مادری زبانوں کی پکار

آج پوری دنیا میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کی اہمیت کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک نے ان زبانوں کو ریاستی سطح پر تسلیم کرکے ان کی ترویج کے لئے اقدامات کئے ہیں۔1999میں یونیسکو نے پہلی مرتبہ اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس پر قرارداد منظور کرلی اور پوری دنیا میں اس دن کو اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں مقامی علاقائی اور مادری زبانوں کا تحفظ اور ترویج ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان کثیر القومی ، کثیرالجہتی اور کثیر السانی ملک ہے اور ایک گلدستے میں موجود الگ الگ رنگ کے پھولوں کی مانند ہے مگر اس خوبصورتی اور تکثیریت کو اب تک استعمال میں نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے ان اقوام اور زبانوں میں احساس کمتری بڑھتی جارہی ہے ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں بالخصوص گلگت بلتستان میں لسانی تکثیریت اور تنوع اس قدر ہے کہ ہر چند کلومیٹر کے بعد ایک نئی زبان سے واسطہ پڑتا ہے۔ پاکستان میں بولے جانے والی زبانوں میں واحد چینی تبتی شاخ سے تعلق رکھنے والی بلتی زبان اور لسانی رشتہ داریوں سے کوسوں دور منفرد زبان بروشسکی بھی پاکستان کے شمال گلگت بلتستان میں پائی جاتی ہے۔ یہی نہیں ہے لسانی درجہ بندی میں گلگت کی شینا زبان کو بھی منفرد مقام حاصل ہے جس کا تعلق داردی زبان کی شاخ سے ہے۔

داردی زبانوں کا حدود اربعہ شاید سرحدوں کا محتاج نہیں ہے اس لئے داردی زبانیں سوات، کوہستان، کشمیر، مقبوضہ کشمیر ، انڈیا اور افغانستان کے علاقوں میں بھی بولے جاتے ہیں۔ شینا زبان کو ان تمام زبانوں کی مرکزی زبان کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ داردی زبانوں میں یہ واحد زبان ہے جسے کسی الگ اکائی کی مرکزی زبان ہونے کاشرف حاصل ہے۔ پاکستان میں بولے جانے والے داردی زبانوں میں کنڑ شاخ کی گوربتی ، دمیلی، چترال کی کلاشہ اور کھوار(یہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں بھی بولی جاتی ہے )، کوہستان اور سوات کی بٹیری، چلیسو، گاﺅری، گاﺅرو، انڈس کوہستانی اور توروالی، شینا شاخ کی شینا، شینا کوہستانی، کنڈل شاہی، پالولہ(افغان بارڈر کے قریب چترال) ساوی، اشوجہ سمیت کشمیری زبان شامل ہے۔ یہ تمام زبانیں اپنے انتظامی اکائیوں میں چھوٹی چھوٹی ہیں اور ان کی نظریں گلگت میں شینا کی جانب مرکوز ہیں جسے صوبے کی سب سے بڑی زبان ہونے اور اردو کے بعد سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔

پاکستان میں مجموعی طور پر کم از کم 70ایسی زبانیں موجود ہیں جو علاقائی طور پر معروف ہیں تاہم ریاستی سطح پر ان کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ سابقہ دو مرکزی حکومتوں کے دور میں اس حوالے سے ایک رکن متحرک رہی اور انہوں نے نجی طور پر ایک بل اسمبلی میں پیش کردیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سندھی، ہندکو،اور سرائیکی زبان کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیکر آئین پاکستان کے دفعہ 251میں ترمیم کی جائے۔ گوکہ اس فہرست میں بھی اکثریتی زبانوں کا نام موجود نہیں تھا تاہم اس بل کو مسترد کردیا گیا ، ماروی میمن صاحبہ نے ایک اور بل کو بھی پیش کردیا مگر روایتی سوچ اس میں رکاوٹ بن گئی۔

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں مقامی زبانوں کی ترویج اور تحفظ کے لئے قابل زکر اقدامات کا آغاز کیا گیا مگر انہیں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاسکا ۔ 2018میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں دوروزہ ادبی فیسٹیول منعقد کرکے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ گلگت بلتستان کی پانچ بڑی زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ دینے اور انہیں نصاب کا حصہ بنانے کے لئے جی بی میں ریجنل لینگویج اکیڈیمی قائم کی جائے گی اور اسی سال صوبائی حکومت نے اس مقصد کے لئے 6 کروڑ کی رقم بھی مختص کردی جبکہ ریجنل لینگویج اکیڈیمی کے آسامیوں کو مشتہر بھی کیا گیا تاہم بعد ازاں بارہا نشاندہی اور یاددہانی کے باوجود مادری زبانوں کی فائل سرخ فیتے سے باہر نہیں نکل سکی ۔

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر زبان اپنے وجود میں وسیع علوم چھپائے رکھتی ہے جن کی ترویج اور تحفظ نہ ہونے سے یہ علوم بھی زبان کے ساتھ ہی دنیا کے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ لسانی قواعد کا ایک سماجی قانون یہ ہے کہ بڑی زبانیں چھوٹی زبانوں کو کھاجاتی ہے ۔ ملکی سطح پر دیکھا جائے تو ہمیشہ اردو زبان انگریزی زبان سے لڑتی نظر آتی ہے اور قانون سازی ہونے ، احکامات جاری ہونے کے باوجود کماحقہ اردو کو لاگو نہیں کیا جاسکا ہے اسی طرح علاقائی زبانیں اردو کا متبادل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان میں مقامی زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم اور اعتراف کیا جائے تو اس کاسامنا اردو زبان سے ہی ہونا ہے لیکن یہی سماجی رویہ ماضی میں ہم نے ان زبانوں کے ساتھ اپنایا جو نسبتاً کمزور واقع ہوگئی جن میں ڈوماکی زبان موجود ہے اور ہمارے سماجی رویہ کی وجہ سے یہ زبان سکڑ کر چند افراد تک محدود ہوگئی ہے جو صرف سمجھ سکتے ہیں ۔

گلگت بلتستان میں بولی جانے والی پانچ بڑی زبانوں میں شینا، بلتی ، بروشسکی ، کھوار اور وخی شامل ہیں جبکہ یہاں پر گوجری سمیت دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ بلتی زبان کے بولنے والوں نے اپنی زبان کی بڑی قدر کی ہے اور سالانہ ان کی کتب بھی چھپ رہی ہیں اور حال ہی میں علامہ اقبال کے منظوم کلاموں کا ترجمہ بلتی زبان میں احسان علی دانش نے کیا ہے۔ بروشسکی اور وخی زبان سماجی میڈیا /ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا لیکر مزید مضبوطی کی جانب گامزن ہے جبکہ کھوار زبان کو چترال سے کمک مل رہی ہے ۔ شینا زبان کا اکثریتی دارومدار اس شاعری پرہے جسے موسیقی کی شکل دی گئی ہو اور لازمی نہیں کہ ایک شاعر شاعری کے دوران زبان کی ترویج اور فروغ کے تصور کو زہن میں رکھے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ شینا میں پہلی کتاب 1956میں چھپی جبکہ دوسری کتاب جناب امین ضیاءصاحب نے ’سان‘ کے نام سے چھاپی جو شینا شاعری پر مشتمل ہے۔

گزشتہ سال حکومت نے گلگت بلتستان کے مجموعی معاملات پر ایک جائزہ جاری کیا مگر بدقسمتی سے اس سرکاری اعداد و شمار میں بھی لسانی درجہ بندی کو حذف کردیا گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مقامی زبانوں کی ترویج اور تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے ۔ گلگت بلتستان حکومت کے لئے اس حوالے سے خیبرپختونخواہ کا ماڈل میسر آسکتا ہے جہاں پر ثقافتی اور لسانی تحفظ کے لئے قابل قدر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

گلگت بلتستان کے زبانوں کا ایک بڑا ریکارڈ ریڈیو پاکستان کے پاس ہے جہاں تقریباً1960سے مقامی زبانوں پر مختلف امور پر ریکارڈنگز ہوئی ہیں اور انہیں نشر کیا گیا ہے یہ ایک بڑا ریکارڈ ہے جس کو تحفظ دیکر حکومتی تحویل میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے استفادہ کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے