فقہ وفتوی کا تعارف اور اس کی اہمیت

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جہاں ایک طرف ’’ وما خلقت الجن والانس الالیعبدون ‘‘ (سورۃ الذاریات ،آیۃ :۶۵) فرماتے ہوئے عبادات خداوندی کو ’’ وجہ تخلیق انسانیت ‘‘ قرار دیاوہیں دوسری طرف ’’ فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (سورۃ النحل ،آیۃ :۳۴) ‘‘ ارشاد فرماکر انسانیت کو کامرانی کے اس تنہا وسیلہ تک رسائی میں امکانی طور پر کسی بھی قسم کی پیچیدگی میں رہنمائی کا ڈھنگ وسلیقہ بھی ارشاد فرمادیا ، بالفاظ دگریوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم اس دنیا میں خود سے آئے ہیں نہ بے مقصد پیدا کیے گئے ہیں بلکہ ہ میں دنیا میں اخروی فلاح کے تناظر میں ایک نہایت بامقصد ،بامعنی اور لطیف حقائق ومحدود ساعات پر مبنی ایسی حیات مستعار دے کر بھیجا گیا ہے جس میں سراسر جانچ اور لمحہ لمحہ پرکھ کا تصور چھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔

چونکہ عبادات خداوندی کو نص قرآنی نے ’’ مقصد تخلیق انسانیت ووجہ تکوین کائنات ‘‘ قرار دیا اس لئے خدا کے بندوں کے لئے بندگی کا مکلف ہونا اور خدا کی طرف سے طے کردہ مخصوص احکامات کا پابند ہونا امر بدیہی تھا ، اس تناظر میں ضروری تھا بلکہ ضروری ہے کہ انسان بندگی ’’ جو دراصل مقصد زندگی ہے ‘‘ میں ہمہ تن متوجہ اور سرتاپا مصروف ومشغول رہے،اورجسے، جس قدر جانتا ہے اسے، اس قدر روبہ عمل لائے اور جو ،جس قدر نہیں جانتا وہ ،اس قدر پوچھ اورجان کر زیرعمل لانے کی سعی وکوشش کرے،مکلفین کے افعال سے متعلق جانے ہوئے احکامات پر عمل کرنے اور نہ جانے ہوئے کو اہل علم سے پوچھ کر ان کی جانب سے شرعی رہنمائی کے نتیجے میں جاننے وزیر عمل لانے کے اسی سلسلے کو شریعت اسلامیہ میں ’’ فقہ،استفتاء وفتوی ‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

چنانچہ خطیب بغدادی نے ’’ الفقہ والمتفقہ ‘‘ میں حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی ایک روایت نقل کی جس میں حضرت ا بن جبیر رحمہ اللہ نے فقہ سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے جو بات ارشاد فرمائی ہماری گذارشات اسی کا ماحصل ہیں ، ابن جبیر فرماتے ہیں :

’’ العلم بامر اللہ ،وما نھی اللہ عنہ ،وما امر من العلم بسنۃ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،والمحافظۃ علی ماعلمت ،فذلک الفقہ فی الدین ‘‘ ۔ (۱;47;۰۹۱،باب بیان الفقہ ،ط:دارابن ا لجوزی ،السعودیۃ)

ترجمہ : اللہ اور اس کے رسول کے اوامر ونواھی کا علم اور اس کی محافظت ہی ’’ فقہ فی الدین ‘‘ ہے ۔

فقہ کی عام طور پر کی جانیوالی تعریف سے بھی یہی مفہوم متبادر ہوتاہے ،علامہ باقلانی رحمہ اللہ ’’ التقریب والارشاد ‘‘ میں فقہ کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ

’’فالفقہ اذا فی مواضعۃ الفقھاء والمتکلمین ھو ’’ العلم باحکام افعال المکلفین الشرعیۃ التی یتوصل الیھا بالنظر دون العقلیۃ ‘‘ ۔ (۱;47;۱۷۱ ،باب القول فی حقیقۃ الفقہ واصولہ ،ط:موسسۃ الرسا لۃ)

ترجمہ : فقہ تب فقھاء ومتکلمین کے ہاں مکلفین کے افعال شرعیہ کے احکامات کا ایسا علم ہے جس تک رسائی عقل کی نہیں بلکہ فکرونظر کی بنیاد پر ہو ۔

اسی طرح فتوی بھی اپنی ذات میں ’’ کسی بھی سوال کے جواب ‘‘ کا مفہوم رکھنے کے باوجود اہل علم کی نظر میں ’’ الجواب عن مسئلۃ دینیۃ ‘‘ سے ذیادہ کچھ نہیں ،چنانچہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی زید مجدہ ’’ اصول الافتاء وآدابہ ‘‘ میں فرماتے ہیں

’’ والفتوی والفتیا تستعملان کحاصل مصدر من قولھم : افتی یفتی افتاء ،ومعناہ فی اللغۃ : الاجابۃ عن سوال ; فمعنی الکلمۃ فی اصطلاح الیوم : الجواب عن مسئلۃ دینیۃ ‘‘ ۔ (ص : ۰۱ ،المبحث الاول : الفتوی فی اللغۃ والاصطلاح ،ط: مکتبہ معارف القرآن کراتشی )

ترجمہ : فتوی وفتیا ’’ افتی یفتی افتاء ‘‘ کے حاصل مصدر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ،اس کا لغوی معنی ’’ کسی سوال کا جواب دینا ‘‘ ہے ،آج کی اصطلاح میں اس کا معنی ’’ کسی دینی مسئلہ کا جواب ہے ‘‘ ۔

معلوم ہوا کہ چونکہ ’’ فقہ وفتوی ‘‘ کی نسبت براہ راست اس بندگی کے ساتھ ہے جسے آیت مذکورہ بالا میں ’’ وجہ تخلیق انسانیت ‘‘ قرار دیا گیا ہے اس لئے ان دوعنوانات کا احاطہ اسلام کے بنیادی اور لازمی تقاضوں میں سے ایک ہے ،کیونکہ یہی دو عنوانات ہیں جن کی علمی جولان گاہ میں فکری جولانیوں نے اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کو روشنی ،گم گشتہ راہوں کو ہدایت اور گھٹاٹوپ فضا کو ستاروں سے جھگمگاتا آسمان دیا ۔ علامہ ابن القیم کو ’’ا علام الموقعین عن رب العالمین ‘‘ میں ذرا پڑھیے :

’’ القسم الثانی : فقھاء الاسلام،ومن دارت الفتیا علی اقوالھم بین الانام الذین خصوا باستنباط الاحکام،وعنوا بضبط قواعد الحلال والحرام،فھم فی الارض بمنزلۃ النجوم فی السماء،بھم یھتدی الحیران فی الظلماء،وحاجۃ الناس الیھم اعظم من حاجتھم الی الطعام والشراب،وطاعتھم افرض علیھم من طاعۃ الامھات والاباء،بنص الکتاب،قال اللہ تعالی: ( یا ایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ،فان تنازعتم فی شی ء فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر،ذلک خیرواحسن تاویلا ) النساء : ۹۵

قال عبد اللہ بن عباس فی احدی الروایتین عنہ،وجابر بن عبداللہ والحسن البصری،وابوالعالیہ،وعطاء بن رباح والضحاک ومجاھد بن جبر فی احدی الروایتین عنہ: اولوالامر ھم العلماء وھو احدی الروایتین عن الامام احمد ‘‘ ۔ ( ۲;47;۴۱،فصل فقھاء الاسلام ومنزلتھم ،ط:دارابن الجوزی )

ترجمہ : ’’ محدثین کی جماعت کے سوا دوسری جماعت فقھاء کی تھی جن کے اقوال پر عام مسلمان عامل تھے ، جنہیں احکام نکالنے کا خاص ملکہ تھا ، جنہوں نے حلال وحرام کے لئے قواعد وضوابط بنائے تھے ،جو زمین پر اس طرح چمکتے تھے جیسے آسمان پر ستارے ، انہی کی وجہ سے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے لوگ راہ پالیتے ہیں ، عوام جس قدر کھانے پینے کے محتاج ہیں اس سے بہت ذیادہ ان بزرگوں کے وہ محتاج ہیں ، یہ ہیں دین کی سمجھ والے مجتھد ، سچ تو یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت اولاد پر جو ہے اس سے ذیادہ اطاعت ان کی سب پر ہے ،اس پر ایک تو یہ آیت شاہد ہے کہ اے ایمان والو : تم اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحب امر ہوں ،پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف لوٹاو ، اگر تم اللہ تعالی پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو یہی بہتر ہے اور یہی انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے ‘‘ ۔

دو روایتوں میں سے ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس ;230; ، حضرت جابر بن عبداللہ ;230; اورحسن بصری ;230;،ابوالعالیہ ،عطاء بن ابی رباح ،ضحاک اور مجاھد رحمھم اللہ تعالی سے بھی ایک روایت میں مروی ہے کہ ’’ صاحب امر ‘‘ سے مراد علمائے کرام ہیں ،حضرت امام احمد رحمھم اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی مروی ہے ‘‘ ۔

علامہ ابن القیم کا مذکورہ اقتباس ’’ فقہ وفتوی ‘‘ کے دومختلف عنوانات کی عظمت کے تناظر میں نہ صرف ہ میں فقھاء کے مقام ومرتبہ کا احساس دلاتا ہے،بلکہ ہ میں یہ بھی بتلاتا ہے کہ اسلام میں منصب افتاء کیا ہے اور اس نسبت سے ایک مفتی سے اس عنوان پر کتنی لطافت اور حساسیت ونزاکت کا تقاضا کیا گیا ۔

علامہ حمدان الحرانی الحنبلی ’’ صفۃ الفتوی والمفتی والمستفتی ‘‘ میں مفتی کو اس کا منصب کچھ اس طرح سمجھا رہے ہیں :

’’ وبعد : فانہ لما کان المفتی ھو المخبربحکم اللہ تعالی لمعرفتہ بدلیلہ،وقیل : ھو المخبر عن اللہ بحکمہ وقیل : ھو المتمکن من معرفۃ احکام الوقاءع شرعا بالدلیل مع حفظہ لاکثر الفقہ،عظم امر الفتوی وخطرھا،وقل اھلھاومن یخاف اثمھاوخطرھا ‘‘ ۔ ( ص:۴،بعد خطبۃ الکتاب ، ط : منشورات المکتب الاسلامی )

ترجمہ : ’’ جب مفتی دلائل کی معرفت کی بنیاد پر اللہ تعالی کے حکم کی خبر دینے والا ہے یا بقول بعض وہ اللہ تعالی اور اس کے حکم کی خبر دینے والا ہے یا بقول بعض وہ اکثر فقھی حصے کو حفظ رکھنے کے ساتھ شرعا واقعات کے احکامات کی دلائل کے ساتھ معرفت رکھتا ہے تو اس وقت فتوی کا مقام بڑی عظمت واہمیت والا ہوجاتا ہے ،کم ہی لوگ ہیں جو اس منصب ومقام میں غفلت کے وبال سے خاءف ہوں ‘‘ ۔

امام نووی بھی ’’ المجموع شرح المھذب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’ اعلم ان الافتاء عظیم الخطر ،قدیر الموقع ،کثیر الفضل ،لان المفتی وارث الانبیاء ،صلوات اللہ علیھم وسلامہ ،وقائم بفرض الکفایۃ ،ولکنہ ،عرض للخطر ،ولھذا قالوا: المفتی موقع عن اللہ سبحانہ وتعالی ،وروینا عن ابن المنکدرقال : العالم بین اللہ وخلقہ،فلینظر کیف یدخل بینھم ‘‘(۱;47;۲۷،باب آداب الفتوی والمفتی والمستفتی ،ط:مکتبۃ الارشاد ،جدہ)

ترجمہ : آپ جان لیں کہ فتوی دینا بہت عالی مرتبہ ،بہت ذیادہ پیش آنے والا اور انتہائی فضیلت والا کام ہے کیونکہ مفتی انبیاء کا وارث ہے اور فرض کفایہ کو اداکرنے والا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کام بہت سے خطرات پیش آنے کی جگہ بھی ہے،اسی لیے علماء نے فرمایا کہ مفتی اللہ تعالی کی طرف سے دستخط کرنے والا ہوتا ہے،ابن المنکدر سے مروی ہے کہ عالم اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہے ،پس اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس منصب کا احساس کرے ‘‘ ۔

یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء نے نصوص قرآنی وتعلیمات نبویہ کی روشنی میں فقہ میں ’’ منصب افتاء ‘‘ سے خصوصی اعتناء برتا اور مفتی کو فقھی جزئیات سے متعلق جواب دیتے وقت جن اموروتفصیلات ،اصول وضوابط ،احتیاطات وآداب اور ہدایات وملاحظات کو پیش نظر رکھنا چاہیے انہیں تفصیل سے لکھا ،بیان کیا اور کسی بھی فتوی کی درستگی کے لئے معیار قرار دیا، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں فرماتے ہیں

’’ فحقیق بمن اقیم فی ھذا المنصب ان یعد لہ عدتہ ،وان یتاھب لہ اھبتہ ،وان یعلم قدر المقام الذی اقیم فیہ ،ولا یکون فی صدرہ حرج من قول الحق والصدع بہ ،فان اللہ ناصرہ وھادیہ ،وکیف وھو المنصب الذی تولاہ بنفسہ رب الارباب ،فقال تعالی : یستفتونک فی النساء ،قل اللہ یفتیکم فیھن ،وما یتلی علیکم فی الکتب ) النساء : ۷۲۱
وکفی بما تولاہ اللہ تعالی بنفسہ شرفا وجلالۃ ،اذ یقول فی کتابہ : (یستفتونک،قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ ) النساء۶۷۱
ولیعلم المفتی عمن ینوب فی فتواہ ،ولیوقن انہ مسءوول غدا،وموقوف بین یدی اللہ ‘‘ ۔ (۲;47;۷۱،فصل ما یشترط فیمن یوقع عن اللہ ورسولہ ،ط:دارابن الجوزی)

ترجمہ : لہذا جو شخص بھی اس منصب پر فائز ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے لئے خوب تیاری کرلے اور اس کا سامان اچھی طرح جمع کرلے اور اس مقام کی قدر کو پہچان لے جس میں وہ کھڑا کیا گیا ہے،حق بات کہنے میں اس کے دل میں کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے اور اس کو حق بات کا واضح اظہار کرنا چاہیے،پس بے شک اللہ تعالی ہی اس کا مددگار اور اس کی رہنمائی کرنے والا ہے،یہ تو وہ منصب ہے جو خود اللہ تعالی نے اپنے لیے بیان فرمایا،پس اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :’’ اور وہ آپ سے فتوی طلب کرتے ہیں عورتوں کے بارے میں ،آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے ان عورتوں کے بارے میں اور قرآن کی جو آیات آپ پر پڑھی جاتی ہیں ‘‘ ۔

استاد جمال الدین دمشقی نے ’’ کتاب الفتوی فی الاسلام ‘‘ میں منصب افتاء کو ایک منفرد مگر دلچسپ انداز میں امام ابواسحق الشاطبی کی ’’ الموافقات ‘‘ کے حوالہ سے کچھ اس طرح بیان فرمایا:

’’ قال الامام ابو اسحق الشاطبی: المفتی قائم فی الامۃ مقام النبی ﷺ ،والدلیل علی ذلک امور(احدھا ) النقل الشرعی فی الحدیث ،ان العلماء ورثۃ الانبیاء، وان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھماوانما ورثو العلم: وفی الصحیح: بینا انا نائم اتیت بقدح من لبن فشربت حتی انی لاری الری یخرج من اظفاری ثم اعطیت فضلی عمر بن الخطاب ، قالوافما اولتہ یارسول اللہ قال العلم: وھو فی معنی المیراث،وبعث النبی ﷺ نذیرا ، لقولہ تعالی ( انما انت نذیر )وقال فی العلماء ( فلولا نفر من کل نفر من کل فرقۃ منھم طاءفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم ) الایۃ ،واشباہ ذلک ۔

(والثانی) انہ نائب عنہ فی تبلیغ الاحکام لقولہ : (الالیبلغ الشاھد منکم الغائب) وقال : ( بلغو اعنی ولوآیۃ )وقال : (تسمعون ویسمع منکم ویسمع ممن یسمع منکم ) ، واذا کان کذلک فھو معنی کونہ قائما مقام النبی ﷺ ۔

( والثالث) ان المفتی شارع من وجہ لان ما یبلغہ من الشریعۃ اما منقول عن صاحبھا واما مستنبط من المنقول، فالاول یکون فیہ مبلغا والثانی یکون فیہ قائم مقامہ فی انشاء الاحکام، وانشاء الاحکام وانما ھو للشارع، فاذا کان لمجتھد انشاء الاحکام بحسب نظرہ واجتھادہ فھو من ھذا الوجہ شارع واجب الاتباع والعمل علی وفق ما قالہ وھذا ھی الخلافۃ علی التحقیق ، بل القسم الذی ھو مبلغ فیہ لابد من نظرہ فیہ من جھۃ فھم المعانی من الالفاظ الشرعیۃ ومن جھۃ تحقیق مناطھا ،وتنزیلھا علی الاحکام ،وکلا الامرین راجع الیہ فیھا ، فقد قام مقام الشارع ایضا فی ھذا المعنی ، وقد جاء فی الحدیث( ان من قرء القرآن فقد ادرجت النبوۃ بین جنبیہ ) وعلی الجملۃ فالمفتی مخبر عن اللہ کالنبی، وموقع للشریعۃ علی افعال المکلفین بحسب نظرہ کالنبی، ونافذ امرہ فی الامۃ بمنشور الخلافۃ کالنبی ،ولذلک سموا اولی الامر ،وقرنت طاعتھم بطاعۃ اللہ ورسولہ فی قولہ تعالی ( یا ایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ) والادلۃ علی ھذا المعنی کثیرۃ ‘‘ ۔ (۲۱،۱۱،وراثۃ المفتی للمقام النبوی،ط:مجلۃ المقتبس بدمشق)

ترجمہ : ’’ امام ابواسحاق شاطبی فرماتے ہیں کہ مفتی امت میں نبی کریم ﷺ کا قائم مقام ہوتا ہے ،اس پر متعدد امور دلالت کرتے ہیں ،

پہلا امر : حدیث کی صورت میں نقل شرعی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء دینارودراہم کا وارث نہیں بناتے

بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں ،صحیح روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا ، میں نے پیا یہاں تک کہ میں نے اپنے ناخنوں سے سیرابی نکلتے دیکھی ،پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمر بن الخطاب ;230; کو دے دیا ،صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ : آپ اس کی کیا تاویل فرماتے ہیں ،آپ نے فرمایا کہ علم ،یہی معنی ہے میراث کا ،

نبی اکر م ﷺ کو نذیر بنا کر بھیجا گیا جیسے کہ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’ سوائے اس کے نہیں کہ آپ نذیر ہیں ‘‘ اور علماء کے متعلق فرمایا کہ پس کیوں نہیں نکلتی ہر فرقہ میں سے ایک جماعت کہ وہ دین کا تفقہ حاصل کرے اور اپنی قوم کو ڈرائے ‘‘ اور اس جیسی دیگر آیات

دوسرا امر : مفتی احکام کی تبلیغ میں نبی کا نائب ہے ،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ خبردار جو تم میں حاضر ہیں انہیں غائبین تک اس پیغام کو پہنچا دینا چاہیے ‘‘، اور فرمایا : میری جانب سے تمہیں ایک آیت ہی کیوں نہ پہنچے اس کی بھی آگے تبلیغ کردو، اور فرمایا : تم سنتے ہو اور تم سے آگے لوگ سنتے ہیں اور ان سے آگے مزید لوگ سنتے ہیں ‘‘ اور میں بھی اسی طرح ہوں ،پس یہی معنی ہے نبی ﷺ کے قائم مقام ہونے کا ۔

تیسرا امر : مفتی من وجہ شارع ہے ،اس لیے کہ وہ جس شریعت کی تبلیغ کرتا ہے وہ یا تو صاحب شریعت سے منقول ہے یا منقول سے مستنبط ہے ،پس اول صورت میں اس کی حیثیت مبلغ کی ہے اور دوسری صورت میں وہ انشائے احکام میں نبی کا قائم مقام ہے ،کیونکہ انشائے احکام صرف شارع کا حق ہے ،جب مجتھد کے لئے اس کی نظر واجتھاد کے اعتبار سے انشائے احکام کی گنجائش ہے تو وہ اس اعتبار سے ’’ شارع واجب الاتباع والعمل ‘‘ ٹھہرا،درحقیقت یہی خلافت ہے ،بلکہ جس قسم میں مفتی مبلغ ہے اس میں چونکہ الفاظ شریعت سے معانی سمجھنے ،تحقیق مناط اور تنزیل علی الاحکام کی حیثیت سے نظر وفکر ضروری ہوتی ہے اس لیے یہاں بھی مفتی شارع کے قائم مقام ہوتا ہے

،حدیث میں بھی آتا ہے کہ ’’ بے شک جس نے قرآن پڑھا اس نے علوم نبوت اپنی پسلیوں میں جمع کر لیے ۔

خلاصہ یہ کہ مفتی نبی کی طرح ’’ مخبر عن اللہ ‘‘ ہے ،وہ نبی کی طرح مکلفین کے افعال کی نظر کے اعتبار سے شرعی تصحیح وتوقیع کرتا ہے ،نبی کی طرح منشورخلافت کے ساتھ امت میں امرخداوندی کو نافذ کرتا ہے ،اسی وجہ سے ایسوں کو ’’ اولی الامر ‘‘ کہا جاتا ہے ،ان کی اطاعت کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ درج ذیل آیت میں ملایا گیا ۔ ارشاد خداوندی ہے ’’ اے ایمان والو : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کا کہنا مانو ‘‘ اور اس معنی پر ادلہ کثیرہ دال ہیں ‘‘ ۔

حضر ت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی زید مجدہ نے بھی ’’ اصول الافتاء وآدابہ ‘‘ میں لطیف بات ارشاد فرمائی ، فرماتے ہیں :

’’ فیجب علی المفتی ان یشعر بخطورۃ منصب الافتاء ،وانہ لیس ابداء للآراء الشخصیۃ ،او تحکیما للعقل المجرد او تفعیلا للعواطف النفسیۃ ،وانما ھو تبیین لما شرع اللہ لعبادہ من شراءع واحکام لحیاتھم الفردیۃ والاجتماعیۃ التی تضمن لھم السعادۃ الابدیۃ فی الدنیا والاخرۃ

۔ وکفی لخطورۃ ھذا المنصب ومھابتہ انہ نیابۃ عن اللہ ورسولہ فی بیان تلک الاحکام،وتوقیع عن رب السماوات والارض ورب العالمین ،کما سماہ الامام النووی وابن القیم رحمھما اللہ تعالی(ص : ۶۱ ،المبحث الرابع : تھیب السلف للفتیا ،ط: مکتبہ معارف القرآن کراتشی )

ترجمہ : پس مفتی پر واجب ہے کہ وہ منصب افتاء کی عظمت کا احساس کرے،اور یہ بات یاد رکھے کہ فتوی دینے کا مطلب اپنی ذاتی رائے کا اظہار یا صرف عقل کے ذریعے فیصلہ کرلینا یا اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی کام کرلینا نہیں بلکہ افتاء تو ان شرعی احکام کو واضح کرکے بیان کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے ان کی انفرادی واجتماعی زندگی میں مقرر فرمائے ہیں وہ احکام جو بندوں کے لیے دنیا وآخرت میں ابدی سعادت کے ضامن ہیں۔
منصب افتاء کی عظمت وہیبت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نیابت اور جانشینی ہے،اور یہ تو آسمانوں اور زمین اور تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نمائندگی ہے ‘‘ ۔

معلوم ہوا کہ منصب افتاء ایک اہم ذمہ داری ہے اور مفتی شارع کے نائب کی حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ارباب علم نے ’’ فتوی نگاری ‘‘ کے اصول وضوابط ہی مدون ومرتب نہیں فرمائے بلکہ اس فن کو ’’ رسم المفتی ‘‘ کا نام دے کر الگ سے ایک مستقل عنوان بھی قائم فرمایا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے