علاقہ دامان و سلیمان کا صدیوں پرانہ ثقافتی فن

دستکاری کی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ اس کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسرے فنون دانش کی طرح، پاکستان کی دستکاری بھی کاریگروں کے خیالات اور احساسات کا مظہرہیں، جو ان کے ماحول، ثقافت اور معاشرتی نمونوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دستکاری کی ایک شاندار اور متنوع تاریخ ہے۔ پاکستان کے ہر شہر میں اپنی اپنی دستکاری کی خصوصیت موجود ہیں۔ جیسے کہ ملتان تلے، موتی اور سلمہ ستارے کے کام سے جانا جاتاہے، بہاول پورکو چنری کا شہر کہاجاتاہے،سوات میں دھاگے سے کپڑے پر کیشدہ کاری کے لیے مشہور ہے، ڈیرہ غازی خان میں کپڑے پر شیشے کا کام کیاجاتا ہے، سندھ کی روایتی ریلی جو دور دراز دیہات کی خواتین ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ دامان و سلیمان کےخوبصورت پہاڑوں اور دامن میں آباد لوگ آج بھی اپنی ثقافت سے بے حد محبت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں کے لوگوں نے اپنی صدیوں پرانی ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

اس علاقے کی شہرت کی ایک بڑی وجہ یہاں کا ثقافتی دستکاری فن بھی ہے، آج بھی اس علاقے میں بچپن سے ہی بچیوں کو سوئی دھاگے سے نفیس کشیدہ کاری کا ہنر سکھانا شروع کردیا جاتاہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اس فن سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں پر ہر گھر میں خواتین دستکاری کرنا جانتی ہیں اور دور دور سے لوگ انہیں کام دینےآتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے اس فن کو خاطر خواہ فروغ نا مل سکا۔ جس کے پیچھے موجود وجوہات کے بارے میں ہم نے ڈیپتی ڈایریکٹرپاکستان انسٹیٹوت آف ٹریڈ ایند ڈیولپمنٹ، منسٹری آف کامرس، فقیر شاہ گل احمد سے جانا کہ اگرچہ علاقہ دامان و سلیمان کی کیشدہ کاری نہایت عمدہ اور نفیس ہے اور جس کی مانگ آج بھی اول ہے مگر اس فن کو خاطرخواہ فروغ نہ ملنے کے پیچھے دوبڑی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کی عوام کاروباری مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے اُن تمام اصلاحات اور سہولیات سے نا واقف ہیں جو مختلف ادوار میں دستکاری کی صنعت کو حکومت کی طرف سے دی جاتی رہی ہیں۔ اس کے لیے حکومتی اداروں جیسے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان( ٹی،ڈی،اے،پی) اور سمال اینڈ میڈیم اینٹرپرائززڈیولپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کو ایک منظم اور مسلسل آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صنعت کو بھی باقی صنعتوں کی طرح شمار کیا جائے۔ حکومتی ادارے جیسے ٹیوٹا وغیرہ کو یہاں سال میں ایک دو مرتبہ دنیا میں رائج جدید ٹیکنالوجی اور نت نئے فیشن کی یہاں کی عوام کوتربیت دی جانی چاہئے اگر ان دو سفارشات پر عمل کیاجائے تو یہاں پر ایک دستکاری کی صنعت کا کلسٹر قائم ہوسکتاہے۔ جو ذریعہ معاش بن کر یہاں کی عوام کی زندگی میں ترقی تو لائے گا ہی ساتھ ہی ساتھ ملکی پیداوار میں بھی مثبت اضافے کا باعث بنے گا۔

کیونکہ پہلے سے بھی پاکستان میں ہینڈی کرافٹس کا شعبہ اپنی معاشی ترقی میں نمایاں طور پر فروٖغ نہیں پارہاہے۔ اس میں ممکنہ طور پر بین الاقوامی مارکیٹینگ کی امداد اور کم قانون سازی بنیادی عوامل ہیں۔ پاکستان میں کرافٹس کو دوسرے اثاثوں کے مقابلے میں کم آمدنی والے کاروبار میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم دیہی علاقوں میں خاص طور پر خواتین جو مختلف انواع و اقسام کی دستکاریاں کرتی ہیں، ان کے روزگار و معاش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اسی پر ہم نے مزید معلومات حاصل کر نے کے لیے رابطہ کیا ڈیرہ اسماعیل خان کے سینئر صحآفی نصرت گنڈہ پور سے جن کے مطابق اس وقت پاکستان میں سینکڑوں دستکاری سکول کام کررہے ہیں جن میں 62 دستکاری سکولز خیبرپختونخواہ میں جبکہ 1 سرکاری اور 1 نجی دستکاری سکول ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کام کررہا ہےجوکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی خواتین کے آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ دستکاری سکولز شہر کی بجائے اگر دیہاتوں میں بنائے جائے تو وہ زیادہ مفید ثابت ہوں گے کیونکہ دستکاری شہری خواتین کے نسبت دیہی خواتین زیادہ کرتی ہیں دیہی خواتین شہری خواتین کی نسبت زیادہ دبی اور مرد معاشرے کا شکار ہوتی ہیں اگر ان کو ان کے اس قیمتی فن پر حوصلہ افزائی فراہم کی جائے تو ان میں پراعتمادی جنم لے گی۔۔اور جس معاشرے میں مرد اور خواتین مل کرکام کرتے ہوں وہ معاشرہ جلد ترقی کی بلندیوں پرہوتاہے جیسے دوسرے ممالک ہمارے سامنے مثال کے طورپر موجود ہیں جہاں مرد اور خواتین مل کر اپنے ملک کے لیے کام کرتے ہیں۔

علاقہ دامان میں موجود کاریگر خواتین سے ہم ان کو دستکاری میں در پیش آنے والے مسائل کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا ہماری نانی دادی ہمیں بچپن سے کپڑے پر کشیدہ کاری سکھاتی ہیں۔ ہمارے کام کی قدرتو بہت زیادہ ہے مگر اس میں بھی کچھ مشکلات ہیں جیسا کہ جس کسی خاتون کو کشیدہ کروانا ہوتا ہے وہ ہمارے گھر آتیں ہیں اور ہمیں اپنی پسند کے حساب سے ڈیزائن بتا دیتی ہیں لیکن چونکہ ہمارے پاس زیادہ سہولیات نہیں ہوتیں جیسے ہمارے پاس دھاگے، ٹریس مشین، کپڑا، نئے نئے ڈیزائنز نہیں ہوتےاور یہ سارا سامان ہمیں شہر سے لانا پڑتا ہے، تو وہ پھر بازار میں موجود تیارشدہ کپڑوں کو توجہ دیتی ہیں۔ مشینی کام ہمارے ہنر کے آگے ایک سخت مقابلے کی طرح کھڑا ہورہا ہے جس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے روآئتی ڈیزائن دوسرے علاقے کے لوگ چرا کر غیر معیاری مصنوعات بیچ کر ہمارا نام خراب کر رہے ہیں۔ اس لیے علاقہ دامان و سلیمان کی دستکاری کو جیوگرافیکل انڈیکیٹر (جی آئی) لاء کے تحت علاقہ دامان و سلیمان سے منسوب کرکے اس کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا جائے ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کو اپنی محنت کا خاطرخواہ منافع مل سکے اور صدیوں پرانے کام کو محفوظ کیا جا سکے۔

علاقہ دامان و سلیمان میں روزگار کی فراوانی سے امن و امان کی صورتحال بھی بہترہوگی اور برانڈینگ کرکے یہاں کی ہاتھوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کو دنیا جہان میں متعارف کراکے اس سے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا جس سے یقینا علاقے میں ایک بہت بڑی ڈیویلپمنٹ ہوگی۔

اس کے علاوہ ہمارے روآئتی ڈیزائن دوسرے علاقے کے لوگ چرا کر غیر معیاری مصنوعات بیچ کر ہمارا نام خراب کر رہے ہیں۔ اس لیے علاقہ دامان و سلیمان کی دستکاری کو جیوگرافیکل انڈیکیٹر (جی آئی) لاء کے تحت علاقہ دامان و سلیمان سے منسوب کرکے اس کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا جائے ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کو اپنی محنت کا خاطرخواہ منافع مل سکے اور صدیوں پرانے کام کو محفوظ کیا جا سکے۔

علاقہ دامان و سلیمان میں روزگار کی فراوانی سے امن و امان کی صورتحال بھی بہترہوگی اور برانڈینگ کرکے یہاں کی ہاتھوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کو دنیا جہان میں متعارف کراکے اس سے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا جس سے یقینا علاقے میں ایک بہت بڑی ڈیویلپمنٹ ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے