ادب المفتی والمستفتی لابن الصلاح

امام حافظ محدث شیخ الاسلام تقی الدین ابوعمروعثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن الصلاح الکردی الشھرزوری الموصلی الشافعی کی تالیف ہے جو ڈاکٹر موفق بن عبداللہ عبدالقادر کی تحقیق کے ساتھ ’’ مکتبۃ العلوم والحکم ،عالم الکتب ‘‘ نے شاءع کی ہے،کتاب کی عظمت واہمیت کو سمجھنے کے لئے فقط یہ بات ہی کافی ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے ’’ادب الفتوی والمفتی والمستفتی ‘‘ کو ابن الصلاح کی ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ کا خلاصہ قرار دیا ،نیز شیخ حمدان الحرانی الحنبلی نے ’’ صفۃ الفتوی والمستفتی ‘‘ کا اسے باقاعدہ حصہ بنایا اور علامہ ابن القیم نے بھی ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں جابجا اس سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اسے اپنی ابحاث کا حصہ بھی بنایا ،چنانچہ ڈاکٹر موفق بن عبداللہ رقمطراز ہیں :

’’قال النووی : ’’ وقد طالعت کتب الثلاثۃ ولخصت منھا جملۃ مختصرۃمستوعبہ لکل ماذکروہ من المہم وضممت الیھا نفائس من متفرقات کلام الاصحاب وباللہ التوفیق ‘‘ ثم جاء الامام احمد بن حمدان الحرانی الحنبلی فاخذ کتاب ابن الصلاح وضمہ فی کتابہ (صفۃ الفتوی والمستفتی ) ثم جاء الامام شمس الدین محمد بن ابی بکرالدمشقی المعروف بابن قیم الجوزیۃفاخذ کتاب ابن الصلاح وضمہ فی کتابہ (اعلام الموقعین عن رب العالمین ) ‘‘ ۔ ( ادب المفتی والمستفتی ،ص۶،ط: مکتبۃ العلوم والحکم ،عالم الکتب)

ترجمہ : ’’ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے تینوں کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان تینوں کی اہم مباحث کا استیعاب کرتے خلاصہ پر مبنی تلخیص کی اور اس کے ساتھ کچھ دیگر اصحاب کے متفرق کلام کی نفیس ابحاث کا اضافہ کیا ،اللہ ہی کی جانب سے توفیق ہوتی ہے ،پھر امام احمد بن حمدان الحرانی الحنبلی نے اپنی کتاب ’’ صفۃ الفتوی والمستفتی ‘‘ کا اور علامہ ابن القیم نے اپنی کتاب ’’ اعلام الموقعین عن رب العالمین ‘‘ کا ابن الصلاح کی اس کتاب کو چند دیگر اضافات کے ساتھ حصہ بنایا ‘‘ ۔

اس نوع کی عبقری شخصیات کا ابن الصلاح کی ادب المفتی کی طرف متوجہ ہونا ہی اس کتاب،صاحب کتاب اور اسکے مشمولات کے بلند معیار کی وافی دلیل ہے ۔ خود ابن الصلاح اپنی کتاب کے مشمولات پر کیا فرماتے ہیں ; ذرا دیکھیے :

’’ افصح فیہ ان شا اللہ العظیم عن شروط المفتی واوصافہ،واحکامہ ،وعن صفۃ المستفتی واحکامہ وعن کیفیۃ الفتوی والاستفتاء وآدابھما جامعا فیہ شمل نفائس التقطھا من خبایا الروایا وخفایا الزوایا،ومھمات تقر بھما اعین اعیان الفقھاء ویبادر التی تحصیلھاکل من ارتفع من قدرھا من کثرت مطالعاتہ من الفھماء ویبادر التی تحصیلھاکل من ارتفع عن ( خضیض) الضعفاء ،مقدما فی اولہ بیان شرف مرتبۃ الفتوی،وخطرھا ،والتنبیہ علی آفاتھا وعظیم غررھا ،لیعلم المقصر عن شاوھا ،المتجاسر علیھا انہ علی النار یجرا ویجسر،ولیعرف متعاطیھا المضیع شروطھا انہ لنفسہ یضیع ویخسر ،ولیتقاصر عنھا القاصرون الذین اذا انتزوا علی منصب تدریس ،او اختلسواذروا من تقدیم وترئیس ۔ وجانبوجانب المحترس ،ووثبوا علی الفتیا وثبۃ المفترس ‘‘ ۔ (ادب المفتی والمستفتی ،ص۰۷ ، ط: مکتبۃ العلوم والحکم ،عالم الکتب )

ترجمہ : ’’ میں اس میں ان شاء اللہ مفتی کی شروط ،اوصاف واحکام ، مستفتی کی صفات واحکام اور فتوی واستفتاء کی کیفیات وآداب بیان کروں گانیز اس میں ایسی نفیس ، اہم ومھمات عندالقھاء مباحث کوبھی جمع کیا ہے جن میں وسیع المطالعہ فھماء ودلچسپی رکھنے والے اہل علم نہایت سرعت واہتمام کے ساتھ متوجہ ہوں گے،کتاب کے ابتدائی حصے میں فتوی کے شرف ،عظمت و مرتبت پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز تنبیہات ووعیدات بھی ہمراہ ذکر کیں تاکہ جری وجاھل کو اس مہتم بالشان کام میں ہاتھ مارنے سے روکا جاسکے ‘‘ ۔

حافظ ابن الصلاح نے اس کتاب کو فقھاء ومحدثین کے اسلوب کا جامع بنایاکیونکہ آپ خود بیک وقت فقیہ ومحدث تھے ،علوم الحدیث میں ’’ المقدمۃ ‘‘ اور’’ صیانۃ صحیح مسلم ‘‘ آپ ہی کی علمی کاو ش ہے ، اور پھر فقہ میں آپ کی جلالت شانی سے کسے انکار ہوسکتا ہے,

آپ کے حدیثی وفقھی اسلوب کی نظیر کتاب کے ایک باب ’’ بیان شرف حرمۃ الفتوی وخطرھا وغررھا ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے،مصنف نے اس باب میں نہ صرف یہ کہ ائمہ کے اقوال سند کے ساتھ ذکر کیے بلکہ مفتی ومستفتی کے عنوان پر اس سے پہلے جن محدثین نے خامہ فرسائی کی ان سے بھی خوب استفادہ کیا ،چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی ’’ الفقیہ والمتفقہ ‘‘ اور امام ابن عبد البر کی ’’ جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ خاص طور پر اس باب میں مصنف کے پیش نظر رہیں ،خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور امام ابن عبد البررحمہ اللہ کا مذکورہ بالا دونوں کتابوں میں تالیفی ذوق یہ رہا کہ وہ فقط فقہاء واصولیین کے اقوال ہی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ اولا مسئلہ ذکر کرتے ہیں ،پھر اس پر حدیث لاتے ہیں یا اثرصحابہ ،تابعین وتبع تابعین یا اقوال ائمہ معتبرین سے استدلال کرتے ہیں ،علامہ ابن الصلاح اس فصل میں تو اس حد تک خطیب بغدادی اور ابن عبد البر سے مستفید نظر آتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فصل بعینہ ’’ الفقیہ والمتفقہ ‘‘ اور ’’ جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ سے لے کر قائم کر لی گئی ہو ۔

حدیثی اسلوب کی مزید ایک نظیر یہ بھی ہے کہ مصنف رحمہ اللہ محدثین کی طرح جابجا روایات کے الفاظ ضبط کرتے بھی نظر آتے ہیں ،جیسے کہ ’’ المسئلۃ السادسۃ عشر ‘‘ میں ابوبکر محمد بن داود الاصبھانی الظاھری کی نقل کردہ روایت میں ایک راوی ’’ ابوالعباس الخضری ‘‘ کا جب صفحہ نمبر ۴۳ پر تذکرہ آیا تو ’’ الخضری ‘‘ کا ضبط یوں بیان فرمایا

’’ فاعلم ان ابا العباس الخضری : ھذا ھو بخاء معجمۃ مضموۃ وبضاد معجمۃ مفتوحۃ ‘‘ ۔

جہاں تک فقھی اسلوب کا تعلق ہے تو وہ فقھی واصولی مصادر سے اخذ کردہ کثیر اقتباسات سے واضح ہے ،اور بیان کردہ مسائل میں ائمہ فقھاء کی ذکرکردہ آراء سے بھی واضح ہے چنانچہ بعض مسائل میں اختلافات ذکر کرتے ہیں اور اکثر اقوال کے درمیان ترجیح بھی قائم کرتے ہیں ، چونکہ ابن الصلاح شافعی المذھب ہیں اس لیے وہ اپنے مذھب کو اہتمام کے ساتھ دیگر مذاھب پر فضیلت دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک موقع پر یہاں تک فرمادیا :

’’ ولما کان الشافعی قد تاخر عن ھولاء الائمہ ونظر فی مذاھبھم نحو نظرھم فی مذاھب من قبلھم ،فسبرھا وخبرھا وانتقدھا واختار ارجحھا ووجد من قبلہ قد کفاہ مونۃ التصویر والتاصیل فتفرغ للاختیار والترجیح والتنقیح والتکمیل مع کمال آلتہ وبراعتہ فی العلوم وترجیحہ فی ذلک علی من سبقہ ثم لم یوجد بعدہ من بلغ محلہ فی ذلک کان مذھبہ اولی المذاھب بالاتباع والتقلید ‘‘ ۔ ( ادب المفتی ،۳۶۱،۴۶۱)

ترجمہ : ’’ چونکہ امام شافعی ان تمام ائمہ کے آخر میں آئے اور انہوں نے اپنے ماسبق تمام ائمہ کے مذاھب میں خوب غوروحوض ،جانچ پرکھ اور تنقید وتنقیح کے بعد راجح ومکمل اقوال کو اختیار کیا پھر آپ کے بعد کوئی آپ کی سطح کا مجتھد چونکہ نہیں آسکا اس لیے آپ کا مذھب دیگر تمام مذاھب کی بنسبت اتباع وتقلید کے لیے اولی وبہتر ہے ‘‘ ۔

ابن الصلاح صرف مذھب شافعی کی تفضیل پر ہی اکتفاء نہیں فرماتے بلکہ ان کے نزدیک امام شافعی پر اجتھاد کا دروازہ بھی بند ہوگیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ

’’وقد ذکر بعض الاصولیین منا انہ لم یوجد بعد عصر الشافعی مجتھد مستقل ‘‘ ۔ (ص۶۳)

چنانچہ امام ابویوسف ،امام محمد ،امام مزنی ،اور ابن سریج سے متعلق خاص طور پر اختلاف نقل فرمایا کہ وہ مجتھد مستقل ہیں یا مجتھد فی المذھب ۔۔۔۔۔

شافعی المذھب ہونے کے باوجود آپ سے دیگر ائمہ نے خوب استفادہ فرمایا چنانچہ علامہ ابن حمدان حنبلی اور ابن القیم باوجودیکہ حنبلی ہیں مگر علامہ ابن الصلاح سے خوب استفادہ کرتے نظر آتے ہیں ،اس کی وجہ اہل علم کی آپسی قدردانی ،باہمی محبت ومودت،تعاون وتواصل اور اخلاص وللھیت کے سوا کچھ نہیں ۔

کتاب ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ درحقیقت افتاء سے متعلق جملہ اغراض ومقاصد کو جمع کرنے والی بے نظیر کتاب ہے ،محقق موفق بن عبد اللہ کہتے ہیں

’’ وکتاب ابن الصلاح ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ ھو واحد من ھذہ المصنفات التی وفت ھذہ الاغراض کلھا فخدمت المفتی والمستفتی وھو حلقۃ وصل بین الاجیال المتقدمۃ والاجیالالمتاخرۃ ‘‘ ۔ ( ص۹، ط : مکتبۃ العلوم والحکم ،عالم الکتب)

ترجمہ : ابن الصلاح کی کتاب ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ یہ ان کتابوں میں سے واحد کتاب ہے جس نے موضوع سے متعلقہ جملہ اغراض پر بکمالہ بحث کرتے ہوئے متقدمین ومتاخرین کے لئے حلقہ وصل بننے کا کردار ادا کیا ‘‘ ۔

ابن الصلاح فتوی کے موضوع پر قلم اٹھانی والی کوئی پہلی شخصیت نہ تھے بلکہ اس سے بیشتر بھی متعدد فقھاء ومحدثین اس عنوان پر خامہ فرسائی فرماچکے تھے ،ابن الصلاح اس کتاب میں اپنے متقدمین سے کماحقہ مستفید نظر آتے ہیں ،جن کتب سے ابن الصلاح نے خاص طور پر استفادہ کیا وہ درج ذیل ہیں :

۱ ۔ ابوالقاسم عبدالواحد بن الحسین الصیمری کی ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘

۲ ۔ ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی کی ’’ ادب الدین والدنیا‘‘

۳ ۔ علامہ ماوردی ہی کی ’’ الحاوی ‘‘

مصنف نے علامہ ماوردی کی ’’ ادب الدین والدنیا ‘‘ اور’’ الحاوی ‘‘ سے کئی مقامات پر استفادہ کیا مگر حوالہ نہیں دیا ۔

۴ ۔ ابوالمعالی عبد الملک بن عبد اللہ بن یوسف بن محمد جوینی کی ’’ الغیائی ‘‘

۵ ۔ علامہ جوینی ہی کی ’’ النھایۃ‘‘ اور ’’ شرح رسالۃ الشافعی ‘‘

مصنف نے علامہ جوینی کی ’’ الغیائی ،النھایۃ اور شرح رسا لۃ الشافعی ‘‘ سے بھی جابجا استفادہ کیا مگر حوالہ کی تصریح کہیں نہیں فرمائی ۔ اسی طرح دیگر کتب میں ابن نصر کی ’’ الشامل ‘‘ امام مزنی کی ’’ المختصر ‘‘ الکیا الھراسی کی ’’ اصول الفقہ ‘‘ علامہ بغوی کی تعلیقات کے ساتھ’’ فتاوی مروروزی‘‘ ابن عبد البر کی ’’ جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ خطیب بغدادی کی ’’ الفقیہ والمفتقہ ‘‘ ابو عبداللہ المالکی کی ’’ مناقب ابی الحسن ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ ذیادہ تر استفادہ ابوالقاسم الصیمری کی ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ اور خطیب بغدادی کی ’’ الفقیہ والمتفقہ ‘‘ سے کیا ،

ابن الصلاح نے متعدد فقھاء کی آراء کو بھی ذکر کیا اور نہ صرف ذکر کیا بلکہ ان میں ترجیح بھی دی اور بعض مسائل میں اپنی مستقل آراء کا اظہار بھی کیا ،کتاب میں متعدد مقامات پر اس کی نظائر ملتی ہیں ۔۔۔۔۔

الغرض ابن الصلاح کی ’’ ادب المفتی والمستفتی ‘‘ لاریب کہ اپنے عنوان پر ایک خوبصورت کام ہے جو اس فن کے متعلقین کو بنیادی ولابدی استعداد فراہم کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے