خواجہ سرا افراد کے مسائل کا حل کیا ہے؟

تمام انسان برابر ی کے اصول کی بنیاد پر تخلیق ہوئے اور انسانی وقار اور فطری اصولوں کے لحاظ سے برابر ہیں ۔ انسان نے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لئے تاریخ میں تین سنگ میل عبور کئے ۔ مسلمانوں کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کی بات کا تصور سب سے پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے موقع پر پیش کردہ الوداعی خطبہ میں پیش کیا جو کہ ایک مکمل راہنماء خطبہ تھا، جس میں واضع طور پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل، رنگ اور جنس کی بنیاد پر ہر قسم کے تعصب کو ختم کرنے کے ساتھ تمام انسانوں کی مساوات پر زور دیا ہے۔

اس خطبہ میں انسانیت اور انسانوں کے بارے میں ایک بنیادی اصول واضع کیا ہے کہ ہر انسان حق اور وقار کے لحاظ سے برابر ہے ،کسی بھی انسان سے اس کے عقیدے،رنگ و نسل،علاقہ کی بنیاد پر کوئی تفریق یا امتیاز نہیں برتا جائے گا اور ایک اخلاقی کوڈ تقوی کو برتری کا معیار قرار دیا گیا ہے،دوئم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے ذریعہ ان ہی بنیادی انسانی حقوق کی بات کی گئی ہے ،اقوام متحدہ کا عالمی منشور انسانی حقوق کے بارے میں تاریخ کی ایک اہم دستاویز ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ اعلامیہ 10 دسمبر 1948 کو اپنایا اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں پیشرفت ہوئی ہے ، مگر پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور انسانی حقوق کا عالمی منشور ہمیں یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ ہم سب کو برابر کے انسانی حقوق حاصل ہیں اور ہہمیں لازمی طور پر ان کے لئے کھڑے ہونے پڑے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین میں بھی انہی حقوق کو اپنایا گیا ہے جن کی بات پیغمبر اسلام کے اخری خطبہ اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور میں کی گئی ہے ۔ جیسا کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 8 سے 28 تک کی تمام شقیں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہیں ،کسی بھی انسان کے خلاف ہر قسم کے تعصب یا امتیازی سلوک سے روکا گیا ہے ۔

مذکورہ بالا تینوں تاریخی دستاویزات کے ذریعہ انسانی حقوق اور وقار کے تحفظ کے وعدوں کے باوجود اس وقت بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں انسانوں کے خلاف نسل،جنس،ثقافت،،مذہب ،عقیدہ،علاقہ،بیماری یا کمزور سماجی و مالی حالت کے باعث امتیازی برتاو روا رکھا جا رہا ہے اور انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کے سخت تکلیف دہ رویوں کا سامنا ہے ، تیسری دنیا اور خصوصی طور پر پسماندہ ممالک میں ان رویوں کی وجہ سے مختلف طبقات تشکیل پا رہے ہیں، جنہیں کمزور یا محروم طبقات کہا جاتا ہے،سخت گیر سماجی رویوں اور ریاستی سطح پر برابری کے مواقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ طبقات معاشی،تعلیمی اور انسانی وقار کے لحاظ سے شدید ابتری اور بد حالی کا شکار ہیں ،ان طبقات میں خواتین،جسمانی طور پر معذور افراد ،مذہبی اقلیتیں اور خواجہ سرا افراد ،خانہ بدوش اور مہاجرین سرے فہرست ہیں، جنہیں زندگی کے ہر موڑ پر امتیازی سلوک اور نا انصافی کا سامنا ہے، ان طبقات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ خواجہ سرا افراد کا ہے جو اپنے گھر کی دہلیز سے لیکر بازار تک قدم قدم پر امتیازی سلوک اور سخت گیر سماجی رویوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

اگر کسی گھر میں کوئی بچہ پیدا ہو اور معلوم ہو کہ و خواجہ سرا ہے تو معاشرے میں خواجہ سرا کے بارے میں قائم تصور کے باعث یہ خبر ہی خاندان کے لئے سب سے بڑی شرمندگی ثابت ہوتی ہے،والدین کی پہلے تو کوشش ہوتی ہے کہ کسی کو یہ خبر نہ پہنچے کہ ان کا بچہ خواجہ سرا ہے اور بعد میں اگر کسی وجہ سے خاندان میں یا اڑوس پڑوس میں پتہ چل جائے تو والدین اسے گھر سے نکالنے یا گھر چھوڑنے میں ہی سکون محسوس کرتے ہیں ،اس طرح اس کمیونٹی کو بچپن سے ہی امتیازی اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس طرح جب کسی خواجہ سرا کاگھر کی دہلیز چھوڑ کرسماج کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو اسے شدید تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے،کہیں جسمانی اور جنسی تشدد اور استحصال سہنا پڑتا ہے تو کہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے،جب انسانی وقار اور زندہ رہنے کے بنیادی حق کو ہی معاشرہ تسلیم نہیں کر تا تو وہ تعلیم،صحت اور روزگار جیسے بنیادی انسانی حق کا پاس کیسے رکھے گا؟

یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں ٹرانسجینڈر برادری غربت، پسماندگی اور بد حالی کا شکار ہے، انہیں معاشرے کی طرف سے جنسی، ذہنی، نفسیات اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جانا معمول کی بات ہے،جیسا کے اوپر زکر کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے عالمی منشور میں درج ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی ذات، نسل، ثقافت سے بلا امتیاز لطف اندوز ہوں اور اوراسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان میں دی گئی ضمانت کے مطابق بھی تمام شہری برابر کا حق رکھتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈر برادری کو عام طور پر اور خاص طور پر پاکستان میں کم سے کم احترام یا بنیادی انسانی حقوق اور انسانی وقار حاصل نہیں ہے ۔ ملک کے زیادہ تر لوگ انہیں اپنے معاشرے کا ایک حصہ نہیں سمجھتے اکثریت میں خواجہ سرا افراد کے اپنے خاندان کے لوگ بھی کھانا، پینا اور ان کے ساتھ بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے،یہی وجہ ہے کہ برے انسانی رویوں ،بد سلوکی کی اور امتیاز برتنے کی وجہ سے انہیں اپنے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح یکساں طور پر تسلیم نہیں کئے جاتے،پاکستان کے قیام کے بعد مختلف قانون سازیوں میں انہیں با الکل نظر انداز کیا گیا،ستر سالوں تک انہیں کسی گنتی میں شمار نہیں کیا گیا،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ میں ایک فیصلہ میں خواجہ سراء افراد کی شناخت کے ساتھ انہیں اپنا قومی شناختی کارڈ بنانے کے لئے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو حکم جاری کیا تھا۔

جس کی روشنی میں نادرا نے خواجہ سرا افراد کی اپنی شناخت کے ساتھ شناختی کارڈ کا اجراء شروع کیا، مگر تا حال شناختی کارڈ میں جنس لکھانے کے حوالے سے بہت سارے ایسے مسائل موجود ہیں، جن کو خواجہ سرا افراد کی مشاورت سے حل کرنے کی ضرورت ہے،سرکاری ریکارڈ کے مطاق دو ہزار سترہ کی مردم شماری سے پہلے انہیں خواجہ سرا کی شناخت کے ساتھ کبھی بھی شمار نہیں کیا گیا،ہر مردم شماری میں انہیں معذوروں کے خانہ میں شمار کیا جاتا تھا، 2017 کی مردم شماری میں اگرچہ شامل کیا گیا، مگر ان کی تعداد بہت کم بتائی گئی،تعداد کم ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے قومی شناختی نہیں بنے ہوئے ، خواجہ سرا افراد نے مختلف سماجی مسائل کی وجہ سے مرد اورعورت شناخت کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ بنا رکھے ہیں ، اپنی شناخت کے ساتھ خواجہ سرا افراد حج و عمرہ سمیت مختلف مذہبی عبادات ادا نہیں کر سکتے ، انہیں مذہبی امور کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں ۔

پاکستان کے میزان بینک نے مانسہرہ میں ایک خواجہ سرا کارکن نادرا خان کی ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ کمپنی(ہزارہ ٹرانسجینڈر ایسوسی ایٹس) کا اکاونٹ کھولنے کے چند روز بعد اس لئیے بند کر دیا کہ بینک کے شریعہ بورڈ نے اعتراض لگایا ہے کہ خواجہ سرا افراد کی آمدن جائز نہیں ہے ،ایک ریسرچ سروے میں خواجہ سرا فراد نے بتایا کہ عام شہریوں کے محلوں میں انہیں کرائے پر گھر یا کمرے کرائے پر نہیں دئیے جاتے کہ مکان مالکان سمجھتے ہیں کہ خواجہ سرا افراد فحاشی پھیلاتے ہیں ،جس کی وجہ سے وہ گندے نالوں کے گرد ایسی جگہوں پر رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں عمومی طور پر کوئی رہنا پسند نہیں کرتا،سروے کے دوران خواجہ سرا افراد نے بتایا کہ جب ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کوئی فوت ہو جائے تو جنازے کے پاس بیٹھے ہوئے بھی لوگ سوالیہ اور طنزےہ نظروں سے دیکھتے ہیں اور مختلف سوالات ، ہوٹنگ اور سخت رویوں کا سامنا رہتا ہے۔

دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق، پاکستان کی مجموعی آبادی 200.96ملین ہے اور ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 10418 ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا صرف 005 فیصد ہے،مگر دوسری طرف پاکستان میں ٹرانسجینڈر کے اصل تخمینے مردم شماری میں بتائے گئے اندازے سے کافی زیادہ ہیں ۔ ٹرانس ویلفیئر یونین کے تخمینے کے مطابق ملک کی مختلف کالونیوں یا کرائے کے مکانوں میں اپنے گرووں یا اساتذہ کے ساتھ 20 لاکھ سے زیادہ ٹرانس جینڈر رہ رہے ہیں اور جنہوں نے اپنی بطور خواجہ سرا شناخت ظاہر نہیں کہ وہ اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں ،سماجی حلقوں کے مطابق آئین پاکستان میں دی گئی بنیادی انسانی حقوق تحفظ کی گارنٹی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ان کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے تاریخی فیصلے کے باوجود اس برادری کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا اور دکھی رکھنا سراسر نا انصافی ہے اور اب تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے خواجہ سرا افراد کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف راءٹس )ایکٹ دو ہزار اٹھارہ کی منظوری دے دی ہے، جس میں بڑے واضع طور پر ہدایات دی گئی ہیں کہ ٹرانسجینڈر کے تحفظ کے لئے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر کمیشن قائم کیئے جائیں ،ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق ،احترام اور تحفظ کے لئے مشاورت سے ہر سطح پرٹھوس قانون سازی کی جائے، ٹرانسجینڈر افراد،سول سوسائٹی تنظیموں ،انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ شفاف ،با معنی اور وسیع مشاورت کے بعد اس قانون کے ضوابط کی فی الفور تشکیل کو یقینی بنایا جائے۔

بین الاقوامی قانون اور معیارات کی روشنی میں پاکستان کے قانونی نظام پر نظر ثانی کی جائے تا کہ اس امر کو ےقینی بنائے جا سکے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات سمیت دیگر امتیازی قوانین ٹرانسجینڈر افراد کے حقوق پامال نہ کریں ،خاص طور پر مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 کو منسوخ کیا جائے اور دفعہ 375 پر نظر ثانی کی جائے تاکہ جنسی زیادتی کی تعریف صنف سے بالاتر ہو کر وضع کی جا سکے،قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کے قانون اور ضوابط میں بھی ترمیم کی جائے تا کہ ٹرانسجینڈر خواتین کے حقوق کو بھی واضع طور پر اس کے دائرہ اختیار میں لایا جا سکے،ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹس کی مشاورت سے صنف کی بنیاد پرتمام امتیازی قوانین میں ترمیم کر کے انہیں انسانی بنیادوں پر درست کیا جائے،اس ایکٹ میں اٹھارہ سال سے کم عمر ٹرانسجینڈر افراد (بچوں ) کے حقوق کے تحفظ اور تھانوں اور جیلوں کی حوالاتوں کے قوانین میں بھی اصلاحات لانے کی ہدایت دی گئی ہے ، اس ایکٹ کو پاس ہوئے بھی ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے مگر صوبوں اور اضلاع کی سطح پر ٹرانسجینڈر یا خواجہ سرا افراد کے ساتھ سماج اور ریاست کے رویوں میں کہیں فرق دیکھائی نہیں دیتا۔

ٹرانسجینڈر افراد کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جنسی استحصال تو عام سی بات ہے مگر اب جسمانی تشدد اور قتل کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں ،گھر سے لیکر سماج اور ریاست کی سطح تک ےہ طبقہ شدید عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہے،حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے سوشل سیکورٹی کے پروگراموں میں اس طبقہ کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا احساس پروگرام،زکواۃ کمیٹی ہو ےا بیت المال کہیں بھی اس طبقہ کے لئے کوئی پیکج یا گنجایش نہیں رکھی گئی،کرونا وباء نے اس طبقہ کو سب سے زیادی متاثر کیا مگر حکومت نے ٹرانسجینڈر طبقہ کے لئے کسی قسم مرعات کا اعلان کیا اور نہ ہی عام شہریوں کو دی گئی مراعات میں انہیں حصہ دار بنایا، جس کہ وجہ سے یہ طبقہ شدید متاثر ہوا، وبائی مرض اور اس کے بعد ملک بھر میں معاشرتی اور تفریحی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہونے اور لاک ڈاؤن اور ہونے والے حکومتی روک تھام کے اقدامات سے خاص طور پر ٹرانس جینڈر برادری کو کافی چیلنجوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے اس طبقہ کی مشکلات اور پریشانیاں دو چند رہیں ۔ ملک میں وبائی امراض نے معاشرے میں پہلے سے موجود ٹرانسجینڈر برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کو بڑھا دیا ہے ۔

اس وبائی امراض کے دوران، پاکستان میں ٹرانس جینڈر برادری کو تکلیف اور چیلنجنگ صورتحال کا سامنا رہا،ہمارے معاشرے میں سماجی عدم مساوات کی وجہ سے کوویڈ 19 کے خلاف معاشرتی ،فاصلاتی پروٹوکول اور احتیاطی اقدامات نے ان کی زندگی کو متاثر کیا ۔ ان کے پاس روز گار کے ایک دو جو مواقع تھے، وہ بھی کھو دئیے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات بشمول کھانا، لباس، رہائش اور صحت کی بنیادی سہولیات برداشت کرنے سے قاصر رہے ۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجویشن اینڈ نالج(SEEK)نے ہزارہ ڈویژن میں مقیم ٹرانسجینڈر اور دیگر محروم طبقات کو امدادی سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے،(SEEK) ٹرانسجنڈر کو با اختیار بنانے کے لئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(HRCP) کے اشتراک سے ٹرانسجیندر کی سوشل انکلوژن پر کام کر رہی ہے جو کہ واقعتا ایک انسان دوست اقدام ہے ۔

تاہم، ان تمام وعدوں کے باوجود وہ پاکستان میں یہ طبقہ محرومی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے ترانسجینڈر کو درپیش زندہ رہنے،تعلیم،صحت،روزگار اورانسانی وقار سمیت ،ان تمام تر مسائل اور معاملات پر حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور کم از کم بی آئی ایس پی، احساس،زکوۃ یا بیت المال یا دیگر سماجی تحفظ کے پروگراموں میں ٹرانس جینڈر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی بقا کو خاص طور پر اس قدرتی وبا کے دوران یقینی بنایا جاسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے