الیکشن کمیشن کو بہت کچھ کرنا باقی ہے

این اے 75 پر الیکشن کمیشن جو فیصلہ دیا کیا وہ کافی تھا ؟

میرے نزدیک یہ فیصلہ صوتحال کو قابو میں رکھنے کا ایک طریقہ تھا، کیا اس کی سزا معطلی تھی یا کچھ اور !

اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان میں سب اپنا اپنا کردار اور حصہ ادا کرتے رہے ہیں ۔۔ ہر دور اور زمانے میں اس کے طریقہ کار میں تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے ، پہلے دور دراز کے پولنگ اسٹیشنز جہاں پر تمام جماعتوں کے امیدواروں پولنگ ایجنٹ کبھی نہیں دیکھا کہ ہو ایک پولنگ اسٹیشن پر ان کا نمایندہ موجود ہو ۔۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس حلقہ میں ٹھپے کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے ۔۔ اس ٹھپے لگانے سے بات کہیں کی کہیں جا نکلتی ہے کم و بیش پورے حلقے کی بیس فیصد سے زاید یہ پولنگ اسٹیشنز عملے اور ایجنٹ کے مرہون منت جیتے جاتے رہے ہیں ۔۔

ڈسکہ یا این اے 75 میں جو کام کیا گیا ، یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کا ہے ان افسران جن کا پورے ضلع کی انتظامیہ پر اثر ہے ان کو معطل کیا ہے ، بہت اچھا کام کیا اور ہوا ۔۔ کیا وہ 20 کردار جن کی نشاندہی کی گئی ان کے لیے کیا سزا تجویز کی گئی ، جن کے دستخط سے فیصلہ جاری ہوا تاحال ان کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔۔

جناب چیف صاحب آپ نے کام اچھا کیا ، ہر طرف سے واہ واہ کی صدائیں آرہی ہیں ، اس پر کسی کو خوش یا ناراض ہونےکی ضرورت نہیں ، کمیشن کا کام صاف شفاف انتخاب کرانا ہے وہ کیسے ہونگیں ، جو خواب آپ دیکھ رہے ہیں وہ سچ ہو سکتا ہے ۔۔
ہر ایک کاخواب ہوتا ہے بکس کے کھلنے کے بعد اس کا حق اس کو ملے ۔۔

صاف اور شفاف ، غیرجانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں پہلے دو نمبری کا راستہ بند یا ناکہ لگانا پڑے گا ۔۔ الیکشن کے قوانین اتنے سخت ہونے ہونے چاہیں کہ کوئی یہ سوچنے کی جرات نہ کرے ۔۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ لولے لنگڑے قوانین تو اس پر عمل کرنے اور کرانے کی کسی میں ہمت نہیں جنہوں نے قوانین پر عمل کرانا ہے وہ خود ایک لحاظ سے مصلحت پسندی کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔۔

ڈی سی یا ڈی پی او کو معطل کرنے سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا ان بیس کرداروں کو جب تک سزا نہیں دی جائے گی اور مثال قائم نہیں کیا جائے گا ، اس وقت تک آپ بھی منزل کی جانب پہلا قدم نہیں اٹھا پائیں گے ۔۔۔ ڈی سی یا ڈی پی او اب اس ضلع کی مشنری کا حصہ تو نہیں ہونگیں البتہ یہ اپنے تجربات کا فائدہ کسی اور شہر میں استعمال کریں گے اور نظام کو آلادہ بنانے کی کوششیں کرتے رہیں گے ۔۔

آپ نے ہمت کی ، فیصلہ لیا جو شاید پہلے نہ ہوا ہو اور کسی نے ایسا کرنے کا سوچا بھی نہ ہو ، آپ کی منزل ایک حلقہ نہیں ملک کے تمام حلقوں کے امین ہیں کہاں عام انتخابات بھی کرانے ہیں ایک حلقے کی بات ہوگئے اس پر بھی اپیل کی جا رہی ہے ، جو ان کا حق ہے ۔۔

الیکشن کمیشن جہاں جعلی ووٹ بھگتانے پر سزا دے سکتی ہے ، اس میں کیا ممانعت ہے جو نتائج میں تبدیلی کرے وہ کسی کی ایما پر بھی کرے اس کے لیے بھی سزا تو بنتی ہے نا ! الیکشن کمیشن کا عملہ جو مستعار لیا جاتا ہے اس کے لیے بھی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے ، ان سے بھی کوئی حلف نامہ لے اور دباو مین لائے بغیر تمام صوتحال کی معلومات اکٹھی کی جائے ۔۔ جب تک ان کو سزا نہیں ہوگی کام آگے نہیں بڑھے گا ۔۔

الیکشن کمیشن یہ بھی قوم کو بتائے کہ اس ایک حلقہ پر جہاں دوبارہ پولنگ کی بات کی گئی ہے کتنا خرچہ آیا اور دوبارہ کرانے کے لیے کم و بیش وہی خرچہ آئے گا ۔۔

سایسی جماعتوں کی جانب سے اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے وہ جو بھی اصلاحات کریں ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کمیشن اپنے اختیارات سے دستبردار نظر آتی ہے ، ان کی جانب سے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں آتی البتہ ایک ضابطہ اخلاق آتا ہے جو کو بھی وہی جماعتیں ہوا میں اڑا دیتی ہیں ۔۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کمیشن کی جانب سے ایسی تجاویز آنی جس میں الیکشن لڑنا ایک مشکل ٹاسک ہو، اس میں ایسی ایسی سزائیں تجویز کی جائیں کہ لڑنے والا امیدوار ایک مرتبہ ضرور سوچے کہ اب کی بار کوئی گڑبڑ کی تو گھر نہیں جیل جا سکتا ہوں ۔۔ ہم نے قومی سطح پر قانون کی خلاف ورزی کو اپنا اولین فرض سمجھ رکھا ہے ۔۔ اصلاحات ایک آزاد اور خودمختار ہونے کے ناطے ان کی جانب سے آنے چاہیں نہ کہ ان کی جانب سے اصلاحات کی جائیں جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینا ہے ۔۔ کمیشن بااختیار ہونے کا ثبوت دے ، قوانین بنائے اور جامہ پہنانے کے لیے وزارت قانون کے سپرد کرے اس کی روشنی میں قوانین بنائے جائیں ۔۔ اس سلسلے میں کمیشن یہ سب کرنے سے پہلے عوام اور سیاسی جماعتون سے رائے لے اور صاف اور شفاف الیکشن کے لیے ان سے تجاویز اور رائے مانگے اس کو دیکھا جائے صاف اور شفاف الیکشن کی منزل کی طرف لے جانے والی تجاویز کو شامل کیا جائے ،الیکشن کمیشن کا فیصلہ اپنی جگہ پریذائڈنگ افسران کو زیادہ بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور تمام کمی اور کوتاہیوں کا ذمہ دار اس کو ٹھہرایا جائے کیونکہ وہی اس پولنگ اسٹیشن کا کسٹوڈین ہے ۔۔

ایک فیصلہ آیا اس کے خلاف اپیل کی جا رہی ہے جو ان کا حق ہے ، مگر ایک ادارے کے فیصلے کو اگر حقیقی معنوں میں وہ آزاد ہے تو اس کے فیصلے کو صدق دل سے قبول کرنا چاہیے ، نظر ثانی کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ بھی ایک ادارہ ہے جس کا فیصلہ سر آنکھوں پر ۔۔ اگر اس طرح چلنے کی ٹھان لیں گے تو مشکلات کم اور منزل آسان ہو جائے گی ۔۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد ان کو عوام کی نظروں میں اپنی گری ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے کئی سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے جس کی روشنی صاف، شفاف اور آزادانہ انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے