ڈسکہ الیکشن کا ڈراپ سین کیا ہے

ڈھائی سال بعد ملکی صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے، ہم ایک حلقے کا الیکشن شفاف نہ کرا سکے۔دعوے تو پورا ملک سنوانے اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے تھے۔اس وقت پاکستان کی تاریخ میں شاہد پہلی بار الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ دینا پڑا کہ ڈسکہ الیکشن غیر شفاف ہیں، اس میں دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔اب اس فیصلے کو اپوزیشن اور حکومتی نمائندگا ن اپنے طریقے سے تشریح کرتے پھر رہے ہیں۔ اس بحث میں نہیں جاتے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم حکومت حاصل کرنے کے بعد کہاں کھڑے ہیں۔

کیا ڈھائی سال بعد جب جنرل الیکشن ہوگا تو ہم اس کی شفافیت پر کس حد تک متمعین ہونگے، پی ڈی ایم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد شادیانے بجا رہی ہے اور حکومت اس فیصلے کیخلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر چکی ہے اس پورے دوڑ میں اگر پس رہی ہے تو وہ ووٹ دینے والی عوام ، خیر اس کا کسی کو سوچنے کی ضرورت ہی نہیں،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے اس 2018 کے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ،جس پر بہت سے لوگوں نے مختلف تاویلیں گھڑیں لیکن آج انفرادی بیان پوری اپوزیشن کا بیان بن چکا ہے ،اسی اعتراض کی بنیاد پر انہوں نے صوبائی سیٹ کا حلف نہیں لیاالیکشن کمیشن نے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن میں جو امیدواروں کو ماحول دیا گیا، وہ منصفانہ نہیں تھا، فری اور فیئر ماحول میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا ،جس کی بنا پر اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اب اس کا جواب دہ کون ہے پنجاب حکومت جو ماحول کو سازگار بنانے میں ناکام رہی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کا کہنا تھا کہ دھاندلی کرنے کے لیے مکمل سازش کی گئی تھی لیکن حکومت کے حربے ناکام ہوئے، عمران خان سازش میں سب سے آگے تھے اب دیکھنا یہ ہے اس فیصلے کا بینفشری کون ہے۔

اگر حکومت ماحول کو نا سازگار بنا کر یہ تائثر دے تو اس کا نقصان تو واضع طورپر حکومت کو جاتا ہے تو پھر کون ہے، جس نے اس الیکشن کے دوران یہ کھیل کھیلا۔یا تو حکومت کی جانب سے مکمل سازش سے اپوزیشن باخبر تھی تو انہوں نے ماحول کو نا سازگار بنا کر سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ یا پھر اپوزیشن کا پلان ہی یہ تھا اس کا فیصلہ تحقیقی ادارے کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں بدنظمی دیکھنے میں آئی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج تاخیر سے ملنے پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا نتیجہ روک لیا تھا۔مسلم لیگ (ن) نے این اے 75 کے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا۔یعنی انا ڑی کھلاڑیوں کے ہاتھ بری طرح پھنس گی۔

معاون خصوصی عثمان ڈار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی ہے، اسے عدالت میں چیلنج کریں گے، یہ ہمارے ووٹرز کی رائیکی نفی ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کوئی ایسا قانون نہیں کہ پریزائیڈنگ افسر کے دیر سے آنے پر الیکشن ملتوی کیا جائے۔عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ پہلے بھی ایسے ہی الیکشن ہوئے مگر پورے علاقے میں ری الیکشن نہیں ہوا، مسلم لیگ (ن) نے منظم مہم چلا کر الیکشن کو متنازع بنایا، ہم پہلے اپنے قانونی حق کے لیے لڑیں گے
بحرحال اس الیکشن کے بعد پی ٹی آئی اپنا مورال اور اعتماد عوام کے سامنے بری طرح متائثر کر چکی ہے۔

یا اس کھیل کو کھیلا ہی اس لیے گیا کہ انتخابات کے لیے کوئی منظم نظام لایا جاسکے ،اپوزیشن ہمیشہ فیصلے پڑھے بغیر ڈھول پیٹنا شروع کر دیتی ہے ، مجھے تو اس دھاندلی کے ڈرامے کے پیچھے کو ئی منظم نظام کے لانے کو شش ہے ، جو کہ خوش آئند بات ہے اگر بغیر کسی ماحول کے نظام کی بات پی ٹی آئی کرتی تو مخالفت برائے مخالفت کی نظر ہوجانا تھا، اب اپوزیشن خود چیخ چیخ کر اس سسٹم پر اوا ز اٹھا رہی اور الیکشن کا فل پروف نظام پیش کیا جائے گا تو خاموشی سب کی مجبوری ہوگی۔ شنید ہے کہ اس نظام انتخاب جس میں بائیو میٹرک جدید ٹیکنا لوجی کے استعمال کو یقینی بنایا جائے گا، ڈیجیٹل ٹیکنا لوجی بہت سارے لوپ ہولز ختم کر دے گی، بحرحال وقت کم اور کام زیادہ ہے ،امید ہے کہ جدید تقاضوں کو استعمال کرتے ہوئے، آئندہ الیکشن کروایا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے