ملک میں جب بھی الیکشن کی بات ہوتی ہر ایک اپنی اپنی بات کرتا ہے ، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے من پسند نظام یا اس نظام کی بات کرتا ہے جو اس کو سنائی یا بتائی جاتی یعنی کولہو کے بیل کی طرح بغیر سوچے سمجھے اس کی تقلید کرتا ہے ۔۔ نظام کوئی بھی ہو اس کو چلانے کے لیے نیت کا نیک ہونا ضروری ہے ۔۔ قیام پاکستان سے اب تک ہم نظام کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں جو ابھی تک ہمیں نہیں مل سکا ۔۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظام بنانے یا اس کو بہتر کرنے اور چلانے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟ اس کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ۔۔ پاکستان میں جو بھی حکمران آیا اس نے کبھی اکثریت کے بارے میں نہیں سوچا جس کا ووٹ لے کر ایوان میں آتا ہے قانون سازی کرتے وقت ہمیشہ اپنے مفاد اور اقتدار کو طول دینے کو پیش نظر رکھتا ہے ۔۔ مارشل لا ہو یا سیاسی حکومتیں وہ کسی نہ کسی طرح مصلحت کا شکار رہی ہیں۔۔ ہر دہائی میں گھر بھیجنے کا اپنا اپنا طریقہ صورتحال کے مطابق بنایا گیا ، کسی کو 58 ٹو بی، کسی کو خط نہ لکھنے پر اور 62 اور 63 دفعات لگا کر چلتا کیا گیا یہ کھیل کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے ۔۔
ایک سادہ پاکستانی جس کو کسی سے کوئی غرض نہیں ، جو رضا پر راضی اور خوش نظر آتا ہے ، وہ ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا خواب دیکھتا ہے اب تک اس کو کوئی خیر کی خبر نہیں ملی ۔۔ کافی عرصے بعد اس دیوانے سے ملاقات ہوئی میں پوچھا سناو کیا کر رہے ہو، زندگی کیسی گذر رہی ہے ۔۔
بلا جھجھک بولا میرا کیا پوچھتے ہو بس ایک فکر کھائے جا رہی ہے میرے پیارے وطن کا کیا بنے گا ۔۔
میں نے کہا ہر پانچ سال بعد الیکشن ہو رہے ہیں نئی حکومت بن جاتی ہے ملک میں ایک آتا ہے پھر دوسرا ، یہ کاروبار زندگی چل رہا ہے ۔۔
دیوانہ بولا ، آتے ضرور ہیں اس میں میرا ووٹ بھی ہوتا ہے ، جب پہیہ چلنے لگتا ہے پھر سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔۔
میں کہا دیوانے آپ ملک کو کیسے چلتے دیکھنا چاہتے ہیں ؟ آج تو بولے گا اور میں سنوں گا ، کیا تبدیلی لائے جائے کہ کسی کو اعتراض نہ ہو ۔۔
تھوڑی سی خاموشی کے بعد وہ شروع ہوا۔
دیوانہ بولا ، ہر پانچ سال خرچہ کر کے الیکشنن کرائے جاتے ہیں ، کسی کو ان الیکشن کے بدولت خوش نہیں دیکھا میں 1985 سے ووٹ دینے کا اہل ہوں آج ہم 2021 میں ہیں، اس میں ہر ایک اپنا اپنا تجربہ کیا کبھی گاڑی دائیں موڑی جاتی رہی تو کبھی بائیں جانب، اس طرح ملک کو قائم ہوئے ستر سال کا عرصہ گذر گیا ہے، اس میں کئی نشیب فرازآئے اب تو آپ شبلی فراز بھی دیکھ رہے ہیں ۔۔ ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے سب اپنی اپنی ڈفلی بجا کر آتے رہے ، مجھے کوئی ایک نام یا نظام نہ دے سکے ، ہم ایڈہاک ازم کا شکار رہے ہیں ، ہمارے نمایندے خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اپنا اپنا ایجنڈہ عوام کی مرضی کے برخلاف تھوپنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔۔ ایسا لگ رہا ہے ہم نے خود اس کو پننے نہیں دیا اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے ۔۔ ہاں ایک بات ضرور ہوئی ہے اور آج تک دیکھ رہا ہوں ، ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کے لیے کسی پس پیش سے کام نہیں لیتے ۔۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا جس میں کسی کو نیچا دکھانے کے لیے تمام توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں ۔۔ یہی حال ہمارے اداروں کا ہے کسی بھی ادارے کی کوئی کل سیدھی نہیں ۔۔ ایسا کیوں ہے؟
میں کہا اس میں کیا تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ؟
دیوانے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے پانی کا ایک گھونٹ حلق سے اتارا ، پھر بولے ، ہم نے کبھی اس ملک میں قانون سازی کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہی نہیں ، ملک کی ترقی اس وقت ہوگی جب میں نے (قانون سازی کرنے والے ) یہ طے کرلیا ہے کہ اب قانون سازی اقلیت کے لیے نہیں اکثریت کے فائدے کے لیے کی جائے گی، اب تک ہم ترقی کیوں کر نہیں کر پائے ہم کبھی بھی سیدھے راستہ پر نہیں جانے دیا گیا ، جہاں ہم نے کچھ کرنا چاہا وہاں سے ہمارا کانٹا تبدیل کر کے دوسرے ٹریک پر ڈالا گیا ہم کئی سال تک بھٹک جاتے ہیں ، ہمیں کانٹے والے ٹھیک رکھنے چاہیں تاکہ کسی بڑے حادثہ کا شکار نہ ہوں ۔۔ ہمیں اس کا جائزہ بھی لینا ہوگا کہ جو گاڑی مجھے دی گئی ہے وہ منزل تک کیوں نہیں پہنچ پاتی، اس کی کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ اس کی انجن کے ساتھ کسی کوئی حرکت تو نہیں کی ، آپ سنا ہوگا کہ گاڑی کی انجن میں ایک پاو کے قریب چینی ڈال دیں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا اس گاڑی کا انجن سیز ہوجائے گا نہ آگے جانے کے قابل اور نہ ہی پیچھے واپس جانے کا کوئی چانس ۔۔
دیوانے الیکشن کیسے شفاف کرائے جا سکتے ہیں جس میں سب کو برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کیے جائیں ؟
دیوانہ بولا ہم ایک دوسرے کو عرصہ سے جانتے ہیں الیکشن کا ماحول بنادیا جاتا ہے ، کیا ہم نے یہ نہیں دیکھا اس وقت سالوں پہلے انتقال کرجانے والے کے عزیزوں سے تعزیت کا سلسلہ شروع نہیں کیا جاتا ، یہ بھی دیکھا ہے پرانی رنجشیں دور کرنے کا ایک بہانہ مل جاتا ہے ، اور ساتھ دینے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔۔ تو سنو ملک کا نظام کیسا ہو؟ میری کہی ہوئی بات میں کوئی غیر جمہوری اور غیر آئینی بات نہیں ، مسئلہ ہمارے ہاں صرف ایک ہے ہم میں نہ جرات ہے اور نہ ہی ہماری نیت نیک ہے ، ستر سال کے بہت تلخ حقائق ہیں اب ہمیں ان کو ایک طرف رکھنا ہوگا، اس بلیم گیم میں رہے تو ہمیں کچھ حاصل نہ ہوگا سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹنا بے سود ہے ۔۔ ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے آگے جانا ہے یا سب کو اپنے حال پر چھوڑنا ہے ! کیا وجہ کہ وہی چہرے گھوم پھر کر سامنے کیوں آتے ہیں ؟ اس کی سادہ سی وجہ ہے تمام جماعتوں میں ایک ٹولہ دوسرے کو آنے نہیں دیتا وہ اس لیے کہ ان کے مفادات ایک ہیں اور وہ اس میں شراکت داری چاہتے ہیں ، کوئی چھ ، سات مرتبہ ایوان آجاتا ہے اس کو اپنے مفاد زیادہ عزیزہوتے ہیں وہ کسی بات کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا ، الیکشن گذر جاتے ہیں مگر اس کی گونج مدتوں بعد بھی سنائی دیتی ہے اب اس روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔۔
دیوانے آپ نے کئی مسائل اور معاملات کی نشاندہی کی ہے ، اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے ؟
دیوانہ بولا میں نے الیکشن لڑنا نہیں ، البتہ یہ سوچ ضرور ہے کہ چند آئینی ترامیم کر کے اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ، اس میں ان کے مفادات کو ذک پہنچے گی مگر نظام چلانا ہے اور آگے بڑھنا ہے تو کڑوا گھونٹ جس قوم سے ووٹ لیا جاتا ہے اس کی خاطر یہ پینا پڑے گا ۔۔ میری یہ بات شاید چند ناعاقبت اندیش تجزیہ کاروں کو گراں گذرے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس میں کوئی غیر آئینی بات نہیں ۔۔ پاکستان پارلیمانی جمہوری نظام ہے مگر ووٹ کا طریقہ ایسا ہے جس میں ہارنے اور جیتنے والے دونوں شاکی نظر آتے ہیں ۔۔
ووٹ کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے یعنی وہ ووٹ جو عوام دیتا ہے کسی امیدوار کو نہیں بلکہ پارٹی کو دے ، اس کے دو فائدے ہیں اس میں تمام ووٹ گنے جائیں گے اور اس تناسب سے نشستوں کی الاٹمنٹ کی جائے ۔۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ایک جماعت کو زیادہ ووٹ ملے مگر نشستین کم تھیں ۔۔ جس بھی صوبے میں جو جماعت زیادہ ووٹ لے گی اس کی نشستین بھی اس تناسب سے ہونگیں ۔۔
اس وقت ہمارے ملک میں جو نظام مروج ہے اس میں امیدوار ایک سے زاید نشستوں پر انتخاب لڑتا ہے ، جیتنے کی صورت میں وہ کسی ایک نشست کے علاوہ باقی چھوڑ دیتا ہے ، اس کی ممانعت ہونی چاہیے ، ایک نشست پر انتخاب کرانے کے لیے جو خرچہ آتا ہے پھر ضمنی کے لیے اس پر انتخاب کرایا جاتا ہے ، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ بھاری اخراجات سے بچنے کے لیے یہ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ اس نشست پر جو خالی کی گئی ہے دوسرے نمبر پر آنے والے کو دی جائے یا پھر نشست چھوڑنے والے سے اس کے اخراجات لیے جائیں ۔
ایک رکن اسمبلی کے منتخب ہونے پر وہ جتنی بار چاہے انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے ، اس میں ایک قباحت ہے چونکہ وہ ممبر ایوان میں ایک لمبے عرصہ تک براجمان رہتا ہے ، اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ، اس پر یہ پابندی عاید کی جائے کہ وہ تین بار سے زاید الیکشن میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوگا ، اس سے یہ ہوگا کہ ایوان میں آنے سے ان کے مفادات جو وابستہ کر رکھے ہیں اس کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔۔ اس وقت ایوان میں چاچا ، ماما، رشتہ داروں کی بہتات ہوتی ہے چند خاندانوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا کوئی نیا چہرہ دیکھنے کو ملے گا ۔۔ عقل کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ایک بابے نے کچھ نہیں کرنا چاہے اس کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو اس کے مقابلے میں کئی دفعہ ایک کم عمر شخص عقل کی بات کر جاتا ہے ۔۔
پارٹی کو مظبوط بنانے کی ضرورت ہے اس وقت ہماری سیاسی جماعتوں میں حکومتی اور پارٹی عہدے ایک ہی شخصیت کے پاس ہیں جس میں پھر وہی ٹولہ جو صاحب کے پیچھے ہوتا وہی ایوان میں آگے ہوتا ہے ۔۔ پارٹی ٹکٹ ایسے لوگوں کا جاری کیے جائیں جس کے مفاد صاحب سے نہیں پارٹی سے جڑے ہوئے ہونے چاہییں ، اس وقت اور ماضی کی اسمبلیوں میں کم و بیش 60 فیصد پرانے چہرے گھوم رہے ہیں ۔۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجز میں یونین کا نظام ہی ختم کیا گیا ہے جس کی بدولت نئی قیادت ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، جن کے جس کے مفادات ہیں وہی سامنے نظر آتے ہیں ۔۔
پارٹی چھوڑنے کے لیے خصوصا ان صاحبان کے ممانعت ہونی چاہیے الیکشن کے وقت ایک جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں اپنا خیمہ لگانے کے لیے لازمی ہے کہ وہ عام انتخابات سے دو سال پہلے ایک جماعت کو خیرباد کہے اور دوسری جماعت میں جائے ، اس سے کم از کم ایک چیز سننے کو نہیں ملے گی یہ لوٹا ، وہ لوٹا ۔۔ دو سال باہر رہ کر انتظار کرے ۔۔ اس سے وفاداریاں تبدیل کرانے کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔۔
الیکشن میں خرچہ کی جو حد مقرر کی جاتی ہے اس میں کئی ایسی بدعتیں ہیں جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے ، تمام جماعتوں انتخابی مہم کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں ، بڑی بڑی انتخابی ریلیوں پر پانبدی ہونی چاہیے تاکہ کسی کی شہری زندگی میں کوئی خلل نہ ہو ، سرے شام جلسے جلوس ختم کرنے کی ضرورت ہے ، رات گئے تک گلی محلوں مین اس کی اجازت ہونی چاہیے ،، سڑک اور شاہراہیں صاف رکھی جائیں ۔۔ ہمارے ملک میں انتخابی اخراجات کا اندازہ لگایا جائے تو کئی سو اربوں میں ہوتا ہے ، جو صرف ایک لفظ دھاندلی کی نظر ہوجاتا ہے جو دھاندلی کراتا ہے اور کرتا ہے اس کو توبہ کرلینی چاہیے ۔۔
قانون سازی کس کے لیے ہونی چاہیے ، یہ قانون سازی افراد کے لیے نہیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کی جائے یہ ہو کہ مجھے وارے میں نہیں آتی تو یہ حرام ہے جب وارے مین آئے وہ حلال کیسے ہوجاتی ہے ، ترقی کے فوائد سب کے لیے ہوں ۔۔ خدا کی زمین پر اس کی بندر بانٹ بند کی جائے ، امیر اور غریب کے لیے یکساں قانون ہو بات سب کرتے ہیں مگر کرتا کوئی نہیں ۔۔ سنو دوست باتیں اور بھی ہیں ، پہلے یہ کرلیں باقی بعد میں دیکھ لیں گے ۔۔
ایک بات طے ہے اب نہیں کیا تو پھر وہی باتیں ہمارا منہ چڑاتی رہیں گیں اور زمانہ ہم پر ہنسے گا ۔