داعش کیا ہے اور کیسے وجود میں آئی؟

داعش نہ امریکا کی ایجنٹ نہ اسرائیل کی،وہ ایک متشدد اور انتہا پسند ’’سلفی‘‘ تنظیم ہے

داعش کیا ہے؟یہ تنظیم کیسے وجود میں آئی؟کب اور کہاںاس کی تشکیل ہوئی؟ عراق کے ایک بڑے حصہ پر اور شام کے متعدد علاقوں پر یہ کیسے قابض ہو گئی؟یہ علماء، دانشوران،اخبار کے اڈیٹر صاحبان،کالم نگار ،مضمون نویس اور رپورٹرز، سب کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے،جتنے منہ اتنی باتیں،جتنے قلم اتنی نگار شات۔

کہا گیا -کہ وہ ایران کے ایجنٹ ہیں،ایران پر حملہ نہیں کرتے-کہا گیا کہ بشار نے ان کو جہادی تنظیموں سے ٹکرانے کے لئے تیار کیا ہے-کہا گیا کہ وہ بعث پارٹی کا دینی چہرہ ہیں-کہا گیا کہ وہ اسرا ئیل کی خفیہ سروسز کے پر وردہ ہیں،ان کے زخمیوں کا علاج اسرا ئیلی ہسپتالوں میں ہو تا ہے-کہا گیا کہ امریکہ نے ان کو جنم دیا ہے-امریکا کا یہی کام ہے کہ جن بچوں کووہ جنم دیتا ہے، انہیں پھر کھالیتا ہے-کہا گیا کہ سعودی حکومت نے اسے ایران کے خلاف کھڑا کیا تھا، لیکن وہ اس کے گلے کی ہڈی بن گئے،اور نہ معلوم کیا کیا کہا گیا-سچ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اندھیر ے میں تیر چلانے کے مرادف ہیں،یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو عالمی حالات عالمی ایجنسیوں کی خبروں کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں،اور پھر ان سے اپنے ’’مجتہدانہ افکار‘‘کے لئے قیاس واستنباط کے تکے لگاتے ہیں،یا گھوڑے دوڑاتے ہیں، تعجب تو اس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے جب اسلامی تنظیموں اور اسلامی اداروں سے وابستہ افراد اسی طرح کی سنی سنائی ،یا کسی جھوٹی سچی خبر سے اپنے استنتاج کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں،فتوی صادر فرماتے ہیں،اور ریت کے تو دہ پراپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں، انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ عالمی نظام کس واقعہ کے ذریعہ ان کا کس مقصد کی خاطر شکار کر رہا ہے،یا اس کے ریموٹ کنٹرول سسٹم سے وہ کس طرح حرکت میں آتے ہیں،ردعمل ظاہر کرتے ہیں، بیانات دیتے ہیں، صفائی پیش کرتے ہیں۔

آج کی مجلس میں میں چاہتا ہوں کہ حقائق دودو چار کرکے پیش کر دوں۔

داعش-الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کا مخفف ہے،۲۰۱۳ ؁ء سے یہ نام متعارف ہوا،جب ’’القاعدہ‘‘تنظیم کی عراقی شاخ نے اس کا اعلان کیا ،جس نے ۲۰۰۶؁ء سے الدولۃ الاسلامیہ فی العراق، ’’عراق کی اسلامی حکومت‘‘کا نام اختیار کر رکھا تھا،عالم عربی میں ۲۰۱۱ ؁ء سے جو انقلاب تونس سے شروع ہوا،مصر میں داخل ہوا،پھر لیبیا میں اس کی آگ لگی،پھر یمن میں اس کے شعلے بھڑکے ،پھر شام میں اس کاشو ر مچا،اور حکومت کے خلاف انقلابی عناصر میدان میں آگئے،توعراقی تنظیم کے امیر ابوبکر البغدادی (۱) نے ابو محمد الجولانی(۲) کو شام میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا،جنوں نے ’’جبھۃ النصرۃ‘‘کے نام سے جہادی تنظیم قائم کرکے کارروائیاں شروع کیں، لیکن شام میں ان کی وابستگی عراقی تنظیم سے کٹ کر اصل مرکزی تنظیم القاعدہ کے ساتھ قائم ہوگئی،تو عراقی تنظیم نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا،اور مرکزی تنظیم کے دائرہ کو شام تک وسیع کر دیا اور ۲۰۱۳ ء؁میں ’’عراق وشام کی اسلامی حکومت ‘‘کا اعلان کر دیا،ابو محمد الجولانی اپنی شامی تنظیم ’’جبھۃ النصرۃ‘‘کی قیادت کرتے رہے،اور القاعدہ کے امیر ایمن الظواھری کی ما تحتی میں کام کرتے رہے ،اور شام کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کران کی کاروائیاں چلتی رہیں اور جو بدستور جاری ہیں، عراقی تنظیم نے اپنے دائرہ کار میں شام کو شامل کرتے ہوئے،جبھۃ النصرۃ اور دیگر ان تمام تنظیموں کے خلاف کار روائیاں شروع کر دیں،جن کا تعلق سعودی عرب،ترکی ، امارات،یا قطر وغیرہ سے تھا،کیونکہ ان کے نزدیک یہ ساری تنظیمیں ظالم حکمرانوں کی آلۂ کار ہیں۔

عراق میں دعوت وجہاد کی تنظیم سب سے پہلے ابو مصعب الز رقاوی (۳)نے ۲۰۰۱ ء؁ میں قائم کی تھی،پہلی خلیجی جنگ کے بعد اسامہ بن لادن کی ہدایت پر تنظیم کا آغاز کیا گیا تھا، ۲۰۰۳؁ء سے اس تنظیم نے امریکہ کے خلاف جنگ میں بھر پور حصہ لیا، ۲۰۰۶؁ء میں زرقاوی شہید کر دیئے گئے،تو ابوعمر بغدادی (۴) کو امارت سونپی گئی،ان کی شہادت ۲۰۱۰ء؁ میں ہوگئی،تو ابوبکر بغدادی امیر منتخب ہوئے،ابوبکر بغدادی اصلاً ’’سامرا‘‘کے ہیں،ان کی تعلیم سامراء میں ہوئی،اور انہوں نے علوم شرعیہ میںڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،صدام کی شکست اور پھر ان کے قتل کے بعد ،بعث پارٹی کا ایک گروپ- جس کا تعلق نقشبندی تحریک سے تھا، اور جس کی قیادت صدام کے نائب عزت الدوری کر رہے تھے-ان کے ساتھ شامل ہو گیا،۲۰۱۱ ؁میں عراق سے امریکی فوجوں کا انخلا ہوا،تویہ جہادی انقلابی گروپ’’نوری مالکی‘‘کی فوج اور نظام کے خلاف نبرد آزما ہوگئے،اور اس وقت سے عراق خانہ جنگی کی بھٹی میں جھلسنے لگا، ۲۰۱۴؁ء میں الدولۃ الاسلامیہ کو ’’موصل‘‘میں زبردست فتوحات حاصل ہوئیں،اورنوری مالکی (۵)حکومت کا خاتمہ ہو گیا،ان کی جگہ ’’حیدرالعبادی‘‘(۶)کا انتخاب ہوا،لیکن عراقی فوج شکست کھاتی گئی،اور ایرانی ملیشیا کی تعداد عراق میں اور پھر شام میں عراقی فوج کی جگہ لیتی گئی ،اب جنگ شیعہ سنی عنوان سے ہونے لگی،اور کیونکہ عراق میں صدام کے بعد امریکہ نے شیعوں کی حکومت قائم کرائی تھی، اس لئے یہ جنگ’’اسلامی حکومت‘‘اور امریکا کے درمیان ہونے لگی ، عراق میں ایران کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے جدہ میں ۲۰۱۴ ؁ء میں جوٹی کانفرنس منعقد ہوئی ،اور امریکا کی قیادت میںچالیس ملکوں ،پھر ساٹھ ملکوں نے فضائی بمباری کی شکل میں ’’اسلامی اسٹیٹ‘‘ کے خلاف جنگ چھیڑ دی ، اسلامی اسٹیٹ نے عراق وشام کے مابین حدود ختم کر دئیے ، اوران کی کارروائیاں عراق سے شام تک بے دریغ ہونے لگیں ، ان کارروائیوں میں دیگر سنی گروپس سے بھی جھڑپیں ہوتی رہیں اور حکومتی افواج اور شیعہ ملیشیا سے بھی۔

شا م میں تقریباً مجاہدین کے۳۰دھڑے حکومت سے بر سر پیکار ہیں ، لیکن ان کو ’’داعش ‘‘ سے بھی لڑنا پڑرہاہے ،جہادی گروپوں کی پیہم کارروائیوں کے نتیجہ میں جب محسوس ہونے لگا کہ اب بشار کے دن گنے چنے ہیں ، اوران کی بعد قیادت ایرانی شیعہ ملیشیاکے ہاتھ آئیگی ، یا سنی مجاہدین کے ہاتھ ، تب امریکا کے اشارہ پر روس نے اپنے مفاد کے لئے جنگ کا مورچہ سنبھال لیا ، اس صورت حال نے امریکی مفادات کو خطرات سے دو چار کر دیا، تو نئے منظرنامہ میں سعودی نظام کی تبدیلیوں ، یمن میں سعودی جنگ ، سیسی کے ساتھ شاہ عبد اللہ کے تعاون پر پوری امت میں بد نامی اور طعن و تشنیع کے طوفان ، مصر کے نام نہاد حاکم سیسی کے بشاراور اسرائیل سے کھلے تعلقات ، ایران کی شرق اوسط میں مسلسل پیش قدمیوں ، اور داعش کی دھمکیوں ، اور سعودی عرب اور کویت میں دھماکوں کی کارروائیوں کی خطرناک صورتحال میں سعودی حکومت نے ترکی سے تعلقات بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ، قطر کے ساتھ رنجشوں کا دفتر بند کیا ،اور قطر ، سعود ی عرب اور ترکی حکومت کا ایک مثلث تیار ہو گیا ، ترکی کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ’’الاخوان المسلمون ‘‘ کا کھلا حامی ہے، وہ مرسی کی برخاست حکومت کو ہی مصر کی اصل حکومت مانتا ہے ، اور سیسی کو غداراور غاصب مانتا ہے ، سعودی حکومت نے شاہ عبداللہ کے دور میں جو مجرمانہ پالیسیاں مرسی کے خلاف ، اور الاخوان المسلون ، حماس وغیرہ کو دہشت گرد قرار دے کر ، اور ان کے پر امن اجتما ع اور احتجاج کو گولیوں کی بوچھار سے ختم کرواکر اورتقریباً دس ہزار افراد کو قتل کرواکر ، اور بیسیوں ہزار جیل میں ڈلوا کر اختیار کر رکھی تھیں، اور جو سیاہ کارنامے انجام دئیے تھے ، اگر شاہ عبداللہ کی موت نہ ہوتی تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بات کہاں تک پہونچتی اور اس کے نتائج کتنے سنگین ہوتے، اور سرزمینِ حرمین کس وقت لہو سے لالہ زار ہوجاتی ، اللہ کا کرنا کہ عبداللہ کی موت سعودی حکومت کے لئے درازئی عمر کا سبب بن گئی ۔

شاہ سلمان کی حالات پر نظر تھی ، وہ مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں پر سخت نالاں تھے ، اندر سے کڑھ رہے تھے ، لیکن آخری دورمیں بھائی کو بھائی سے، شاہ عبد اللہ کے بیٹے اور لا دین سکریٹری نے دور کردیا تھا ، اسی لئے جیسے ہی بھائی کی موت ہوئی ، اور ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز، شاہ سلمان بن گئے ، تو انہوں نے اسکا بھی انتظار نہ کیا کہ بھائی کی تدفین عمل میں آجائے، انتقال اور تدفین کے وقفہ کے دوران انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ ، حکومت کے اسلامی وجود کو ڈسنے والے سانپ خالد التویجری کو مع اپنے حواشی مواشی کے ٹاٹ باہر کیا ، بیٹے اور اسکے حوالی موالی کے اختیارات سلب کر لئے ، وزارت خارجہ، وزارت دفاع، اور تمام حساس امور اپنے ہاتھ میں لے لیئے، یہ اسپتال کی گویاایمرجنسی کارروائیاں تھیں ، اور یہ ایک ناگزیرعاجلانہ آپریشن تھا، جس نے اگلے نئے مرحلہ کے لئے راستہ ہموار کردیا ۔

اب میںآپ کے سامنے اس حقیقت کا نکشاف کرنے جارہا ہوں کہ ’’ داعش‘‘ سعودی نظام کے بطن سے پیدا ہونے والی تنظیم ہے ، اسکی شرعی ماں ’’ا لقاعدہ‘‘ ہے، جسکے بانی اسامہ بن لادن تھے ، جو نہ صرف سعودی نیشنل تھے ، بلکہ انکا خاندان حرمین کی خدمات کی وجہ سے سب سے زیادہ جانا پہچاناجاتا ہے۔

یہ ساری تنظیمیں امر واقعہ یہ ہے کہ ’’ سلفیت ‘‘ کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہیں ، کتاب و سنت کے دعوے کے ساتھ ان تنظیموں کی مرکزی مرجع شخصیت علامہ ابن تیمیہ کی ہے ، اور آخری دور میں ان کی مرکزی شخصیت ’’شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی‘‘ کی ہے ۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمدبن عبد الوہاب نجدی کی ساری جہادی کاروائیاں مسلمانوں کے ہی خلاف تھیں جن کو انہوں نے ان کی بدعات کی وجہ سے مشرک یا مرتد قراردے دیا تھا ،انہوں نے اپنے نزدیک تمام مبتدعین کو نشانہ بنایا، ان کی جنگ یہودیوں ، عیسائیوں ، اور غیر مسلموں سے نہیں تھی، انہوں نے نجداور حجاز میں وہی کارروائیاں کی تھیں جو آج ’’ داعش ‘‘ کر رہی ہے ، مسلمانوں کو بدعا ت کی بنیاد پرمشرک و مرتد قرار دے کر جو کارروائیاں محمد بن عبدالوہاب کی تحریک اور سعودی مملکت کے قیام کی تحریک کے علمبردار کر رہے تھے ، اس سے پورا عالم اسلام چراغ پا تھا ، ہندوستان میں مسلمانوں کے مرجع علما ئے فرنگی محل نہ ان کے خلاف صرف بول اور لکھ رہے تھے ، بلکہ دیوبند کے اجلہ علماء مولانا خلیل احمد سہارنپوری،مولانا حسین احمد مدنی ،محمد بن عبد الوہاب کے خلاف سخت سے سخت تنقید کررہے تھے،بلکہ اہل حدیث کے بڑے عالم سید صدیق حسن قنوجی بھی ان کے خلاف تھے، علامہ شوکانی یمنی وغیرہ بھی ان کے مخالف تھے،محدث جلیل شیخ زینی دحلان بھی ان کے خلاف فتوے دے رہے تھے،جو مکہ کے عالم جلیل تھے(۷) مولانا منظور نعمانی نے آگے چل کر اپنی کتاب ’’ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے خلاف پروپیگنڈہ ‘‘میںعلمائے دیوبند کی طرف سے صفائی پیش کی ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی سیاست کے بطن سے جو ’’ سلفیت‘‘ پیدا ہوئی،اسکی گھٹی میں تشدد ،انتہاپسندی، دوسرے حلقوںکی تکفیر ، اور ائمہ اور علمائے حق پر طعن و تشنیع داخل ہے، اس تحریک کے تین چہرے ہیں :

۱ – ایک فکری و اعتقادی: جسکا مرکزی کردار سعودی حکومت کے زیر سایہ مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ میں ،اور پھر اسکے باہر’’ ربیع مدخلی‘‘ (۸)ادا کر رہے ہیں ، ان کے نزدیک امت کے تقریبا تمام علماء جو اشعری اورماتریدی ہیں گمراہ ، منحرف اور بد دین ہیں ، ان کے نزدیک تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی ، الاخوان المسلمون سب قریب بہ مرتد ہیں ، ان کے نزدیک ابوالحسن علی ندوی ، مودودی، اور حسن البنا کافر ہیں ، ان کے متبعین ’’ مداخلہ‘‘ کہلاتے ہیں ، جامعہ اسلامیہ میں ان کے شاگردوں کی کھیپیں تیار کرکے پورے عالم اسلام میں انتشار پھیلانے ، ہر ملک کے بزرگوں ،علماء و صوفیاء، اور عظیم داعی و مصلح علماء پر کفر و گمراہی کے فتوے لگانے، اور پھر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے، مسجدوں میں فقہی مسائل کے جھگڑے کھڑے کرنے ، اور ہر گاؤں میں فتنے کی آگ لگا کر نوجوانوں کو بھڑکانے ، اکسانے ، ورغلانے ، اور اجتماعیت کے خلاف بغاوت کرنے کا کام سونپا گیا ہے ، جسکے لئے مجھے شواہد بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بر صغیر کا گوشہ گوشہ اس فتنہ سے کراہ رہا ہے ، ترکستان، خراسان ، افریقہ اور یورو پ میں اسی فتنہ نے مسلمانوں کو تتر بتر کیا ہے ، ان کا لٹریچر ، ان کی کتابیں ، فتاوی ، بیانات ، میڈیا پر انکا دیا ہوا مواد، اسکے شاہد عدل ہیں ۔

۲- سلفیت کا دوسرا گروپ سیاسی ہے ،سعودیہ میں تو اس کے پر کٹے ہوئے ہیں ، لیکن کویت میں اس نے اپنی نمائندگی درج کرا رکھی ہے ،اور مصر میں ’’حزب النور ‘‘کے نام سے اس نے سیاست کے دنگل میں گھسنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس کی گھٹی میں انتشار ، تفریق ، اور اجتماعیت توڑنے کی سرست ہے ، اسلئے ، اس نے مصر کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کا مفادپرستانہ ساتھ دے کر ایوان سیاست تک پہونچنے کا ڈرامہ رچا، اور اس کے بعد جب ان کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کے اشارہ پر اور ان کی اور سعودی حکومت کی مدد کے ساتھ فوجی ٹولہ نے یلغار کی، تو یہ مفاد پرست ،حدیث و سنت کا ڈھونگ رچانے والے ، اسرائیلی ایجنٹ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ، اور اخوانیوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتے رہے ، اور دل ہی دل میں خوش ہوتے رہے کہ اب یہ تنہا مصر میں اسلام کے ٹھیکیدار ہوں گے ، لیکن کمینہ اور ملحدانہ انقلاب نے جب ان کے مولویوں کی داڑھیاں نوچنی شروع کیں ، تو بلبلانے لگے ، اور دہائی اپنے تعلقات اور وفاداریوں کی دینے لگے ، اور یہ بھول گئے ، کہ کفر والحاد کے درخت سے کیا اسلام کے پھل نکل سکتے ہیں !؟آخر میں’’سیسی‘‘ جیسے مجرم اورمنافق کی قیادت میں ابھی قریب میں جب الیکشن ہوئے ، تو یہ طماع وحریص پھر اس میں کود پڑے ، کہ شاید چند سیٹوں کے چھیچھڑے مل جائیں ، لیکن الحمدللہ مصری قوم نے ان کے نفاق کو خوب پہچان لیا ، ان کی قلعی اتر گئی ، اور ان کی زنگ آلود شکل سامنے آگئی ،نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، ان محروموں کو ایک سیٹ نہ ملی،اور’’سیسی ‘‘نے انہیں دھتکا ردیا۔

۳-سلفیت کی تیسری شکل ’’داعش‘‘کی ہے ، داعش کے ذمہ داروں ’’امیر المومنین‘‘ ابوبکر بغدادی اور اسپیکر ابو محمد العدنانی(۹) اور دیگر اہم حضرات کے بیانات نٹ پر مہیا ہیں ، تحریری دستاویزات موجود ہیں ، ان کی تاریخ کے ماہرڈاکٹر عبدالباری عطوان اور دیگر محققین کے تفصیلی بیانات موجود ہیں ، وہ کتاب و سنت کو اساس و بنیاد مانتے ہیں ، اہل سنت والجماعت کے عقائد رکھتے ہیں ، لیکن ان کے نزدیک اعلی مفکرین میں ابن تیمیہ ان کے مرجع ہیں ، اور تحریکی سطح پر محمد بن عبد الوہاب ان کے امام و مرجع ہیں ، ان کا سارا لٹریچر اوردینی اور اعتقادی مواد انہیں مراجع کے ارد گرد گردش کرتا ہے ، ان کے ساتھ بیس پچیس ہزار سعودی نوجوان ہیں، جو سعودی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے ہیں، جن کو محمد بن عبد الوہاب کے افکار و خیالات کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے، ان کا اسلام ’’وھابی‘‘ اور’’سلفی اسلام ‘‘ ہے ۔

یہ اسلام ،سعودی مملکت میں، سعودی جامعات ، اور سعودی اداروں میں ،نارمل اورپر امن حالات میںہی دوسروں کو گوارا نہیں کرتا ، اسکے نزدیک تمام صوفیا ء زندیق تھے ، اس کے نزدیک تمام علمائے اشاعرہ گمراہ تھے، اور ہیں ، اس کے نزدیک تمام دیگر دینی جماعتیں گمراہ بلکہ مرتد و کافر ہیں ،اس کے نزدیک تقلید شرک کی ہی ایک شکل ہے ،اس کے نزدیک غیر مسلموں کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی گنجائش نہیں ہے ، اس کے نزدیک تمام اسلامی تنظیمیں جو جمہوریت کا راستہ اختیار کرتی ہیں ، مرتد ہیں، جب نارمل حالات میں اس کے یہ فکری اور اعتقادی دھماکے ہیں -اور اگر کسی کو شک ہو تو ان کے مدارس میں چلے جائیے، انکی کتابوںپر نظر ڈالئیے ، اور انکے خطابات اور تقاریر سن لیجئے ، میری باتوں کی سود لیلیں بآسانی اور بے تکلف آپ کو مل جائیں گی- تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے فکر و عقیدہ کی تنظیم جب مسلح ہوگی ، تو کیا کرے گی!؟ وہ پہلے اپنے گھر سے لڑائی چھیڑے گی ، امت کی اکثریت اس کے نزدیک مرتد ہے ، یا منافق ہے ،کافرہے یا مشرک ہے ، تو اسکی بندوقیں ،مشین گنیں ، خود کش دھماکے ، پہلے گھر کے مرتدوں کے خلاف ہی ہوں گے ، شیخ محمد بن عبدالوہاب نے پہلے گھر کی ہی لڑائی لڑی تھی ، پھر باہر کی لڑائی کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی ، یہی عمل انہیں کی نقل میں اور انہیں جیسے علماء کے حوالوں کے ساتھ ،اس وقت شام و عراق و یمن اور لیبیا میں دہرایا جارہا ہے ، اور یہی جنگ لڑی جارہی ہے ، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بیرونی دشمنوں کے ایجنٹ ہیں ، میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہے ، یہ اپنے فکر و عقیدہ کے مارے ہوئے ، وہ’’ سلفی‘‘ ہیں جن کو فتاوا ئے تفکیر وارتداد سے کم پر چین نصیب نہیں ہوتا۔

میں نے عراق میں نوری مالکی کی فرقہ وارانہ اور جابرانہ و ظالمانہ حکومت کے خلا ف ان کی فتوحات پر ایک کھلا خط بغدادی صاحب کو ان کے القاب کے ساتھ لکھا تھا ، اور ان سے درخواست کی تھی کہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے ، امت فرقہ واریت کے لئے نہیں ہے ، شیعہ سنی پہلی صدی سے عالم اسلام میںموجود ہیں ، سخت ترین فکری اور اعتقادی اختلافات کے باوجوداہل سنت نے ان کے خلاف جنگیں نہیں بھڑ کائیں ، بلکہ سنی علماء و محدثین شیعہ راویوں سے ، خوارج، مرجہۂ،اور قدریہ سے روایتیں لیتے رہے ہیں ، ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں،رجال کی کتابیں ان کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں ، میںنے عرض کیا تھاکہ عادلانہ نظام کا قیام مقصود ہے ، عادلانہ نظام کے لئے جائز اور منصفانہ عدالتی کاروائیاں ہونی چاہئیں ، سزا مجرموں کو ملنی چاہیئے، جن کے جرائم عدالتوں میں ثابت ہو چکے ہوں ، خانہ جنگی سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں ، آبادیاں ویران ہو جاتی ہیں۔

میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ دیگر ملکوں سے اچھے روابط ہونے چاہئیں،غیر مسلموں سے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں ، ہندوستان کی نرسوں کو جب انہوں نے بہ تحفظ ہندوستان بھیج دیاتھا توان کے اس کردار کو پورے ہندوستان میں سراہا گیا تھا،میں نہیں جانتا کہ میرا خط پہونچایا نہیں پہونچا ،لیکن آگے کی کارروائیوں اور فیصلوں نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی تنگ نظری ،ضد ،اور تشدد پر قائم ہیں ،اور اس کے داعی ہیں ،لہذا میں نے ان کے خلاف بیان دینے کا فیصلہ کیا ،اور تمام اخبارات کو ان کے متشددانہ موقف اور انتہا پسندانہ کارروائیوں کی نکیر اور مذمت پر مشتمل بیان جاری کیاجو اکثر اخبارات میں شائع ہوا ۔

’’ سلفیت ‘‘ایک ذہنی بیماری ہے ،اس کے تیور باغیانہ ہیں ،یہ نہ ائمہ فقہاء کو بخشتی ہے ،نہ صو فیاء کرام اور اولیاء عظام کو ،یہ نہ متکلمین کو قبول کرتی ہے ،نہ مصلحین و مجددین کو ، یہ خود کاشتہ پودا ہے ،’’جوانا‘‘ ’’Ego‘‘اور نفس کی جڑوں سے پیدا ہوتا ہے ، پوری تاریخ اسلامی کی شخصیات کے تذکروں کی کتابیں اٹھا لیجئے ، بیسویں صدی سے پہلے ہزارہا ہزار علماء و مفکرین و صلحاء گذرے ہیں، ایک شخصیت بھی ایسی نہیں ملیگی ،جس کے ساتھ ’’فلاں سلفی ‘‘کا لاحقہ لگا ہوا ہو ،یہ اس دور کی بد ترین بدعت ہے ،جس کے بیج سعودی وھابی تحریک نے بوئے ہیں،اور آج اس کے درختوں کے کڑوے پھلوں ،اور کانٹے دار شاخوں سے وہ خود پریشان ہے، یہی وہ سلفی نوجوان تھے ،جنھوں نے حرم مکی میں ’’مہدی ‘‘ کا خونین ڈرامہ رچا تھا ،اسکی دستاویزی رپورٹیں اس وقت کے اخبارات اور پرچوں میں بھری پڑی ہیں ،یہی وہ سلفیت ہے جس نے سعودی جامعات کے ’’مبعوثین ‘‘کے ذریعے ہر ملک میں تفرقہ و انتشار کا فتنہ برپا کیا ہے ،جن کی شکایت میں نے بذات خود چند سال پہلے جامعہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ،رابطہ عالم اسلامی کے شعبہ دعوت کے ڈائرکٹر ،الجبیل کے قاضی صاحب وغیرہ حضرات سے ملاقات کے دوران کی ،اور سب نے بالاتفاق اس فتنے کی نکیر کی ،اورصفائی پیش کی ،کہ ہمارا یہ مسلک اور نقطہ نظر نہیں ہے ، یہی وہ ’’ سلفیت ‘‘ ہے جس کے نمائندے دعوت کے پلیٹ فارم سے سعودی مساجد میں دیوبندی علماء اور تبلیغی جماعت کے بانیان اور ذمہ داروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں ، ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون ان کے تکفیری فتووں سے زخمی ہیں۔

یہی وہ سلفیت ہے جس میں ہر روز ایک نیا دھڑا پیدا ہوتا ہے،اور جس کے ’’مجتہدین‘‘ہر رکشہ والے اور خوانچہ فروش ،مزدور، مستری اور نائی کو بخاری کتاب کے ذریعہ ’’مجتہدعصر‘‘بنا نے پر تلے رہتے ہیں،میںنے شاہ عبداللہ کے نام کھلے خط میں درخواست کی تھی کہ اپنی پالیسیوںپر نظر ثانی کیجئے اور الاخوان المسلمون کا اپنا معاون بنائیے، اور شام میں مجاہد تنظیموں کو قریب کیجئے، غالیانہ اور متشددانہ موقف رکھنے والوں کو مخلص اور آزاد علماء کے ذریعہ سمجھائیے اور اعتدال پرلانے کی کوشش کیجئے، اور سرزمین حرمین کو بیرونی اثرات سے پاک کیجئے، لیکن :’’اے بساآرزو کہ خاک شدہ‘‘۔

شاہ سلمان نے اقتدارسنبھالتے ہی جس طرح سازشی عناصر کو منظرنامے سے ہٹانے کے فیصلے کئے ،یہ بہت امید افزا ، اور خوش آئند تھے، میں نے انہیں مبارک باد کا خط لکھا، اور ان سے درخواست کی کہ مصر میں مرسی حکومت کی بحالی کے لئے دباؤ ڈالئے، سیسی سے تعلقات منقطع کرکے اپنی دینی اور اسلامی عزت کا تحفظ کیجئے، ترکی سے تعلقات مستحکم کیجئے، یمن میں الاخوان کے لئے موقع فراہم کیجئے، حماس اور غزہ کے ذمہ داروں کا تعاون کیئجے، میری ان سے یہ بھی درخواست ہے کہ سلفیت کے متشددانہ نظریات کے ناخن تراش دیجئے، مسئلہ صرف داعش کا نہیں ،بلکہ یہ اس کی ماں’’سلفیت‘‘کا ہے،اس پر لگا م دیجئے اور جب تک پوری امت کے علماء حق کسی بات کا فیصلہ نہ کریں انہیں رائے زنی نہ کرنے دیجئے، حکومتوںکی تقلید کے بجائے انہیں ائمہ برحق کی تقلید اور اتباع سکھائیے، شاید یہ آپ کے ہاتھ پرتوبہ کرلیں۔

اللہ کا کرنا ،کہ شاہ سلمان حالات کے دبائو میں، یادل کی گہرائیوں میں اعتراف حقیقت کے ساتھ ،اب جس پالیسی پر چل رہے ہیں ، وہ بڑی خوش آئند ہے،حماس کے سیاسی قائد خالد مشعل کا سعودی قیادت سے ملنا -اور گفت و شنید کرنا -یمن کی اخوانی قیادت کی بعض اہم شخصیات کا سرزمین حرمین میں سعودی ضیافت سے فیضیاب ہونا -اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو سعودی حکومت کی طرف سے زیارت کی دعوت ملنا -اردوغان سے گہرے اور دوستانہ مراسم کے ساتھ ترکی سے وسیع ترین مقاصد کے لئے تعلقات قائم کرنا – قطر کے بائیکاٹ کا خاتمہ کرکے ، اس کو پر اعتماد ساتھی بنانا -سعودی ،ترکی ،قطری مثلث کا مثبت فضا میں وجود میں آنا -ایران کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف ایک مضبوط اسلامی محاذکی تشکیل کرنا -اور مزید اصلاحات کے وعدے کرنا ،وہ سعودی علماء ،دانشوران، اور نوجوانوں کے محبوب قائدین جن کو شاہ عبداللہ کے دور میں وقتا فوقتاجیلوں میں ڈالا گیا تھا ، جیسے سلمان العودہ ،محمد العریفی ،عائض القرنی ،اور دیگر حضرات، ان سب کو پوری آزادی کے ساتھ سفرو قیام کا موقعہ فراہم کرنا ،یہ اور ایسے بہت سے اقدمات ہیں، جن سے یہ امیدیںوابستہ کی جا رہی ہیں کہ سعودی حکومت نے پچھلی غلطیوں سے سبق لیا ہے،حالات کی خطرناکیوں سے عبرت حاصل کی ہے۔

اس سلسلہ کا سب سے اہم اقدام -جسکی اس عاجز نے بھی تجویز رکھی تھی، اور ہر فکر مند اور دردمند کا مطالبہ تھا-یہ سامنے آنے والا ہے ،کہ شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ حکومت سے بر سر پیکار جو تیس (۳۰)جہادی تنظیمیں میدان کار زار میں، یا سیاسی محاذ پرسرگرم عمل ہیں ، ان کا ایک اجلاس آئندہ مہینہ ریاض میں بلایا گیاہے ، تاکہ ان میں اتحاد پیدا کیا جائے ، اور شام کے لئے مستقبل کی حکومت کا خا کہ طے کیا جائے ، اور ’’داعش‘‘ کی انتہا پسندانہ کارروائیوں پر روک لگائی جائے – تشدد ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کا یہی طریقہ ہے کہ امن پسند ، سنجیدہ ، اور پر امن بقائے باہم پر یقین رکھنے والی طاقتوں کو موقعہ فراہم کیا جائے ، پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج مصر میں مرسی صاحب کی حکومت ہوتی اور سعودی حکومت اس کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کرتی، تو شام و یمن و عراق و لیبیا میں نہ ’’داعش ‘‘ کی انتہا پسندی باقی رہتی ، نہ متشددانہ کارروائیوں کا کوئی موقعہ ہوتا ، اسرائیل و امریکہ یقینا ہماری خانہ جنگی چاہتے ہیں ، لیکن’’ سعودیہ ‘‘ کو بھی کیا ہم اسی فہرست میں رکھیں ؟ !

ہم سب کی نگاہیں اب ریاض کی آئندہ کانفرنس پر لگی ہوئی ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ترکی ،سعودیہ اور قطر کے مثلث سے ایک معتدل اسلامی قیادت ظہور پذیر ہوگی ، شام و عراق ویمن سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا ، اور بڑی طاقتوں کی مداخلت سے شرق اوسط کی آزادی کے حصول کے لئے ٹھوس زمین پر قدم آگے بڑہا یا جا ئیگا ۔

پوری امت مسلمہ دست بدعا ہے کہ اے اللہ مصر کے سیسی اور شام کے بشار کو عبرتناک سزا دے دے، اور عالم اسلام کو خانہ جنگی کے دلدل باہر نکال دے ۔ آمین

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭حواشی٭٭

(1)ابوبکر بغدادی ۲۸/جون ۱۹۷۱؁ء میں سا مرّا میں پیدا ہوئے،۱۹۹۱ ء؁ میں انہوں نے ہائی اسکول پا س کیا،پھر بغداد یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعہ میں ان کا داخلہ ہو گیا، کالج میں مطالعات قرآنی کے موضوع پر انہوں نے بحث لکھی،اور ’’قراء ات‘‘ کے موضوع پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،۲۰۰۳ء؁سے ۲۰۰۶؁ء تک وہ ’’جیش اھل السنۃ والجماعۃ‘‘سے منسلک رہے، ۲۰۰۶؁ء’’میں مجلس شوری المجاہدین ‘‘میں ان کی شمولیت ہوئی،اسی سال عراق کی اسلامی اسٹیٹ کا قیام ہوا،۲۰۰۷؁ء میں وہ تنظیم کے امیر منتخب ہوئے، ۲۰۱۱ ء؁ میں شام میں انقلاب شروع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے ایک کمانڈر ’’ابو محمد الجو لانی ‘‘کو شام کا محاذ سونپا،ان کے اختلاف کے بعد ۲۰۱۳ ء؁ میں ابو محمد الجولانی کو معزول کرکے ’’عراق اور شام میں اسلامی اسٹیٹ‘‘کا ان کی طرف سے اعلان کیا گیا،۲۰۱۴ ء؁ میں عراق میں بڑی فتوحات کے بعد ماہ رمضان میں خلافت اسلامی کا اعلان کیا گیا،اور عراق وشام میں مراکز قائم کر دیئے گئے۔

(2)ابومحمد الجولانی کا تعلق شام سے ہے،وہ ابوبکر بغداد ی کی تنظیم کے ایک کمانڈر تھے،۲۰۱۱ء؁ میں بغدادی نے انہیں شام میں جہاد کی کمان سونپی ،لیکن شام میں ابو محمد نے القاعدہ کی مرکزی تنظیم سے براہ راست اپنا رابطہ قائم کر لیا،اور بغدادی سے علیحدگی اختیار کرلی،نتیجتاً دونوں تنظیموں میںجھڑپیں شروع ہو گئیں،اور ان پر عالمی تنظیموں سے رابطہ کا الزام لگا یا گیا،اور باغی قرار دیا گیا۔

(3)ابو مصعب الزرقا وی کی پیدائش شہر زرقاء اردن میں ۱۹۶۹؁ء میں ہوئی ، وہ بنو الحسن خاندان سے ہیں، جو قبیلہ طے کی ایک شاخ ہے ، افغانستان میں روسیوں کے خلاف جہاد میں شرکت کے لئے وہ ۱۹۸۹؁ء میں افغانستان چلے گئے ، وہاں اسامہ بن لادن کی تنظیم سے انہوں نے وابستگی اختیار کرلی ، پھر۱۹۹۰ء؁میں وہ اردن واپس آگئے، جہاں ان کی گرفتاری عمل میں آئی ، اور وہ چھ سال جیل میں رہے ، جہاں ان کا تعارف ابو محمد المقدسی سے ہوا ، جن کو اسرائیل پر حملہ کی منصوبہ بندی کے الزام میں ۱۹۹۶؁ء میں ۱۵ سال کے لئے جیل میں بند کر دیا گیا تھا، لیکن ۱۹۹۹؁ء میں اردن کے شاہ عبد اللہ نے عمومی معافی کے اعلان کی بنیاد پر ان کو رہا کردیا ، زرقاوی کی بھی اس وقت رہائی عمل میں آئی ، اور وہ پھر افغانستان چلے گئے ، جہاں ۲۰۰۰؁ء تک ان کا قیام رہا ۔

۲۰۰۱؁ء میں اپنے امیر اسامہ بن لادن کی ہدایت پر انہوں نے عراق آکر ’’جماعۃ التوحید والجہاد‘‘ کے نام سے جہادی تنظیم قائم کی، ۲۰۰۵؁ء میں امریکن افواج سے لڑائی کے دوران تنظیم کا نام ’’قاعدۃ الجھاد فی بلاد الرافدین‘‘ ’’دجلہ و فرات کے ملک میں محاذ جہاد‘‘ رکھ دیا گیا ، اور اسی سال ۲۰۰۶؁ء کی تاریخ ۷ جون کو نوری مالکی کی طرف سے زرقاوی کے ایک امریکن حملہ میں مارے جانے کا اعلان کیاگیا۔

(4)ابو عمر بغدادی: ان کا نام حامد داود محمد جلیل الزاوی ہے یہ ۱۹۵۹؁ء میں پیدا ہوئے ، ۲۰۰۶؁ء سے الدولۃ الاسلامیہ کے امیر منتخب ہوئے ، ۲۰۰۷؁ء میں ان کے قتل کی افواہ اڑائی گئی ، ستمبر ۲۰۰۹؁ء میں بھی اسکا دعوی کیا گیا ، لیکن ۲۰۱۰ء؁ میں ان کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔

(5)نوری کا مل مالکی : جون ۱۹۵۰؁ء میں پیدا ہوا ، بغداد میں کلیۃ اصول الدین سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، اور اربیل کی جامعۃ صلاح الدین میں عربی زبان میں ایم اے کیا ۱۹۷۰؁ء میں یہ حزب الدعوہ میں شامل ہو گیا ۱۹۸۰؁ء میں جب صدام حسین نے حزب الدعوہ پر پابندی لگا دی تھی تویہ سوریا چلا گیا تھا ،۱۹۹۲ء؁ میں یہ پھر ایران چلا گیا ، پھر سوریہ واپس آیا ۔

۲۰۰۳؁ء میں صدام کی حکومت کے زوال کے بعد یہ عراق آیا ، اور پول بریمرکی صدارت میں عراقی حکومت کا رکن بن گیا ،۲۰۰۶ ؁ء میں فرقہ وارانہ بنیاد پر الیکشن جیت کر یہ شیعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا ، اس کے بعد اس کے القاعدہ کے درمیان جنگ کا بازار گرم رہا ، یہاںتک ۲۰۱۴؁ء میں اپنے جرائم اور مظالم کے نتیجہ میں معزول کردیا گیا۔

(6)حیدر العبادی : ۱۹۵۲ ؁ء میںبغداد عراق میں پیدا ہوئے ، انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے بیچلرس کی ڈگری لی، اور مانچسٹر یونیورسٹی سے ایم اے، اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ، یہ مذھباً شیعہ ہیں، ’’حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ نامی سیاسی پارٹی کے ممبر رہے ، ۲۰۱۴؁ء میں نوری المالکی کو داعش کے مقابلہ ان کی ناکامی کے بعد ہٹاکر ان کو عراق کا وزیر اعظم بنایا گیا ، اب یہ امریکہ کے تعاون سے داعش اور دیگر تنظیموں سے بر سر پیکا ر ہیں ۔

(7)ذراان کے مندرجہ ذیل بیانات پر ایک نظرڈال لیجئے اور پھر بتائے کہ جو کچھ ان کے بارے میں کہا جارہا تھا،کیا آج داعش کے بارے میں اسی تاریخ کو نہیں دہرایا جا رہا ہے؟

حرمین شریفین میں شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ا ن کی دعوت اور جماعت سے متعلق جس طرح کی باتیں مشہور تھیں، اور وہاں سے ساری دنیا میں پھیل رہی تھیں ، ان کا نمونہ مکہ مکرمہ کے مشہور عالم ، مفتیٔ شافعیہ شیخ احمد زینی دحلان (م ۱۳۰۴؁ھ ) کی کتاب ’’خلاصۃ الکلام فی بیان امراء بلد الحرام‘‘اور ’’الدرالسنیۃ فی الرد علی الوھابیۃ‘‘میں دیکھا جا سکتا ہے ، شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں ’’خلاصۃ الکلام‘‘کے صرف ایک صفحہ (۲۳۰،جلد دوم)کے یہ چند جملے ناظرین ملاحظہ فرمائیں:

’’ جب کوئی شخص اس کے (محمد بن عبد الوہاب کے) دین میں داخل ہونا چاہتاہے تو وہ اس سے کلمہ شہادت پڑھوانے کے بعد کہتا ہے کہ تم اس بات کی بھی شہادت دو کہ تم اب تک کافر تھے ، اور تمہارے ماں باپ بھی کافر تھے، اور وہ کفر ہی کی حالت میں مرے۔ اور گذشتہ زمانہ کے بہت سے بڑے علماء کا نام لے کے کہتا کہ ان کے بارہ میں بھی شہادت دو اور کہو کہ یہ سب کافر تھے ، تو اگر وہ شخص یہ شہادت دیتا اور اقرار کرتا تو وہ ان کو قبول کرلیتا اور اپنے دین میں داخل کرلیتا اور اگر وہ شہادت نہ دیتا تو اس کو قتل کرادیتا ، اور وہ صراحت سے کہتا تھا کہ گذشتہ چھ سو سال میں جو مسلمان گذرے ہیں وہ سب کافر تھے، اور اپنے متبعین کے سوا اور سب کو وہ کافر قرار دیتا تھا، اگر چہ وہ اعلیٰ درجہ کے متقی ہوں ، ان کو وہ مشرک کہتا تھا ،اور ان کا قتل کرنا اور ان کا مال لوٹ لینا وہ جائز سمجھتا تھا … اور صرف ان لوگوں کو وہ مومن و مسلم مانتا تھا جو اس کا اتباع کرتے، اگر چہ وہ بد ترین قسم کے فاسق وفاجر ہوتے۔

اور وہ طرح طرح سے رسول اللہ ﷺ کی تنقیص و توہین کرتا تھا ، اور اس کی پیروی میں اس کے متبعین بھی حضور کی شان پاک میں گستاخیاں کرتے تھے حتیٰ کہ اس کے بعض متبعین یہ کہتے تھے کہ میری یہ لاٹھی محمد سے بہتر ہے، اس سے سانپ جیسے موذی جانور مارنے کا کام لیا جا سکتا ہے اور محمد تو مر چکے اور ان کی ذات میں اب کوئی نفع نہیں رہا اور وہ تو بس ’’چٹھی رساں ‘‘ تھے جو گذر گئے۔

اور اسی قبیل سے یہ بات بھی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے کو برا سمجھتا تھا، اور اس کے سننے سے اس کو اذیت اور تکلیف ہوتی تھی۔

اور اسی سلسلہ میں شیخ دحلان نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

’’اور اس شخص محمد بن عبد الوہاب کو اپنے ابتدائی دور میں ان لوگوں کے حالات و واقعات کے مطالعہ کا بڑا شوق تھا، جنھوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، جیسے مسیلمہ کذاب ، اور سبحاح ،اور اسود عنسی اور طلیحہ اسدی اور ان جیسے دوسرے مدعیان نبوت ، در اصل وہ اپنے دل میں نبوت کا دعوی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اور اس کو چھپائے ہوئے تھا اور اگر اس کو علانیہ نبوت کا دعویٰ کرنے کا موقع ملتا تو وہ کھلم کھلا نبوت کا دعویٰ کرتا‘‘۔

انہی شیخ احمد زینی دحلان نے اپنی اسی کتاب ’’خلاصۃ الکلام ‘‘ میں اسی زمانہ کے ایک دوسرے عالم مفتی شیخ عبدالرحمن الاہدل (مفتیٔ زبید) کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ :

’’جو عورتیں محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اور مسلک قبول کرتی تھیں ، وہ حکم دے کر ان کے سر بھی منڈواتا تھا‘‘۔(دیکھئے کتاب ’’شیخ محمد بن عبد الوہاب کے خلاف پروپیگنڈہ‘‘۔از:مولانا محمد منظور نعمانی)

دوسری طرف علمائے دیوبند اور علمائے فرنگی بلکہ بر صغیر کے تمام علماء ان کے خلاف تھے،مولانا خلیل احمد سہا رنپوری کو ایک سوال بھیجا گیا۔

سوال : محمد بن عبدلاوہاب نجدی حلال سمجھتا تھا مسلمانوں کے خون اور ان کے مال و آبرو کو، اور تمام لوگوں کو منسوب کرتا تھا شرک کی جانب اور سلف کی شان میں گستاخی کرتاتھا اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے اور کیا سلف اور اہل قبلہ کی تکفیر کو تم جائز سمجھتے ہو ؟

حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے سائل کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے جواب میں لکھا کہ :

’’ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے کہ…’’ خوارج ایک جماعت ہے شوکت والی ،جنھوں نے امام پر چڑھائی کی تھی تاویل سے ، کہ امام کو باطل یعنی کفریا ایسی معصیت کا مرتکب سمجھتے تھے جو قتال کو واجب کرتی ہے ، اس تاویل سے یہ لوگ ہمارے جان اور مال کو حلال سمجھتے اور ہماری عورتوں کو قیدی بناتے ہیں …(آگے فرماتے ہیں ) ان کا حکم باغیوں کا ہے (پھر یہ بھی فرمایا ) ہم ان کی تکفیر صرف اس لئے نہیں کرتے کہ ان کا یہ فعل تاویل سے ہے، اگر چہ باطل ہی سہی‘‘۔

اور علامہ شامی ؒ نے ان کے بارے میں فرمایا ’’جیسا کہ ہمارے زمانہ میں عبدالوہاب کے تابعین سے سرزد ہوا ، کہ نجد سے نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے ، اپنے کو حنبلی مذہب بتلاتے تھے، لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں ،اور جوان کے عقیدہ کے خلاف ہو، وہ مشرک ہے، اورا سی بنا پر انھوں نے اہل سنت اور علمائے اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کی شوکت توڑدی—–باقی رہا سلف اہل اسلام کو کافر کہنا، سوحاشا کہ ہم ان میں سے کسی کو کوفر کہتے یا سمجھتے ہوں۔الخ (التصدیقات،از:مولانا خلیل احمد سہارنپوری ص: ۱۳-۱۴)

حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے جو – ۱۳۱۶؁ھ سے ۱۳۳۳؁ھ تک مسلسل ۱۷-۱۸ سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے- اپنی کتاب ’’الشہاب الثاقب‘‘ میں شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کی جماعت کے بارہ میں لکھتے ہوئے اہل عرب و اہل حرمین کا یہ حال لکھاہے کہ :

’’اہلِ عرب کو خصوصاً اس سے (محمد بن عبدالوہاب سے) اور اس کے اتباع سے دلی بغض تھا ، اور ہے، اور اس قدر ہے کہ نہ اتنا قوم یہود سے ہے، نہ نصاریٰ سے نہ مجوس سے نہ ہنود ہے‘‘۔(الشہاب الثاقب ص/۴۷)

جلیل القدر اہل حدیث عالم علامہ سید صدیق حسن قنوجی-رحمۃ اللہ علیہ-محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ پیشوا وہابیوں کا ،ابن عبد الوہاب، مقلد مذہب حنبلی تھا، اور تابعانِ حدیث (اہل حدیث) کسی مذہب کے مذاہب ِمقلدین میں سے مقلد نہیں ہیں ، وہابیہ اور اہل حدیث میں فرق زمین و آسمان کا ہے…اہل حدیث تیرہ سو برس سے چلے آتے ہیں ، ان میں سے کسی نے کسی ملک میں جھنڈا اس جہادِ اصطلاحی کا کھڑا نہیں کیا…وہ فتنۂ و فساد و غدر اور قتل و خونریزی سے ہزاروں کوس بھاگتے تھے …ان کی نسبت کسی کتاب میں کسی جگہ حال اس کے فسادوغدر کا نہیں لکھا، بخلاف ابن عبد الوہاب کے کہ حال اس کے فساد تاریخ مصر و دیگر کتب مؤلفہ علماء عیسائی ،مطبوعہ بیروت وغیرہ میں مفصل تحریر ہے، اور ان کتابوں سے ہم نے انتخاب کر کے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ،تاکہ لوگ اس پر واقف ہو کر طریقہ ٔجنگ و جدال وفساد سے باز رہیں ۔(ترجمان وہابیہ،ص:۵۳)

پھر سید صدیق حسن قنوجی نے النا ج المکلل میں ۱۲۰۴ء؁ میں سعودبن عبد العزیز کے مدینہ منورہ میں داخلہ اور قبضہ کا حال یوں لکھا ہے:

’’ پھر مدینہ منورہ گیا اور وہاں کے لوگوں پر جزیہ باندھا ،اور مزار مقدس نبوی کو برہنہ کردیا ،اور اس کے خزائن ودفائن سب لوٹ کر درعیہ کو لے گیا … اور ایسا ہی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مزارات کو ڈھانے کا قصد کیا ، مگر اس کا مرتکب نہ ہوا، اور حکم کیا کہ بیت اللہ کا حج سوائے وہابیوں کے اور کوئی نہ کرے۔‘‘ (ترجمان وہابیہ ،ص:۳۰)

فیض الباری میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کے یہ الفاظ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں نقل کئے گئے ہیں:

الفاظ یہ ہیں :’’ انہ کان رجلاً بلیداً قلیل العلم فکان یتسارع الی الحکم بالکفر‘‘’’وہ بہت کندذہن اور کم علم تھا،اور تکفیر کا حکم لگانے میں جلد بازی کرتا تھا‘‘۔(فیض الباری)

محدث جلیل علامہ قاضی شوکانی اپنی کتاب’’البدر الطالع‘‘میں محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’لیکن ان لوگوں کا خیال ہے کہ جو لوگ ان کی جماعت اور نجدی حکومت کے دائرہ میں شامل نہیںہیں ،اور نجد کے سعودی حکمراںکے احکام کی تابعداری نہیں کرتے ،وہ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔

’’اور نجدی حکومت کے بارہ میں جو باتیں ہم تک پہنچی ہیں ، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ ایسے آدمی کو قتل کردینا درست سمجھتے ہیں جو نماز جماعت کے ساتھ ادا نہ کرے (اگر چہ منفرداً نماز ادا کرتا ہو) اور یہ بات جو ہم تک پہنچی ہے اگر صحیح اور واقعی ہے، تو یہ یقیناقانون شریعت کے خلاف ہے‘‘۔ (البدر الطالع:ج/۲،ص/۶۰۵)

اس کے علاوہ ہندوستان کے اکابر علماء اہل حدیث کا موقف بھی یہی تھا کہ وہ ’’تکفیر‘‘اور ’’قتال‘‘ کے مسئلہ میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی جماعت سے اپنا اختلاف اور براء ت ظاہر کرتے تھے ۔

مولانا مسعود عالم ندوی- جنھوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے بڑی تحقیق اور محنت وکاوش سے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سیرت لکھی ، جواب سے قریباً ۳۵ سال پہلے شائع ہوئی تھی (اور جو شیخ موصوف کو امت کے ا صحاب عزیمت مجددین میں شمار کرتے ہیں )- انھوں نے اپنی اس کتاب (محمد بن عبدالوہاب)کے صفحہ ۱۷۵ کے حاشیہ میں جماعت اہل حدیث کے قدیم ترجمان رسالہ ’’اشاعۃ السنۃ ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’رسالہ اشاعت السنۃ (نمبر ۵ جلد۶، ۱۳۰۰؁ھ م ۱۸۸۲؁ء) نے ہندوستان کے اہل حدیث حضرات کا اختلاف اس مسلک سے (یعنی شیخ محمد بن عبدالوہاب کی جماعت کے مسلک سے) ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے‘‘۔

اہل حدیثِ ہند ، وہابیہ نجدیہ سے تکفیر اور قتل مخالفین میں مخالف ہیں‘‘۔(ص ۲۱۷)

قاضی شوکانی نے اپنی کتاب ’’البدر الطالع‘‘میں مزید لکھا ہے:

ہمارے یمن کے حاجیوں کے قافلہ کے امیر الحاج السید محمد بن حسین المراجلی نے خود مجھ سے (علامہشوکانی سے) بیان کیا کہ ہمارے قافلہ کو نجدی جماعت کی ایک ٹولی ملی تو اس نے مجھے اور میرے ساتھ والے یمن کے سارے حاجیوں کو ’’کفار‘‘ کہہ کے خطاب کیا ’’ان جماعۃ منھم خاطبوہ ھو ومن معہ فی حجاج الیمن بأنھم کفار‘‘۔(البد الطالع:ج/۲،ص/۵)

شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں چند مشاہیر علماء کی یہ عبارتیں دل پر جبر کرکے نقل کر دی گئی ہیں ، کہ ’’داعش‘‘ کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کرنے والوں کو اندازہ ہو کہ تاریخ اپنے کو دہرا رہی ہے ، شیخ محمد بن عبدالوہاب کے معتقد اور نام لیوا آج عراق و شام کی سرزمین پر اور دیگر ممالک میں جو کارروائیاں کر رہے ہیں ، وہ ان کے نزدیک شیخ کے طرز عمل کے عین مطابق ہیں، اب اہل علم اور اہل افتاء جو بھی رائے قائم کریں ، وہ بہر حال روشنی میں ہونی چاہیئے ،اور پورے علم و بصیرت کے ساتھ ، اندھیرے میں تیر چلانے سے دوسروں کے زخمی ہونے کے زیادہ امکانات ہیں ۔

(8)ربیع بن ھادی مدخلی: ۱۹۳۲؁ء میںسعودی مملکت کے جرادیہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ، ۱۹۶۱ء؁ میں ثانویہ سے فراغت کے بعد ریاض کے کلیۃ الشریعہ میں داخل ہوئے، اسکے بعد مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کا آغاز ہوا ، تو وہ جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منورہ منتقل ہوگئے، وہاں سے ۱۹۶۴؁ء میں فارغ ہوئے ، اور جامعہ کے معہد میں تدریس کی خدمات انجام دینے لگے ، انہوں نے ۱۹۷۷؁ء میں’’ بین الامامین مسلم والدارقطنی‘‘ کے موضوع پر جامعۃ الملک عبد العزیز سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ، اور پھر ’’ النکت علی ابن الصلاح‘‘ کی تحقیق کے ذریعہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔

وہ خاندانی طور پر مسلکاً حنبلی تھے ، لیکن پھر وہ سلفیت کے پر جوش داعی بن گئے ، اس راستہ سے مقلدین ائمہ ، اور دینی جماعتوں اور تنظیمو ں کے ذمہ داران ، اور علماء اشاعرہ وغیرہ ان کی سخت ترین تنقیدو ں کا نشانہ بن گئے ، بلکہ تشدد اور انتہا پسندی ان کا شعار بن گئی ، اور تکفیر و تبدیع کے فتووں سے انہوں نے ہر اس شخص کو متہم قرار دیا جو سلفیت کے دائرے سے باہر رہا، اب یہی انکا سب سے بڑا جہاد ہے ، جس سے امت مسلمہ کی اکثریت زخمی اور لہو لہان ہے ، ان کے پر تشدد اور انتہا پسندانہ موقف کی وجہ سے ان کو جامعہ اسلامیہ سے علحدہ کیا گیا ، لیکن علماء کا داخلی انتشار حکومت کی پالیسی کا ایک حصہ ہے ، اسلئے انکی زبانی و قلمی ’’دہشت گردی ‘‘جاری ہے۔

(9) ابو محمد عدنانی:۱۹۷۷؁ء میں ادلب (شام) کے ایک گاؤں ’’سراقب‘‘ میں پیدا ہوئے ، پھر وہ’’ الرقہ ‘‘کے علاقہ میں رہے ،بعد میں انبار کے ضلع کے ایک گاؤں ’’حدثیہ‘‘ میں قیام پذیر ہوگئے ۔

۲۰۰۵؁ء میں امریکن فورسز نے انہیں ’’انبار‘‘ میں گرفتار کیا ، لیکن بعد میں ان کو کسی جرم کے ثابت نہ ہونے پر رہا کر دیا گیا۔

یہ ابوبکر بغدادی کے ساتھ ’’القاعدہ‘‘ تنظیم کے وابستہ رہے ، پھر الدولۃ الاسلامیہ کے اسپیکر کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہوا، اب وہ ابوبکربغدادی کے نائب اور ان کی شوری کے اسپیکر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے