ہم اور ہمارا مستقبل؟؟؟

انسان 25لاکھ سالوں سے موجود ہے لیکن پہلے 24لاکھ سالوں کی ترقی کا موازنہ آخری 70ہزار برسوں سے کرنا ممکن نہیں۔ 10ہزار سال پہلے انسانی حیات میں اک فیصلہ کن موڑ زرعی انقلاب کی شکل میں نمودار ہوا۔ ساڑھے تیرہ ارب سال قبل مادہ اور توانائی نمودار ہوئے، جواہر اور سالمے وجود میں آئے، کیمیا کا آغاز ہوا۔ ساڑھے 4ارب سال پہلے زمین پیدا ہوئی۔ 25لاکھ سال پہلے GENUSکا افریقہ میں ارتقا ہوا اور پتھر کے ابتدائی اوزار معرض وجود میں آئے۔ 20لاکھ سال پہلے ’’آدمی‘‘ افریقہ سے یورپ میں پھیلا اور مختلف انواع انسانی کا پھیلائو شروع ہوا۔ پانچ لاکھ برس پہلے ’’نینڈر تھال‘‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں پھیلے۔ 3لاکھ برس پہلے آگ کا روزانہ استعمال معمول بنا جو ایک غیرمعمولی ’’فتح‘‘ تھی۔ دو لاکھ سال پہلے ’’ہومو سیپین‘‘ کا مشرقی افریقہ میں پھیلائو ہوا۔

45ہزار برس قبل ’’سیپین‘‘ آسٹریلیا میں بس گئے۔ 30ہزار برس پہلے ’’نینڈر تھال‘‘ فنا ہو گئے۔ 16ہزار برس قبل سیپین امریکہ میں بس گئے۔ 13ہزار برس پہلے کرۂ ارض پر صرف ’’ہومو سیپین‘‘ہی باقی رہ گئے۔ صرف دس بارہ ہزار برس پہلے زرعی انقلاب، حیوانات و نباتات کی دیکھ بھال اور مستقل قسم کی بستیوں کا آغاز ہوا۔ بیالیس سو پچاس برس پہلے سرگون کی پہلی اکاڈین مملکت قائم ہوئی اور ڈھائی ہزار سال پہلے سکے ایجاد ہوئے، فارس کی سلطنت ابھری، انڈیا میں بدھ مت نے آنکھ کھولی، چین میں ہن حکومت، روم کی حکومت اور عیسائیت کا آغاز۔تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے دینِ کامل اسلام کا سورج طلوع ہوا۔ تقریباً 500سال قبل سائنسی انقلاب کا طبل بجا۔ غیرمعمولی قوت و اختیار کا آغاز۔ پورا کرۂ ارض اکلوتا سیاسی اکھاڑہ، سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز کیونکہ یورپین سمندروں کی فتح کا آغاز کرتے ہیں اور صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں ریاست اور مارکیٹ … خاندان اور معاشرہ کو ری پلیس کرنا شروع کرتی ہے۔اور اب کیا ہو رہا ہے؟

انسان کرۂ ارض کی حدود پھلانگ چکا ہے۔جوہری ہتھیاروں کے انباروں کو گننا ممکن نہیں۔مصنوعی ذہانت آ چکی۔روبوٹس میدان میں۔زندگی فطری چنائو کی بجائے ذہین ڈیزائنز سے تشکیل پا رہی ہے۔جینیاتی انجینئرنگ اور کمپیوٹر کا الحاق معجزوں کو جنم دے رہا ہے۔یہ ’’افواہ‘‘ عام ہے کہ 2050کے بعد انسان اس پر قادر ہوگا کہ چاہے تو صرف حادثاتی موت مرے اور یہ فقط دعویٰ ہی نہیں ہے کہ کینچوے کی عمر میں 6گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے خونی ذرات پیدا کئے جا رہے ہیں جو جسم میں داخل ہو کر شریانوں کی رکاوٹ، جراثیموں کا خاتمہ اور سرطانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دل، گردے، پھیپھڑے وغیرہ کے مشینی متبادل منڈی میں آچکے ہیں۔ چوہوں کی پشت پر انسانی کان اگائے جا چکے ہیں۔ ہتھنی کے رحم میں قدیم سیمتھ جانوروں کے DNAسے اسے دوبارہ جنم دینے کی تیاریاں ہیں۔یہ سب کچھ مصنف و محقق یو ووال ہراری کی زندگی بھر کی کمائی کی سمری بھی نہیں بلکہ سمری کی سمری کی سمری بھی نہیں لیکن میں یہ جھک صرف اس لئے مار رہا ہوں کہ کچھ لوگ تو سوچیں کہ اس بین الاقوامی فکری سائنسی پس منظر کےساتھ …ہم کیا ہیں؟ کون ہیں؟ہماری اوقات کیا ہے؟ہمارا مائنڈ سیٹ کیا ہے؟

ہم جہالت کے کن ایناکونڈوں اور اژدھوں کے پاس یرغمال ہیں؟اور اگر کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی تو مستقبل قریب میں ہماری حیثیت اور اوقات کیا ہو گی؟ خاکم بدہن اس گلوبل ویلیج کے شودر اور کمی کہ حالت آج بھی اس سے کم نہیں۔اب تصویر کا دوسرا رخ جو پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور ڈرائونا ہے۔دنیا کے چند جینوئن عالموں اور عالی دماغوں نے بنی نوع انسان کو ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ کے اسکیل پر ماپا اور سائنسی ترازو میں تولا ہے اور اچھی طرح ناپ تول کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس تمام تر محیر العقول ترقی کے بعد بھی آج کا انسان عملاً ابھی ’’ٹائپ زیرو‘‘ پر ہے کیونکہ زمین کے باشندوں نے ابھی تک زمین پر پائی جانے والی تمام تر انرجی کے تمام تر ماخذ پوری طرح نہ دریافت اور EXPLOREکئے، نہ استعمال کئے ہیں۔ کرۂ ارض کے باسی اب تک صرف کوئلہ، لکڑی، تیل، گیس، سولر وغیرہ سے ہی توانائی حاصل یا استعمال کر پائے ہیں جبکہ انرجی کے بےشمار ذرائع ’’بیکار‘‘ پڑے ہیں سو اسی لئے ہم ابھی ’’ٹائپ زیرو‘‘ کے قیدی ہیں اور انسان کو ’’ٹائپ ون‘‘ تک پہنچنے میں تقریباً مزید 100سال درکار ہوں گے۔ یاد رہے کہ میں صرف انسانوں کی بات کر رہا ہوں ورنہ ’’آدم نما حیوان‘‘ تو ابھی ’’ٹائپ زیرو‘‘ سے بھی لاکھوں میل دور ہیں کیونکہ انسانوں سے مماثلت و مشابہت ہی انسان ہونے کیلئے کافی نہیں کہ ہم تو ابھی ’’ڈسکے‘‘ سے ہی نہیں نکلے۔

’’ٹائپ ون سویلائزیشن‘‘ کی DEFINATIONیہ ہے کہ انسان روئے زمین پر پائے جانے والے انرجی کے تمام تر ذرائع پر دسترس حاصل کرلے اور ہوا، پانی، سورج وغیرہ سے انرجی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے یعنی ’’ٹائپ ون سویلائزیشن‘‘ کا مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے بعد ہم انرجی کو آکسیجن کی طرح استعمال کرنے کےساتھ ساتھ قدرتی آفات کو بھی اپنے فائدہ کیلئے استعمال کر سکیں گے۔ سبحان ﷲ … اصل میں یہ ہے اشرف المخلوقات اور باقی تقریباً چھان بورا۔ کمال ہے کہ سونامیوں سے بھی توانائی نچوڑی جا سکے گی اور زلزلے بھی دنیا کے مختلف حصوں کی ماہیت بدلنے کے کام آئیں گے۔ جب کرۂ ارض کے تمام انرجی ذرائع انسانی دسترس میں آ گئے تو پھر موسموں کو بھی بہ آسانی کنٹرول کیا جا سکے گا۔ خشک سالی کو ہریالی میں تبدیل کیا جا سکے گا اور گلوبل وارمنگ قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ قدرتی آفات سے ہونے والی تباہیاں بھی کنٹرول ہو جائیں گی کیونکہ یہ معلوم ہو گا کہ کب کہاں کیا ہونے والا ہے اور نوبت یہاں تک جا پہنچے گی کہ انسان پانی میں بھی بستیاں آباد کر سکیں گے۔

’’ٹائپ ٹو‘‘ کی معمولی سی جھلک یہ ہے کہ انسان سورج کی روشنی اور حرارت کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ سولر سسٹم کے دوسرے سیاروں کیلئے بھی استعمال کر سکے گا۔’’ٹائپ تھری‘‘میں گیلیکسی کی تمام تر انرجی کا حصول ممکن ہو گا۔ ’’ٹائپ تھری‘‘ تو سائنس دان 1960میں دریافت کر چکے تھے اور اب ٹائپ فور اور فائیو پر ہونے والے کام بارے شک ہے کہ سائنس دان اسے چھپا رہے ہیں کیونکہ اس سے عقائد پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔ سائنس دانوں کے اندازہ کی روشنی میں ’’ٹائپ ون سویلائزیشن‘‘ تک پہنچنے میں تقریباً 100سال درکار ہوں گے۔ان حالات میں دیکھیں ’’ہم‘‘ کون ہیں؟ ہمارا مستقبل کیسا ہو گا کہ ’’ٹائپ زیرو‘‘ تو کیا، ہم تو ’’ٹائپ منفی زیرو‘‘ کے بھی قابل نہیں۔ہمارا ٹائپ، ’’ٹائپ ڈسکہ‘‘ ہے یا ’’ٹائپ ٹی ٹی‘‘…’’ٹائپ کمیشن‘‘ ہے یا ’’ٹائپ کک بیک‘‘ اور ’’علامے‘‘ اتنے ہیں جو سنبھالے نہیں جاتے۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے