نظریہ ضرورت کس کی ضرورت ؟

یہ سوال سب کا پیچھا کر رہا ہے اور اس کو جاننے کی کوشش کرتا ہے ، ہماری تاریخ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر نہیں لکھی گئی ۔۔ جنہوں نے اس پیارے پاکستان کی تاریخ لکھی وہ مورخ گریڈوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا اور جو جس نے چاہا فدوی نے وہی لکھ کر سامنے رکھ دیا ۔۔ ہماری نوجوان نسل کو اس تاریخ سے بے خبر رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔۔ آج کل آئین پر بات ہو رہی ہے تشریح کرنے والوں کو بھی یہ سوجھی ہے کہ یہ فلاں شق خاموش اس کی تشریح لازمی ہے ؛؛ خبردار کہیں ایسا نہ ہو کہ تشریح کرتے کرتے اس کی روح زخمی نہ ہوجائے ۔۔

پاکستان میں جب بھی حکمران کو ضرورت پڑی اس کی تشریح کے بہانے اس کا (آئین)اصل چہرہ مسخ کیا گیا ۔۔ یہاں جو کوئی بھی برملا بات کرتا ہے اس کے منہ بند کیا جاتا ہے ، اس کے لیے ہر بندے کے لیے الگ الگ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔۔ کسی کو گھر بھیجنا ہے یا اس کو مزا چکھانا مقصود ہو تو اس کے لیے عدالت کا سہارا لیا جاتا ہے جو یہ کام یہ اپنے پیش رو سے بڑی مہارت سے سیکھ چکے ہیں ۔۔

جسٹس منیر کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نظریہ ضرورت سے کام لیا اور اس کو زندہ جاوید رکھا ۔۔

عدلیہ سے بڑا کام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینا اس پر عمل کیا گیا ، بعد میں آآوازیں آنے لگیں انہی ججز کے ذریعے یہ ایک عدالتی قتل قرار دیا گیا ہے ، بندہ پھانسی لگ گیا پھر آواز آئی تو کیا بات ہوئی ۔۔ خود اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس پاکستان مرحوم نسیم حسن شاہ نے ایک آئینی درخواست کی ابتدائی سماعت کے دوران کہا تھا کہ میں جسٹس منیر نہیں بنوں گا ، اس جج نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کا قتل ایک عدالتی قتل تھا ۔۔ سیاسی تاریخ سے لگاو رکھنے اس سے پوری طرح باخبر ہیں ۔

کسی نے پی سی او پر حلف لے کر باقی کام میں آسانیاں پیدا کردیں ۔۔ اس کی مثال ماضی مین جسٹس ارشاد حسن خان جس نے مشرف کو تین سال دے دیے اور رٹائرمنٹ کے بعد اپنی نوکری پکی کر لی ۔۔ چیف الیکشن کمشنر بن گئے، وہ تین سال نظریہ ضرورت تھے ۔۔ اس فیصلہ میں انقلابی جج افتخار چودھری بھی شامل تھے ۔۔

اس کے بعد آنے والے جج صاحبان نے ماضی کی روایت کو قائم رکھا ان میں جسٹس ثاقب نثار نے جے آئی ٹی بنوائی ، ریمارکس ایسے آتے تھے کہ ان سیاستدانوں کو کچا چبا جائیں ۔۔ اس جج صاحب کو باقی ججوں کی طرح ملازمت بحال کیا گیا ماضی میں اس کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا گیا ۔۔ جو فیصلہ اور رویہ رہا وہ سب کے سامنے ہے ۔۔

سینیٹ انتخابات اوپن ہونے چاہیں یا اس کو مروجہ قانون کے تحت کے سیکرٹ رکھا جائے ۔۔

ایک بار پھر نظریہ ضرورت کی گونج ہے ، اب کی بار اوپن یا سیکرٹ ووٹ موضوع بحث ہے ۔۔ ماضی میں بھی نظریہ ضرورت کا استعمال ہوا ۔۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ نظریہ ضرورت کا گٹھ جوڑ کہاں پر ہے ۔۔ کیا آزاد عدلیہ اب خواب بن جائے گی ! جمہوریت کو ایک بار پھر صحرا میں چھوڑ دیا جائے گا ۔۔ آئین پر جب بھی کوئی شب خون مارا گیا اس میں عدلیہ کا کردار کلیدی رہا ہے اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں ؟

یہ سوال ذہن میں پیدا ہو رہا ہے کہ نظریہ ضرورت کی کس کو ضرورت ہے ؟ ۔۔ ایک نظریاتی ملک میں نظریہ ضرورت اور قومی مفاد کی تشریح تو ہم کر نہیں سکے ، یہ معاملات جن کو اس وقت دفن ہونا چاہیے تھا جب یہ سامنے آیا ، اس وقت بھی شاید ہم میں جرات اور قائدانہ صلاحتیوں کا فقدان تھا ۔۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس گٹھ جوڑ میں کون سے کردار ہیں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ان سے فیصلے لیتے ہیں ۔۔ افراد کے کیے دھرے کی سزا قوم اور ملک کو نہ دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھٹک کر اس نظام سے کہیں بہت دور نہ نکل جائیں اور پھر ہاتھ ملتے اور افسوس کرتے رہ جائیں ۔۔ آپ فیصلہ جو بھی دیں حقائق اور حالات کو مد نظر رکھ کر دیں ۔۔ تاریخ میں اچھے اور برے کرداروں یاد رکھا جاتا ہے آپ کو مستقبل میں کس طرح یاد رکھا جائے اس کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے ۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے