مولانا طارق جمیل کا کاروبار

عجیب کلچر کو فروغ دیا ہم نے اس ملک میں۔ جو ،جس کا کسی بھی وجہ سے حامی بنا ہے ، وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کے لیڈر، مذہبی پیشوا یا پیر صاحب کوئی غلطی بھی کرسکتےہیںاور جو کسی وجہ سے کسی کا مخالف ہے تو وہ مرنے مارنے پر تو آمادہ ہوجاتا ہے لیکن اس کی کسی خوبی کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔

حالانکہ ایک شخص غلطی یا بعض غلطیوں کا مرتکب ہو کر بھی نیک اور ولی ہوسکتا ہے۔ غلطیوں سے مبرا فقط انبیا کرام کی ذات ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم بندے کو فرشتہ یا شیطان بنانے پر مصر رہتے ہیں ۔کسی کو ہم نے فرشتہ اور کسی کو شیطان مشہور کررکھا ہے ۔حالانکہ انسان ، انسان ہے۔

مشہور مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب کے معاملے کو دیکھ لیجئے ۔ بعض لوگ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کا کوئی اقدام غلط بھی ہوسکتا ہے اور بعض لوگ اب ان کے کاروبار پر بھی معترض ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کی خوبیوں کا پلڑا ،ان کی خامیوں پر بہت بھاری ہے۔

دلوں کا حال اللہ جانتا ہے اور ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کے دل کے اندر جھانکنے کی کوشش کریں لیکن ظاہر دیکھ کر تعصبات سے بالاتر ہر شخص یہ گواہی دے گا کہ اس معاشرے میں مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کا وجود بڑی غنیمت ہے جو تعصبات سے بالاتر ہو کر توڑ کی بجائے جوڑ کا کام کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر تھے اور صاحبِ ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ چاہتے تو پرتعیش زندگی گزارسکتے تھے اور کوشش کرتے تو کسی بھی سیاسی جماعت میں اچھی سے اچھی پوزیشن حاصل کرسکتے تھے۔

پیسے کے حصول کو زندگی کا مقصد بناتے تو کھرب پتی بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اللہ کے دین کو سمجھنے اور سمجھانے کو اپنا مشن بنایا۔ ہم جیسوں سے ہزار درجے بہتر اس لئے ہیں کہ نماز روزے کی مکمل پابندی کے ساتھ دن رات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو عام کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔ لیکن مطلب یہ قطعاً نہیں کہ مولانا طارق جمیل فرشتہ ہیں یا ان کے ہر قدم اور ہر بات سے اتفاق کیا جائے۔

اس طالب علم نے خود کئی مرتبہ ان کے اقدام پر تنقید کی ہے اور کرتا رہوں گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے دل میں ان کی عزت میں کوئی کمی آئے یا پھر میں ان کی خوبیوں کی بھی تکذیب کروں۔ مثلاً عمران خان یا دیگر سیاسی لیڈروں کے ساتھ ان کے ایسے ربط ضبط پر تنقید کی جس کو وہ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں یا پھر جس کی وجہ سے تبلیغی جماعت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

مثلاً عمران خان کو انہوں نے جو خصوصی توجہ دی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اچھی نیت یا کسی بڑے مقصد کی خاطر ایسا کر رہے ہوں لیکن ان کے الفاظ یا اقدام کو پی ٹی آئی والے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اسی طرح میں ان کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا کہ عمران خان پہلے حکمران ہیں کہ جو ریاستِ مدینہ کا نام لیتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ نام ذوالفقار علی بھٹو بھی لیتے تھے اور انہوں نے آئین میں شریعت کو سپریم لا بھی قرار دلوایا۔ ضیا الحق نے تو پورے گیارہ سال اسلام اور ریاستِ مدینہ کے ذکر پر گزار دئیے ۔ اسلام اور شریعت کا نام سب پاکستانی حکمران لیتے رہے ہیں۔

ریاستِ مدینہ کے لفظ کی تکرار کی وجہ سے عمران خان کی سپورٹ ضروری ہے تو پھر مولانا طارق جمیل کو تن من دھن کے ساتھ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو سپورٹ کرنا چاہئے ، جن کے امرا اور کارکن اٹھتے بیٹھے شریعت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام لیتے ہیں ۔

میری ناقص رائے کے مطابق ریاستِ مدینہ کے قیام کے لئے جدوجہد جتنا عظیم کام ہے، اتنا ہی اس مبارک نام کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا قبیح فعل ہے اور صرف زبانی دعوے کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کی بجائے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ریاستِ مدینہ کا نام لینے والے کا عمل کیسا ہے اور اس نے اپنے گرد ٹیم کیسی جمع کر رکھی ہے؟ بطور حکمران عمران خان کے اقدامات، رویے اور ٹیم کو دیکھنے کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ میکاولی کے اصولوں کے مطابق وہ مذہب کا لفظ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

اسی طرح مولانا طارق جمیل حکمرانوں کے معاملے میں امربالمعروف تو کرتے ہیں لیکن نہی عن المنکر کے فریضے کی طرف کم ہی آتے ہیں لیکن مکرر عرض ہے کہ اس اختلاف کے باوجود میرے دل میں ان کی بڑی عزت ہے تاہم بعض لوگ ان کے حسد یا بغض میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اب ان کے کاروبار کو بھی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ حالانکہ ان کے اس فیصلے کی سب سے زیادہ ستائش دینی طبقات کی طرف سے ہونی چاہئے۔

سوال یہ ہے کہ ایک مبلغ دین کے لئے کاروبار کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ان پر تنقید کرتے وقت یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ تجارت پیغمبرانہ پیشہ ہے اور خود داعی اعظم ﷺنے بھی تجارت کی۔ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت تو مثال تھی۔ اس تناظر میں باقاعدہ کاروبار شروع کرکے مولانا طارق جمیل نے کون سا جرم کیا ہے؟

میرے نزدیک تو ہر عالم اور مبلغ کا فرض بنتا ہے کہ وہ دین کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے رزق حلال کا متوازی انتظام کرے تاکہ حق بیان کرنے میں کوئی مالی مجبوری حائل نہ ہو۔ اگر عالم، پیر، مذہبی لیڈر یا مبلغ نوکری یا کاروبار نہیں کرے گا تو لامحالہ وہ دین کے نام پر کمائی کرے گا جو ایک قبیح فعل کے زمرے میں آتا ہے۔ یوں میرے نزدیک کاروبار شروع کر کے مولانا طارق جمیل سنتِ نبویﷺ کو تازہ کر رہے ہیں۔

کچھ بے وقوفوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اپنے نام پر برانڈ کیوں لانچ کیا؟ اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ کل میں اگر کاروبار شروع کروں گا تو پہلے دیکھوں گا کہ میں کون سا کاروبار کرسکتا ہوں اور کون سا نہیں کرسکتا؟ پھر یہ دیکھوں گا کہ کون سا کاروبار ایسا ہو گا جس میں میں اپنی موجودہ مہارت یا پہچان سے استفادہ کرسکوں۔

اب اگر مولانا طارق جمیل کو اللہ نے نام اور عزت دی ہے تو اس کو حلال کاروبار کے لئے استعمال کرنے اور اس کی بنیاد پر گاہگ کو اپنی طرف مائل کرنے میں کیا قباحت ہے ؟ ہم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ دین کی آڑ لے کر محنت مزدوری کرنے کی بجائے صرف تقاریر پر اکتفا کرتے ہیں، وہ اس ملک کی معیشت پر بوجھ بھی ہوتے ہیں ۔ ٹیکس یا زکوۃ دینا تو درکنار ، بعض صاحبان غریبوں کے اس حق پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں جو زکوۃ اور صدقات کی صورت میں فقرا اور مساکین کاحق ہے۔

یوں اگر کوئی عالمِ دین اٹھ کر کاروبار کے ذریعے ملکی معیشت کو ترقی دینے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے ، چند سو لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنتا ہے، حکومت کے ٹیکس میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے، اپنے حصے سے ادا کی جانے والی زکوۃکی رقم بڑھاتا ہے تو اس پر تو اس کو سلام پیش کرنا چاہئے ، نہ کہ اس پر لعن طعن کی جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل کے کاروبار میں برکت ڈالے اور دیگر دینی اور علمی شخصیات کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین۔ ثم آمین۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے