انشائیہ کہیں جسے

ابھی شہر اتنے آباد ہوئے تھے نہ پھیلاؤ میں یہ وسعت آئی تھی۔ دیہات اور گاؤں لوگوں کا مسکن تھا۔دانش، ثقافت، تہذیب اور فنون لطیفہ یہیں سے جنم لیتے تھے۔

کالج یونیورسٹیاں نہ تھیں، مفکر، مدّبر،عالم،کوزہ گر، موسیقار، مصور، مجسمہ ساز اور رقاص وگلوکار اپنے اپنے علم و فن میں یدِطولیٰ رکھنے والے ہوا کرتے تھے۔آبادیاں کم جھاڑ جھنکار زیادہ، پانی شفاف فضا صاف، میل جول زیادہ عداوتیں کم۔

دیہات میں میلے ٹھیلے لگتے یا گاؤں کے بڑے زمین دار کے ہاں شادی بیاہ کا موقع ہوتا تو کہا جاتا ایک عالم ہے جو اُمڈ آیا ہے، بڑے بوڑھے آنکھیں پھیلا کر کہتے ہم نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا ہجوم کبھی دیکھا نہ بڑوں سے سُنا اور۔۔۔ لوگوں کا یہ عظیم الشان ہجوم بمشکل چندسینکڑے افراد پہ مبنی ہوتا۔ وقت نے آگے بڑھنا ہوتا ہے، بڑھتا رہا۔ آبادی بڑھی، شہر بڑھنا شروع ہوئے،آبادی بڑھتی رہی، شہر میگا سٹی بنے، شہر میٹرو پولیٹن۔وہ جو چند سینکڑے انسانوں کا اجتماع ’عظیم الشان ہجوم‘ ہوا کرتا تھا واقعی لاکھوں انسانوں کے اجتماع میں ڈھلنے لگا۔

یہ کرّہئ زمین انسانوں سے پٹنے لگا۔جنگل بیلے سکڑنے لگے۔ انسانی بستیوں کا پھیلاؤ بڑھا تو کھیت کھلیانوں کے سر سبز و شاداب میدان اینٹ سیمنٹ اور لوہے کے جنگلوں میں ڈھلنے لگے۔ سُرمئی و سیاہ تار کُول کی سڑکوں، پُلوں، ریل کی پٹڑیوں اور حدِنگاہ تک پھیلے ہوائی اڈوں نے فطرت کا منظر ہی بدل ڈالا۔ وہ جو چند سینکڑے انسانوں کا اجتماع ’عظیم الشان ہجوم‘ ہوا کرتا تھا اور ایک عالم اُمڈ آتا تھا اس ’عالم‘ کی میم کے ساتھ چھوٹی ی کا دُم چھلا لگنے کی دیر تھی کہ آدمی نے ’عالمی‘ کے وہ وہ رنگ دیکھے جو کبھی کاہے کو دیکھے ہوں گے۔

پہلی عالمی جنگ میں قریباً9.7ملین فوجی اور 10ملین سیو لین لقمہئ اجل بنے۔ فوجیوں کا تعلق جرمنی،آسٹریا، ہنگری اور ترکی سے جبکہ مخالف کیمپ میں فرانس، برطانیہ،روس، اٹلی اور جاپان شامل تھے، 1917میں امریکہ بہادر بھی اس کیمپ میں شامل ہو گیا تھا۔ تہذیب پرور انسانوں کے مہذب معاشروں نے پہلی ’عالمی‘ جنگ کا تباہ کُن منظر پہلی بار نہیں دیکھا تھا۔آگ اور خون کی ہولی تہذیب و تمدن کا منہ چِڑانے کے لئے شانہ بشانہ چلتی آ رہی ہے۔ وہ جو انسانی تاریخ میں سکندر اعظم کے نام سے شہرتِ دوام رکھتا ہے، صرف آٹھ سالوں میں (334 قبل مسیح تا 326 قبل مسیح) تقریباً 115000افرادتہہ تیغ کئے گئے۔ منگولوں نے (1212 تا1279) تقریباً350000 زندگیوں کے چراغ گُل کئے۔ جنگوں کی تاریخ میں ’وار آف فرسٹ کولیشن تا سکتھ کولیشن‘ کا ذکر ملتا ہے (1796 تا1813) سترہ سالہ اس جنگ میں انسانی اموات کی تعداد تقریباً422000 بتائی گئی ہے۔ امریکن سول وار جو1862 تا1864میں لڑئی گئی اس مختصر لڑائی میں تقریباً200000 جوان کام آئے۔غرض یہ کہ غرض مندیوں کے سامنے انسان کی حیثیت ہمیشہ ہی گاجر مولی جیسی رہی ہے۔

پہلی عالمی جنگ کی اس ہولناکی نے با لآخر 1918 میں لیگ آف نیشنز کی بنیاد مہیا کی جس کا بنیادی مقصد دنیا کو کسی نئی جنگ سے روکناتھا مگر 1943میں دوسری عالمی جنگ نے لیگ آف نیشنز کے بنیادی مقصد میں ناکامی سے عالمی رہنماؤں کو دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھنے پہ مجبور کیا۔ دوسری عالمی جنگ کی ہولناک بھٹی میں 56.4 ملین انسانوں کو دھکیلا گیا۔ جرمنی، اٹلی اور جاپان بمقابلہ فرانس، برطانیہ، امریکہ، روس اور کسی حد تک چین اس آگ اور خون کی ہولی کے کھلاڑی رہے۔

چنانچہ 1945 میں یونائٹیڈ نیشنز یا اقوامِ متحدہ معرضِ وجود میں آئی۔اقوامِ متحدہ کی بنیادی روح میں ’اجتماعی سلامتی‘ کو یقینی بنانا ہے چنانچہ اقوامِ متحدہ کے تحت اور بھی عالمی ادارے وجود میں آئے جیسے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس۔(عالمی عدالتِ انصاف)،اس کا کام ریاستوں کے مابین اختلافات کو حل کرنا ہے۔اقوامِ متحدہ نے عالمی صحت اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات بھی تیار کئے ہیں۔ شاید اس کی بہترین مثال 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلان(یونیورسل ڈیکلیریشن آ ف ہیومین رائیٹس) ہے۔ عالمی ادارہٗ صحتبھی اقوامِ متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو 1948 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، انٹرنیشنل بینک فار ریکنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ، جو بعد ازاں ورلڈ بینک یا عالمی بینک بنا۔ ان اداروں کے اصل اہداف عالمی منڈیوں کے تباہ کن اُتار چڑھاؤ پر قابو پانے میں مدد کرنا تھے انہیں یہ یقینی بنانے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے کہ عالمی معیشت متوازن انداز میں ترقی کر رہی ہے۔

دوسری عالمی جنگ نے آج کی فرسٹ ورلڈ کے ممالک کے سربراہوں کو تب یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ آپس کے سر پٹھول سے کیا حاصل، آپس کی ان خون ریزیوں کے بجائے یہ شوق کہیں اور کیوں نا پورا کیا جائے چنانچہ جتنے بھی عالمی ادارے دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آئے ان کے مقاصد تحریر میں جو بھی ہوں عملاً صرف اور صرف فرسٹ ورلڈ کے مفادات کو محفوظ کرنا تھا۔عالمی معیشت متوازن انداز میں ترقی کر تو رہی ہے۔گلوبل ویلج میں ترقی یافتہ ممالک کی ’برانڈ‘ صنعتی پیداوار تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو بھی میسر ہے۔ اس برابری سے انسانی حقوق کا عالمی اعلان کا وعدہ بھی کم و پیش پورا ہو جاتا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک کی مالی مدد کے لئے ’ہر دم تیار‘ رہتے ہیں۔بینک ضابطوں میں نرمی اور ’سیاسی معیشت‘ کے ایسے ضابطوں کے ساتھ کہ مکڑی کا جالا توڑ کر مکھی کا نکل جانا تو شاید ممکن ہو جائے مگر ایک بار جب کسی امریکہ گزیدہ (عراق، لیبیا، افغانستان) نے بحالتِ مجبوری(اور اس حالتِ مجبوری تک پہنچانے میں امریکی ضرورت ہی کار فرما ہوتی ہے)قرض اور مدد لے لی پھر اس چکر اور گھن چکر سے اللہ ہی نکالے تو نکالے مقروض کا نکلنا:

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

وہ خوں جو چشمِ تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے

عالمی عدالتِ انصاف کی کارکردگی کوجانچنے کیلئے صرف فلسطین و کشمیر کا ذکر ہی کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ خطہئ ارض یورپ کا حصہ ہیں؟ وکی پیڈیا کے مطابق 1946سے۱۱نومبر 2019 تک178 کیسز عالمی عدالت کے رُو برو پیش ہوئے گو کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار محدود ہے لہذا کسی ریاست کی طرف سے کسی دوسری ریاست کے خلاف دائر کئے گئے کیس بارے فیصلہ سنانے سے پہلے عالمی عدالتِ انصافکو بہت کچھ سوچنا اور دیکھنا ہوتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کے تحت ہی یہ قائم کی گئی ہے۔ گلوبل ولیج یعنی عالمی گاؤں کے فیوض و برکات سے تو پورا گلوب فیضیاب ہو رہا ہے۔پہلی دنیا کے ممالک کو نئی نئی منڈیوں تک اپنی شرائط پر رسائی درکار تھی، بھلا ہو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا جس نے انٹیلیکچوئیل رائٹس اور اس جیسی اور بہت سی علمی و سیاسی اصطلاحات سے اُن بیچاروں کی یہ مشکل آسانی سے حل کر دی۔ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اقوام متحدہ نے یہاں بھی دونوں ’متحداؤں‘ نے اس موقع پر بھی اپنا عالمی کردار انتہائی خوش اسلوبی نبھایا ہے۔

عالمی شہرت یافتہ ایک کھلاڑی کی کھلنڈرانہ سیاست کے مزے وہ پاکستانی بھی چکھ رہے ہیں جو گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پستے ہیں کے مصداق بے گناہ ہیں۔ اور جو واقعتا گنہگار ہیں، اپنے رب کے حضور گڑگڑا کے معافی کے خواستگار ہیں کہ سمجھنے میں غلطی ہوئی، اے معاف کرنے والے ہماری اس خطا کو معاف فرما دے کہ تو رحیم و کریم ہے اور ہم خطا کار تیرے بندے۔ سُو عالمی کی کاریاں و بدکاریاں عالمی تو ہیں ہی علاقائی اور مقامی سطح پر بھی ہوش ربائیاں کچھ کم نہیں۔ یہ بھی سُننے میں آتا ہے کہ بائیس برس(ویسے بارہ برس بھی کافی ہوتے ہیں)تک جن کے زیرِ تربیت رہے وہ بھی اپنے انتخاب اور تربیت پہ انگشت بدنداں ہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے