تھوڑا تھوڑا چلنا شروع کر دیا۔ 20 دسمبر کو امی جی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں ۔ میں اس تمام عرصے میں امی جی کے ساتھ ساتھ رہا۔ ان کی ہر ہر کیفیت کو محسوس کرتا – ہسپتال سے آنے کے بعد سے لے کر ان کی وفات تک چند ایسی باتیں ہوئیں ۔ جن کو میں موت کی میٹا فزکس یا موت کا روحانی سفر کہتا ہوں۔ شاید یہ کیفیات ہر ایک پر گزرتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ 15 دنوں کی کیفیات کے تسلسل میں کوئی بات پہلے یا بعد ہوئی ہے لیکن یہ آگے آنے والی روداد ان 15 دنوں کی ہے
دو مہمان اور گھوڑا
میں ٹی وہ لاؤنج میں بیٹھا تھا – امی جی سامنے ہی کمرے میں تھیں۔ میں نے دیکھا کہ امی نے دایاں بازو سامنے ہوا میں اٹھایا ہوا ہے اور وہ ہاتھ سے کسی کو چھونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ میں نے کچھ وقت امی کا مشاہدہ کیا اور پھر ان کے پیچھے بیٹھ گیا۔ امی چونک گئیں اور مجھے کہنے لگیں کہ یہ 2 مہمان آئے ہیں ۔ ان کے گھوڑے کو گھاس ڈال دو۔ میں نے کہا کہ امی مجھے کوئی گھوڑا نظر نہیں آ رہا۔ امی نے کہا کہ وہ سامنے دیکھو-دروازے کے ساتھ باندھا ہے
شادی کی شاپنگ
جنوری کے مہینے میں میرے چھوٹے بھائی جواد کی شادی متوقع تھی۔ چونکہ جواد آخری غیر شادی شدہ بیٹا تھا اس لئے امی جی کو اس کی بہت فکر تھی ۔ اس مہینے میں بار بار وہ جواد کی شادی کا تزکرہ ہی کرتی رہیں – کہ میری آنکھوں کے سامنے اس کی ذمہ داری پوری کر لو ۔ امی جی نے مجھے اور میری وائف سے کہا کہ جواد کی شادی کی شاپنگ جلدی مکمل کریں۔ ہم نے 3 دن میں شادی کی ساری شاپنگ کر ڈالی- امی جی نے شادی کی شاپنگ زوق و شوق سے دیکھی – یہ ان کے آخری آخری رسپانسز تھے – جیسا کہ انہیں کچھ اطمینان آ گیا ہو ۔ اس دن کے بعد امی جی کا بولنا کم ہو گیا – امی نے زیادہ رسپانس دینا بھی چھوڑ دیا۔ یہ کیفیت آخری 6 دن رہی-
سرجن سے گفتگو
وفات سے ایک ہفتہ پہلے جب انگلی کی پٹی کرانے ہم ڈاکٹر کے پاس گئے تو امی نے کہا کہ آپ نے جو کوشش کرنی تھی وہ کر لی۔ اب اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ بس زخم کو اور نہیں کھرچنا ۔ پٹی کر لیں بس۔ ڈاکٹر نے بھی امی کی بات مان لی – اور زخم کو نہیں چھیڑا۔ راستے نے بھی امی نے کہا کہ بس اور پیسے خرچ نہیں کرو- اللہ پر توکل کرو۔ جو دوائیاں ڈاکٹر نے دے رکھی ہیں ۔ میں انہیں ہی استعمال کروں گی ۔لیکن اب ڈاکٹر کے پاس نہیں آنا۔
مانسہرہ روانگی
اسلام آباد میں امی کی فزیو تھراپی بھی چل رہی تھی ۔ 18 دسمبر کو امی نے کہا کہ بچے مجھے مانسہرہ لے جاؤ۔ گو کہ اس سے پہلے جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ امی فزیو کی وجہ سے آپ کی صحت پر کافی فرق پڑا ہے ۔ ہم کچھ دن بعد چلے جائیں گے ۔ امی خاموش ہو گئیں ۔ کچھ دیر بعد میری وائف کمرے میں آئیں اور کہنے لگیں کہ امی جانا چاہتی ہیں ۔ وائف نے کہا کہ امی کا کہنا ہے کہ میں اپنے کفن کا انتطام کر کے واپس آ جاؤں گی۔ میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے میں امی کو لے جاتا ہوں۔ میری وائف نے امی سے پوچھا کہ آپ کے کپڑے ، جوتے بیگ میں ڈال دیے ہیں تو کہنے لگیں کہ ادھر ہی ہوتے اب شاید کوئی اور پہن لے گا۔
سفر میں امی کی عادت تھی کہ وہ گاڑی رکوایا کرتیں اور کچھ نہ کچھ شاپنگ کرتی رہتیں۔ آخری سفر میں ، میں نے کئی جگہ گاڑی روکی اور امی سے کہا کہ کچھ کھاتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے منع کیا اور یہی کہتی رہیں کہ ” بچے مجھے گھر لے جاؤ بس”۔
ہمارے ساتھ خالہ بھی سفر میں تھیں ۔ میں نے امی کو گھر ڈراپ کیا اور پھر خالہ کو ڈراپ کرنے جانے لگا تو خالہ نے کہا کہ ”امجد ، بے جی ٹھیک نہیں ہیں ۔ اور پھر رونے لگیں”۔ میں نے کہا کہ خالہ آپ ویسے ہی وہم کرتی ہیں ۔ امی تھکی ہوئی ہیں ۔ ٹھیک ہو جائیں گی” لیکن وہ روتی رہیں ۔
کفن کا انتظام
ہمارے محلے میں امی جی کی ایک دوست ہیں ۔ چند دن پہلے امی نے ان کو فون کر کے کہا – کہ گھر میں میرا کفن والا باکس پڑا ہے – اس میں سے کفن نکال کر سلائی کر لینا ۔ 19 دسمبر کو ہم گھر پہنچے تو امی نے چھوٹی بھابی کو کہا ۔ کہ کفن والا باکس چیک کر لینا۔ ساتھ میں ایک کمبل کی طرف نشاندہی کی کہ جب گھر میں کوئی میت ہو جائے تو میت پر یہ والا کمبل ڈالنا۔ بھائی کو ہدایت کی کہ میرے اکاؤنٹ سے کچھ پیسے نکال کر لے آؤ۔ تاکہ ایمرجنسی میں افرا تفری نہ ہو۔ یہ ساری باتیں ہم سن اور کر رہے تھے –لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ امی ایسا کیوں کہہ رہی ہیں ۔
گھر کے گملے
امی کی زندگی میں اپنی اولاد کے علاوہ جو چیزیں اہم تھیں ۔ وہ گھر کی صفائی اور پودے تھے۔ بابو جی اور امی دونوں کو ہی پودوں کو بہت شوق تھا۔ نرسری پر جاتے ۔ تو کئی گملے خرید کر لیتے ۔ یہ سارے پودے اور درخت امی کے لئے matter of concern ہوتے ۔ ہم امی سے کہتے رہتے کہ آپ پودوں کی فکر چھوڑیں اپنی فکر کیا کریں ۔ لیکن پودوں اور پھولوں کا خیال زندگی کے آخر تک ان کے ساتھ جڑا رہا۔
امی صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھیں ۔ مجھے کہنے لگیں کہ دیکھو لڑکیوں نے صفائی کر کے کوڑے کے شاپر گیٹ کی سائیڈ پر رکھ دیے ہیں ۔ کل مہمان آئیں گے تو کیا سوچیں گے ۔ میں نے جواب دیا کہ امی اٹھا لیں گے ۔ آپ صرف اپنی فکر کیا کریں ۔ کل کس نے ہمارے گھر آنا ہے ۔ تو کہنے لگیں ۔ کہ مہمان آئیں گے تو ہنسیں گے تم لوگوں پر کہ کوڑا اکٹھا کر کے گیٹ کے پاس رکھا ہوا ہے ۔
انتقال کی رات ہم سب امی کے پاس بیٹھے تھے ۔ کہ میری بھتیجی کمرے میں آئی اور امی سے کہنے لگی کہ دادو ، چاچو کی مرغیوں نے آپ کے سارے پودے کھا لئے ہیں ۔ بھائی نے کہا کہ امی جی مارچ میں بہار ہو گی تو میں آپ کو نئے پودے لا کر دوں گا ۔ امی نے جواب دیا کہ ”اب پودے جانیں اور پودوں والے جانیں، تب تک کون جیے اور کون مرے ”۔ اسی دن گھر آئے ہوئے خالو کو کہنے لگیں کہ میں نے بہت سے بیماریاں کاٹی ہیں ۔ لیکن پاؤں کی یہ بیماری میرے لیے آخری بیماری ہے ۔
آخری گھنٹہ
20 دسمبر کو حسب عادت میں فجر کی نماز سے پہلے امی کے پاس آ کر بیٹھا ۔ بھابی نے بتایا کہ امی 5 بجے اٹھی ہیں اور انہوں نے مجھ سے قہوہ مانگا ہے ۔ اور بار بار یہی کہہ رہی ہیں کہ میرا منہ خشک ہو رہا ہے ۔ امی نے اس سے ایک دن پہلے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا ۔ امی نے کہا کہ میرے معدے میں درد ہے ۔ گھٹن ہو رہی ہے ۔ مجھے کہیں لے جاؤ۔ میں نے بھابی سے کہا کہ میں جلدی سے نماز پڑھتا ہوں ۔ آپ امی کو تیار کرو ۔ ہم ہسپتال جاتے ہیں۔ میں نے بھائی کو فون کیا ۔ جلدی سے نماز پڑھی اور امی کو ہسپتال لے جانے لگے – امی نے بھابی سے کہا کہ ”بس ! کمرے سے میرا سارا سامان اٹھا کر کمرہ صاف کر دو”۔
ہسپتال کوئی دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔ امی کو الٹیاں نہیں ہوئیں ۔ وہ کوشش کر رہی تھیں کہ الٹی ہو جائے ۔ پھر راستے میں ہی وہ سیٹ کے ساتھ لگ کر خاموش بیٹھ گئیں ۔ ہسپتال پہنچ کر امی گاڑی سے اتریں اور ویل چئیر پر بیٹھ گئیں۔ عمومی حالات میں پاؤں کے زخم کی وجہ سے ہم امی کو اٹھا کر بٹھاتے تھے۔ میں نے امی کے پاؤں اٹھا کر Foot Rest پر رکھے – ایمرجنسی ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو اس نے جملہ بولا کہ یہ تو Collapse کر رہی ہیں ۔ اور صرف 2 منٹ بعد امی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خلاصہ
میں نے یہ چند مشاہدات لکھے ۔ یہ مشاہدات نشاندہی کرتے ہیں ۔ کہ اس دنیا سے جانے والے کو اگلی دنیا میں انتقال کی خبر کسی نہ کسی طرح پہنچا دی جاتی ہے ۔ اور وہ پھر اسی کے مطابق گفتگو کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا خیال آئے کہ چونکہ وہ بیمار تھیں ۔ اس لئے انہوں نے زندگی کے آخری ماہ میں ایسی گفتگو کی۔ لیکن ایسا نہیں ہے – جیسا کہ میں نے بتایا کی امی اس سے پہلے اس سے کہیں زیادہ بیمار ہوتی رہیں ۔ لیکن کبھی اس طرح کی گفتگو نہیں کی۔
گھڑ سواروں کا آنا ، کفن کی تیاری، پیسوں کا نکلوانا، پودوں پر بات چیت اور پھر آخری الفاظ کے اب میرا کمرہ صاف کر دو اور میرا سامان اٹھا لو۔ اور اس کے علاوہ کئی ایسے اشارے دیے ۔ جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ کہ کوئی اگلی دنیا ہے جس کی امی نے تیاری شروع کر دی تھی ۔ اور شاید ہمیں بھی بتایا لیکن ہم اپنی ناسمجھی سے یہ سب سمجھ نہ سکے ۔ موت ہی زندگی کی حقیقت ہے اور اس کے بعدایک نامعلوم سفر ہے ۔