ترکی بہ ترکی

کیا قیامت کی نشانیاں من وعن پوری ہونے کو؟ کیاشام کی جنگ فیصلے کی گھڑی ہی ہے ؟ کیا تیسری جنگ عظیم کا طبل جنگ بج چکا؟’’ہونی‘‘ نے تو ہوناتھا ’’انہونی‘‘ کیوں ہوتی؟ ہاتھیوں کی لڑائی میں ترکی کیوں کودپڑا؟ اڑتے ہوئے تیر کو بغل میں دبوچنے کا کیا تُک تھا؟پچھلے چند سالوں سے افغانستان سے شروع فراڈ، جھوٹ،ننگ پر مبنی جنگ کا اگلا پڑائو عراق ہوا توامریکی جنگی جنونی قافلے نے لیبیا کے مغربی ساحلوں تک پہنچنے سے پہلے یا پہنچنے کے بعد پاکستان ایران ، یمن، سعودی عریبہ ، مصر، سوڈان، صومالیہ، مالی، الجزائر ، شام کو لپیٹ میں لینا ہی تھا۔ جانکاری تھی کہ آخری اسٹاپ ترکی ہی رہے گا۔
پچھلے چند سال سے رونما ہونے والے جیوپولیٹکل واقعات نے گیم چینج کر دی ہے۔ امریکہ جان چکا تھا کہ پورا خطہ اس کا دوسرا ویت نام بننے جا رہا ہے۔روس کی رالیں ٹپکنا بنتی تھیں۔ خاطر خواہ سیاسی ومعاشی استحکام اور روسی صدر پیوٹن جیسی ذہین وچالاک لیڈر شپ کی موجودگی میں،جہاد افغانستان سے وصول شدہ ذلت رسوائی اور خواری کا بدلہ چکانے کا وقت جانچا جا چکا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکہ نے آنے والے کئی سو سالوں کا ناک نقشہ بنا لیاتھا۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے چھوٹتے ہی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا شوشہ چھوڑا، یعنی ایک ایسا نظام جس نے بظاہر دنیا کو نئی اقتصادیات ومعاشیات دینا تھی۔ نیو ورلڈآرڈر میں ملفوف مذموم مقاصد اسی وقت آشکار ہوگئے جب روس کو گہرائی اور پستی میں دھکیلنے کے بعد امریکہ کا ابھرتی اکانومی چین پر کڑی نگاہ رکھنا اور مسلمان خطے میں خیرہ کن تیل اور دیگر معدنی ذخائر کو اپنے تصرف میں رکھنا، پہلا ہدف ٹھہرا۔ نیو ورلڈ آرڈر اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں کم ازکم اگلے سو سال تک مستقل فوجی اڈے بمع سازوسامان،امریکہ کا پڑائو بن جائے ۔ تاریخ وجغرافیہ کا عجیب مظاہرہ دیکھنے میں، برصغیر پاک و ہند، چین ، روس ، وسطی ایشیاء ، مشرق وسطیٰ ایک نقطہ ’’واخان گائوں‘‘ پر ملتے ہیں۔ یعنی پاکستان، افغانستان، چین ، پرانا سوویت یونین کی سرحدوں کاانتہائی معمولی حصہ کا جہاں ملاپ وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔چنانچہ سرد جنگ کے اختتام پر امریکہ کا افغانستان اور پاکستان کو اپنے تصرف میں رکھنے کا ناقابل فراموش تصور ایسا غیر فطری اور غیر ضروری بھی نہیں تھا۔
نیو ورلڈ آرڈر کا خلاصہ یہی کچھ تو ہے کہ دنیا کی چوٹی (بلکہ چوٹیاں)پر ایسی کمین گاہیں بنائو کہ چین کی ابھرتی طاقت پر کڑی نظر رہے ۔نیو ورلڈ آرڈر کو جامع شکل دینے اور عملی جامہ پہنانے کے لئے کئی تھنک ٹینک امریکی انتظامیہ کی زیر نگرانی وجود میں آئے۔ نئے قدامت پسند وں پر مشتمل پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری ، دنیا پر قبضے کرنے کا امریکی منصوبہ کے خدوخال متعین کرنے میں سب سے زیادہ کارآمد اور موثر رہا۔ تین دہائیاں پیچھے (نیو ورلڈ آرڈر،1985 ) پہنچ ہی گئے ہیں تو امریکی رعونت اور تکبرکے ’’نئے نقطہ آغاز ‘‘کا ذکر بھی ہو جائے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ براعظم شمالی اور جنوبی امریکہ کے دونوں کونے ایک دوسرے سے پندرہ ہزار میل دور ہیں، دو بڑے سمندر بحرواقیانوس(Atlantic) اور بحر الکاہل(Pacific) کو جدا کر رکھا ہے۔دوبراعظموں کی انتہائوں کے بیچ پانامہ ایک چھوٹا غریب ملک واقع ہے۔ جہاں زمین سکڑ کر 80 کلومیٹر رہ جاتی ہے ۔
سو سال پہلے ایک ایسی نہر نکالی گئی جو دوان بڑے سمندروں کوملا گئی۔1914 سے ہی امریکہ نے نہر پانامہ کواپنے قبضے میں لے رکھاہے ۔ایک شریف النفس امریکی صدرجمی کارٹر نے ستمبر 1977 میں نہر پانامہ کوواپس کر دی۔ اس وقت پانامہ کا صدر جنرل عمر توری جوس (Omer Torrijos) تھا۔ بعد میں آنے والے امریکی جنگجو صدور ، یہ ہضم نہ کر سکے۔ پہلے جنرل عمر کو سی آئی اے نے 1983میں بذریعہ جہاز کریش قتل کروایا، ساتھ ہی سی آئی اے ایجنٹ مینوئیل نوریگاکو صدر بناڈالا۔ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعدایک نئی دنیا وجود میں آچکی تھی۔ گلیاںسنجیاں، امریکہ واحد سپر پاوردندناتا پھرتا تھا۔
ترکی بہ ترکی ایک وقت ایسا آیا جب جنرل ضیاء الحق کی طرح نوریگا کی افادیت تمام ہوگئی، کام تمام کرنے کی ٹھان لی۔ اپنے لائے ہوئے بندے نوریگا کے خلاف پہلے اندر سے بغاوت کروا کر ہٹانے کی کوشش ہوئی، جب ناکام ہوئی تو بذریعہ طاقت صدر نوریگا کو ایسے ہٹایا کہ تاریخ انسانی ششدر اور شرمندہ۔ پانامہ، آبادی چوبیس لاکھ (1989 میں)، رقبہ 75 ہزار، انتہائی پسماندہ، 1989 میں ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج سینکڑوں جیٹ، بمبار، جدیداسلحہ گولہ بارود پانامہ پر حملہ کر دیا۔ الزام یہ تھا کہ نوریگا غیر قانونی اسلحہ اور منشیات کے کاروبار میں ملوث ہے۔ لمبی بات کی گنجائش رہتی تو یہ غیر قانونی اسلحہ اور منشیات ایران کونڑا (Contra) اسیکنڈل ہی تھا جس سے حاصل شدہ رقومات سی آئی اے لاطینی امریکہ میں کمیونزم کی روک تھام میں خرچ کر کے حکومتیں گرانے میں لگا رہا تھا۔ آپریشن کا نام Just Cause رکھا۔ پہلے 12 گھنٹے پانامہ شہر میں 442 ایسے بم گرائے یعنی ہر دو منٹ بعد ایک بم گرا کہ آج بھی اس بمباری کو ’’ہیرو شیماثانی‘‘ کا نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 12گھنٹوں میں 4 ہزار ایسے گھر مسمار ہوئے جو لکڑی کے تھے بعینہٖ اسی طرح جس طرح افغانستان میں پتھر اور مٹی کے گھروندوں پر ڈیزی کٹر بم برسائے گئے۔
ہزاروں معصوم شہری لقمہ اجل بنے، مینوئیل نوریگا کو گرفتار کرکے امریکہ پہنچا دیاگیااورپانامہ کنال بمع پانامہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ نوریگاکی جگہ ایک نیا صدر دریافت کیا،دور افتادہ علاقے میں واقع ایک امریکی فوجی اڈے فورٹ کلے ٹن (Fort Clayton) میں حلف برداری کی تقریب ہوئی، مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔بعینہٖ جیسے افغانستان، عراق، مصر، لیبیا، یمن وغیرہ میں کٹھ پتلی حکمران ڈھونڈ ڈھونڈ کر بٹھائے گئے۔ پانامہ چونکہ امریکی واحد سوپر پاور بننے کے بعدرعونت کی اٹھان کا نقطہ آغاز تھا چنانچہ آج شام کی جنگ یا شام تک پہنچنے کا امریکی سفر کے انجام کے تجزئیے کے لئے اجمالی جائزہ ضروری تھا۔ کیا امریکہ کو معلوم تھا کہ اٖفغانستان، عراق، یمن، مصر، لیبیا میں کامیاب حکمران تبدیلی آپریشن کے بعد شام گلے کی ہڈی بن جائے گا؟ شام تک جب امریکہ پہنچا تو دنیا یکسر بدل چکی تھی۔ چین نے اپنے مزاج کے برخلاف اکٹر خوانی کی انگڑائیاں لینا شروع کردیں۔ آج چین بے شمار ممالک میں اپنا اثر ورسوخ نافذ کر چکا ہے، پاکستان میں بقائمی ہوش وحواس موجود ہے۔ روس نے جب پچھلے سال کریمیا کو یوکرائن سے کاٹ کر بغیر ڈکار ہضم کیا تو شام کے اندر پھنسے امریکہ کو گھیرنے گھسیٹنے کے خواب بھی دیکھنا شروع کر دئیے۔
شام میں کروفر،طمطراق ، تمکنت سے پہنچ گیا۔ اسلحہ بارود سے لیس ہوائی بحری جہاز کے جلو میں زمین اور قریبی سمندر دونوں کو تصرف میں لاچکا ہے۔ میزائل ڈیفنس سسٹم (S-400) کے ساتھ وسیع وعریض اسلحہ گولہ بارود ، لڑاکا طیارے ، بمبار جہازوں کا انبوہ لگا دیا ہے۔ اپنی ہزیمت اور ذلت کا بدلہ چکانے کی گھڑی اور مقام شام میں ڈھونڈ چکا ہے۔ امریکہ بظاہر جال میں پھنس چکا تھا۔ اسی دورانیہ دیکھتے دیکھتے چین کمال مہارت اور ہوشیاری بحری سلک روٹ ،اقتصادی راہداری اور گوادر کی تزویراتی پورٹ سب کچھ لے اڑا۔ اپنے جنوبی سمندروں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ نے کے بعد کئی جزیروں پر اپنا تسلط قائم کرچکا ہے ۔ ہندوستانی سمندری حدود (IOR) کے کئی حصے چینی کنٹرول میں ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے مئی 2015 میں چائنا اپنی ایک نیو کلیئر سب میرین (YUAN Class) ساوتھ چائنا سمندر سے براستہ خلیج بنگال اور ہندوستانی سمندری حدودسے گزرتی کراچی (IOR)کا دورہ کر چکی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں تہلکہ مچا گئی ہے۔ بحرہند میں ایسے درجنوں واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔آج سائوتھ چائنا سمندر تاشام ، ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
دنیا ایسے آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ چکی جو کسی بھی لمحہ پھٹنے کو۔ ایسے میں ترکی کا شام کی جنگ میں ترکی بہ ترکی حصہ سمجھ اور فہم سے بالاترہے۔صدر طیب اردگان کے لئے بہت احترام ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں ترکی اور عالم اسلام کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ان میں عقل ، دانش، باریک بینی خیرہ کن ہے۔ مگر روس کے جہاز کو گرانا، عقل کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا ۔ ایک ایسی جاری جنگ جو امریکہ بمقابلہ روس اورچین پہلو بدل بدل، نیا رخ اختیار کر چکی تھی۔ اس کو اپنے گھر بلکہ گھر کے پائیں باغ میں گھیر کر لے آنا، کہاں کی دانشمندی ہے ۔
چند ماہ پہلے ہی توترک صدر نے روس کا دورہ کیا ۔ نئے تعلقات کا آغاز سمجھا گیا۔ اسی دورہ پر روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ایک بڑی مسجد کو آباد کیا۔ بظاہر روس خطے کی ساری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے، سعودی عرب سے بھی رابطے میں تھا۔آئے دن امریکہ کے پاس آپشن محدود سے محدود تر ہو رہے تھے۔ ترکی اورروس کی موجود چپقلش ، کہیں بے رحم ، تاریک تاریخ روس کے اوپر دوبارہ منڈلانے کو تو نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کمال مہارت سے روس کو ’’ترکی بہ ترکی ‘‘ جنگ میں الجھا کرخود کپڑے جھاڑ کراس جنگ سے باہرہونے کی راہ ڈھونڈ چکا۔ ترکی نے یہ کیا کر دیا ، روسی بمبار مار گرایا۔ کیا ترکی امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا، امریکی عزائم کا مہرہ بن چکا ہے۔ترکی کا ایک اور حیران کن قدم، موصل (عراق) قطر میں اپنے فوجی اڈے تعمیر کرکے جنگ کا رخ پوری طرح اپنی طرف موڑ چکا ہے۔ ترکی یک دم اتنی جلدی میں کیوں ہے؟ امریکہ روس الائو میں اپنے آپ کو کیوں جھونک رہا ہے۔ لمبے عرصے سے جاری امریکی مزاحمت سے اہم موقع پر پہلو تہی کیوں کرلی۔ وقت قیام تو اب آیا تھا، مانا کہ صدر اردگان کے دلیرانہ اور بے باکانہ فیصلے ایک عرصے سے امریکہ پر گراں گزر رہے تھے، امریکہ صدر اردگان کا عرصہ حیات تنگ کر چکا تھا۔
امریکہ سے خیر کی توقع رکھنا عبث۔ خیر سے بھلائی کی توقع تو کسی بھی بین الاقوامی قوت سے نہیں رکھی جا سکتی۔ البتہ انہی پابندیوں میں عظیم ترکی دریافت کیا جاسکتا تھا، فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ پورا یورپ بمع ترکی اپنی سرزمین پر سینکڑوں (NATO) امریکی اڈوں کی موجودگی میں عملاًمریکہ کے محتاج اور دست نگر تھے۔ یہی موقع تھا کہ روس کے ساتھ مل کر نیا علاقائی معاہدہ تشکیل دیا جا سکتا تھا۔ بعینہٖ ایسے جیسے پاکستان ،چین کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاچکا ہے۔ ترکی کے جارحانہ عمل سے روس، شام میں افغانستان جیسی صورت حال جبکہ ترکی نائن الیون کے بعد والے پاکستان کی جگہ پُر کرنے کوہے۔ کچھ ہفتے پہلے ایسا ہی نقشہ کھینچا تھا۔ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ترکی اپنی مشکلات بلکہ پورے خطے کی مشکلات میں اضافے میں جلدی کر جائے گا۔ آخر ترکی نے اڑتے ہوئے تیرکو بغل میں کیوں دبوچ لیا جو جنگ ہماری نہیں، مسلمان ممالک اس میں باربارکودنے کے لئے بے تاب کیوں۔ ایک دوسرے سے سبق سیکھ لیتے۔

بشکریہ روزنامہ ‘جنگ’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے