بلاشببہ ہم اعلی درجہ کے بے حس اور مفاد پرست ہیں

خبر:شہر مظفرآباد میں پانی کی کمیابی،شہر 4 دن سے کربلا کا منظر پیش کرنے لگا،وضو کیلئے بھی پانی دستیاب نہیں۔

نچوڑ:سب سے پہلے تو ایک بات کو دل سے تسلیم کیجئے۔کہ ہم آزاد کشمیر اور بلخصوص مظفرآباد کے رہنے والے کشمیری بلاشبہ اعلی درجے کے بے حس،کم ظرف،دوغلے،بے غیرت اور مفاد پرست ہیں،شائد میرے الفاظ بہت تلخ ہیں،لیکن یقین جانیے کہ یہ حقیقت ہے،کم از کم میں اس حقیقت کو اپنے اوپر تسلیم کرتا ہوں۔

اگر ہم اپنی 73سالوں کی تاریخ دیکھیں تو ان 73سالوں میں ایک بھی مائی کا لال پیدا نہیں کر سکی جسے حقیقی لیڈر کہا جائے،ماسوائے محمد مقبول بٹ شہید،اور کے ایچ خورشید صاحب کے،کے ایچ خورشید صاحب بھی 2,3جگہ بیک فٹ پر جاتے نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے پائے کا لیڈر ماضی یا حال میں نظر نہیں آتا۔

تقسیم ہندوستان سے بہت پہلے بھی مظفرآباد شہر میں بجلی موجود تھی،ڈوگرہ حکومت نے ماکڑی کے مقام پر ایک ٹربائن نصب کر کے مظفرآباد اور اسکے مضافات کو بجلی فراہم کر دی تھی،یہ ٹربائن دریا کے قدرتی بہاو پر لگائی گئی تھی۔

پھر ہم نے آزادی حاصل کی اور آزادی حاصل کر کے ہم نے وہ تیر مارا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں،میں اگر ماضی کی تفصیل میں جاوں توبات بہت پھیل جائیگی،لیکن میں سیدھا مدعا پر آتا ہوں،دریائے نیلم میں ریت آنے سے اس پر واقع نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ نی ڈیم میں ریت بھر گئی،اور اس ریت کو ڈیم سے نکالنے کیلئے واپڈہ کے شیر جوانوں نے جنوری میں ڈیم کے دروازے کھول دئیے،اور ریت کا طوفان مچھلیوں سمیت شہر میں آ گھسا۔

جبکہ اس منی ڈیم کے دروازے کھولنے کا تجویز کردہ صحیح وقت جون جولائی تھا، جس میں دریا کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور دریا اپنی روانی کے ساتھ ریت سمیت ہم مظفرآبادیوں کے بچوں کے ڈائپرز سمیت تمام گند بہا کر لے جاتا،لیکن چونکہ ریاست کالا ٹھاکہ عذاب کشمیر کا کوئی والی وارث نہیں،اس لیے واپڈہ کے موجود عملہ نے کسی بھی مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دروازے کھول دئیے۔ریت کا طوفان ڈیم سے نکلا،اور شہر میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے واٹر سپلائی پلانٹ پلانٹ جہاں سے شہر کی 4.5لاکھ نفوس کی آبادی کو پانی مہیا کیا جاتا ہے ، میں گھس گیا،نتیجتا”شہر میں پانی کی ترسیل تعطل کا شکار ہوگئی۔شہر کو پانی کی ترسیل کا واحد ذریعہ یہی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہے۔اب گزشتہ 4روز سے شہر میں موجود نہیں،وضو اور خوارج ضروریہ کیلئے مسجدوں تک میں قطرہ آب کی دستیابی نہیں۔لیکن کیا مجال ہے کوئی شہری گھر سے باہر آیا ہو،ماسوائے چند سر پھروں کے۔

یہ وہی سر پھرے ہیں، جن پر انڈین ایجنٹ،غدار اور مفاد پرست ہونے کے ایک ہزار فتوے ہمارے اپنے ہی شہریان مظفرآباد دے چکے ہیں،یہ وہی جانے پہچانے چہرے ہیں ، جو دریا بچاو دھرنہ،ماحولیاتی آلودگی،غیر قانونی قبضہ،پہاڑوں کو کھاتی کرش مشینز اور ان گنت ایسے مسائل میں اٹھ کھڑئے ہوتے ہیں ، جن کے لیے ہر شہری کو کھڑا ہونا چاہیے لیکن ساڑھے چار سے 5 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی چاہے طوفان آجائے،پانی نا ہو،آٹا نا ہو،چینی مہنگی ہو،چاہے قیامت آجائے باہر نہیں نکلتی،سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کرنے والی قوم کو اپنے حق کیلئے باہر آتے وقت موت پڑ جاتی ہے۔

مظفرآباد دھرتی کا سپوت اور نڈر نوجوان افضال سلہریا حال ہی میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا،افضال کے نظریہ سے ہزار اختلاف سہی لیکن اس نے ہمیشہ ریاست کی عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی،اور یہی کوشش کرتے کرتے وہ سچے راستے پر روانہ ہوگیا۔

مجھے اچھے سے یاد ہے کہ افضال سلہریا جب کوئی جلسہ یا ریلی نکالتا تو گنے چنے افراد اسکے ساتھ ہوتے تھے،باقی تمام شہریان مظفرآباد اسے غدار اور انڈین ایجنٹ ثابت کرنے پر لگے ہوتے تھے لیکن جب وہ اس دنیا سے گیا تو سوشل میڈیا ہر شخص افضال سلہریا بن رہا تھا،ہر انسان اسکی وطن سے محبت کے سرٹیفکیٹ دے رہا تھا،یہ سب وہی تھے جہ جب افضال زندہ تھا تو اسکے پاس کھڑے ہونے سے ڈرتے تھے۔

خودمختار کشمیر،یا الحاق پاکستان،یہ دونوں نظریات اپنی جگہ مقدم ہیں۔ملک پاکستان اور عوام پاکستان سے ہمارا خون کا رشتہ ہے، ہم اپنے آپکو پاکستان کے بنا ادھورا تصور کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی محبت وادی کے دو طرفہ کشمیریوں کے دلوں میں رچی بسی ہے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے حق کی بات کرنے والے کو فوراً خودمختاریا کہہ کر اس پر آنڈین ایجنٹ کا فتویٰ ٹھوک دیا جائے؟؟؟؟

اور یہ تو بحث ہی بلکل الگ ہے کہ آپ پاکستان یا اسکے اداروں کو تنقید کا نشانہ تب بنائیں کہ جب آپکے اپنے ٹھیک ہوں۔

جب دریائے نیلم کا پانی ٹنل میں چھوڑا گیا تو موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان فوراً اپنے لاؤلشکر سمیت ماکڑی پہنچے دریا کا جائزہ لیا تصویر کچھوائی اور اخبارات میں لگوائی کہ وزیراعظم صاحب کو سخت تشویش ہے کہ پانی کم کر دیا گیا۔

اوبھائی ہم نے تشویش کا اچار ڈالنا ہے؟؟؟؟وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان صاحب وہی ہیں، جو اپوزیشن میں بیٹھ کر عوام کے حق کی بات کیا کرتے تھے۔لیکن جیسے ہی کرسی پر بیٹھے سب بھول گئے،واپڈہ کی طرف سے واٹر باڈیز بنانے کیلئے دئیے جانیوالے اربوں روپے کہاں گئے؟؟؟گریٹر واٹر سپلائی،سالڈ ویسٹ مینجمنٹ،اور دیگر منصوبہ جات کیلئے جو فنڈ ریلیز کئے گئے تھے وہ کہاں گئے؟؟؟؟لیکن خبردار جو کسی نے پوچھا تو ورنہ تحریک آزادی کشمیر کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
مجھے قوی یقین ہے کہ مظفرآباد کی عوام بیت الخلاء کے ضروت کیلئے ٹشو استعمال کر لے گی لیکن اہنے حق کیلئے باہر نہیں آئیگی۔

لیکن آپ دیکھیں یہی لوگ آئے روز سیاسی جلسوں میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں باہر آجاتے ہیں،کوئی شیر آیا شیر آیا کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی خان کو دیوانہ،کوئی تیر چلاتا ہے تو کوئی گھوڑے دوڑاتا ہے لیکن کیا مجال کہ ہم شہری اپنے بنیادی حقوق کیلئے باکر نکلیں؟؟؟ آج کل پی ٹی آئی،ن لیگ،پیپلز پارٹی،اور آزاد امیدواران میں رن کا جوڑ پڑا ہوا ہے،ہر روز جلسے ہورہے ہیں۔

مجھے پچھلے 4 دن سے بیریسٹر افتخارِ گیلانی،خواجہ فاروق،لطیف اکبر یا کوئی بھی ایک لیڈر بتا دیں ، جو عوام کو لیکر اس لیے باہر آیا ہو کہ شہر میں پانی کیوں نہیں ہے؟؟؟؟اور ہم ان پارٹیوں کے دیوانے پاگلوں طرح نعرے مار مار کر گلہ بٹھا لیتے ہیں۔یہ تمام پارٹیوں کی لیڈرز ایک ہی بھٹی کے چٹے بٹے ہیں جو ہر 5 سال بعد چہرئے بدل کر عوام کو گولی دینے آتے ہیں۔اب اگر کوئی پاکستان پر گلہ کرتا ہے تو اسکی مرضی ہے،ورنہ اصل بات یہ ہیکہ ہم خود بے غیرت ہیں جو اپنے حق کیلئے باہر نہیں آتے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان اس یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے کشمیری کے خودمختار رہنے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے حق کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کشمیری عوام کی مرضی ہوگی کہ وہ آزاد رہیں یا پاکستان کے ساتھ رہیں”اسکے بعد یہ غداری کا فتویٰ دینے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

پاکستان یا پاکستان کے کسی بھی ادارے کو الزام دینے سے پہلے میرے خیال سے اب وہ وقت آن پہنچا ہیکہ کہ ہمیں اپنی سوئی ہوئی غیرت کو جگاتے ہوئے اندر موجود میر جعفر،میر صادق پہچاننا ہوگا۔وہ میر جعفر اور میر صادق جو اس طرف ہمارے حق کیلئے بڑھکیں لگاتے ہیں اور کوہالہ کراس کرتے ہی انکی ترجیحات اہنے ذاتی مفاد تک بدل جاتی ہیں۔اپنے لیے بحریہ میں کوٹھی،بچوں کیلئے امریکہ کا ویزہ لیکر کشمیری عوام کو چونا لگانے والے یہ شعبدہ باز کو ہمیں پہچاننا ہوگا۔محترم زاہد امین صاحب نے ایک TVپروگرام میں برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ آ زاد کشمیر کے بیوروکریٹ محض اپنے ذاتی مفاد کیلئے کوہالہ کراس کرتے ہی پاکستانی ارباب اختیار میں بیٹھے فیصلہ سازوں تک یہاں کی عوام کی کوئی بات پہنچاتے ہی نہیں،انکے آگے سکھ کی بنسری بجا کر جب یہاں لوٹتے ہیں تو سارا ملبہ پاکستانی حکومت پر ڈال کر خود سائیڈ پر ہوجاتے ہیں اور جب عوام سے کوئی سرپھرا بات کہہ دے یا لکھ دے تو فوراً اسے غدار اور انڈین ایجنٹ کہہ کر اٹھواتے ہیں اور پاکستان کے ارباب اختیار کے آگے نمبر بڑھاتے ہیں کہ "دکھو جی اسی تا پاکستان دے وفادار ہاں”پاکستان اور کشمیریوں سے ڈبل گیم کھیلتے یہ ڈبل شاہ اصل غدار ہیں۔

اب غیرت کا تقاضہ یہ ہیکہ کہ ہمیں اپنے حق کیلئے لڑنا ہے اور اپنے ہی غداروں سے لڑنا ہے،الیکشن کی آمد ہے اور پانی سے ترسے اس شہر میں شعبدہ باز چکنی چوپڑی باتیں کرتے گلی محلوں میں گھوم رہے ہیں جو کل آپکا ہی ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچیں گے اور اپنے مفادات کی جنگ لڑیں گے۔اب سوشل میڈیا پر بیٹھ کر گالیاں دینے اور فلاسفر بننے کا مشغلہ چھوڑ کر مرد میدان بنیں،ورنہ یہ لوگ دریا بیچنے کے بعد،اسکے کناروں پر قبضہ کرنے کے بعد ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل بھی کھا کر بحریہ ٹاون یا بیرون ملک جا بیٹھے گے۔

پانی تو ہماری قومی غیرت کا رونا روتے ہمارے ہاتھ سے نکل گیا،اب کم از کم اس چھت کو بچا لیں جو ہمارے پاس بچی ہے۔

[pullquote]بقول فیصل جمیل کشمیری کے[/pullquote]

یہ چھَتّر میں بیٹھے اسمبلی کے ممبر
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوق کمائی
متاثر ہے ان سے نہ ماجھا نہ گاما
بظاہر چٹانیں, حقیقت میں رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ اِن کو
عجب شے ہے وہ لذت چک چکائی
کمیشن ہے مطلوب و مقصود لیڈر
نہ سنگِ خوشامد, نہ پردہ کشائی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے