پاکستان اور بھارت کا امن

برصغیر تاریخ کے اعتبار سے ہمیشہ دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے فاتحین نے اس خطے کو عبور کرتے ہوئے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ رام چندر، کرشن مہاراج ،گوتم بدھ ،بال میک کے حوالے سے معروف یہ خطہ زمانہ قدیم سے ہی حملہ آوروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ آریائی ، افغان، تاتاری، یونانی، ترک، ولندیزی، پرتگالی اور انگریزسب نے اس خطے پر اپنا حق گردانا۔شمشیر ثناء اول کی بات برصغیر کے تناظر میں درست معلوم ہوتی ہے۔ اس خطے سے میر عرب کو اس نسیم کی ٹھنڈک محسوس ہوئی جس نے اسلام کی حقانیت کا بول بالامسلمانوں کے عروج کی صورت میں فراہم کیا۔بڑے بڑے اولیا ءاور بزرگ اس خطے میںپیدا ہوئے۔ حضرت علی ہجویری، حضرت بہاءالدین ذکریا، سید جلال الدین بخاری، حضرت عثمان بروندی، حضرت معین الدین چشتی، حضرت بابا فرید، حضرت مجددالف ثانی اور اسی سلسلے کے گوہر ذی قدر جن کی موجودگی سے ظلمت کدہ ہند میں انسانیت نے فروغ پایا۔ اکبر جیسے لوگ بھی اس خطے نے پیدا کئے جنہوں نے تہذیبوں کے ملاپ کیلئے نئے مذہب کی بنیاد ڈالی۔ مگر یہ سب ماضی کی دلکش یادیں ہیں۔تاریخ کا اس سے بڑا امتحان کیا ہوگا کہ آج انسان تو انسان اس تاریخی خطے میں پانی نے بھی مذہب اختیار کرلیا ہے۔ مسلمان پانی یا پھر ہندو پانی۔ دوسری طرف یہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم جدوجہد تھی کہ رب ذوالجلال کی عظمت کے صدقے اسلامیان ہند کو پاکستان جیسا خوبصورت ملک عطا ہوا۔ اسی پاکستان نے مسلمانوں کو ایک خودمختار شناخت دی۔ فرقہ ورانہ سوچ اپنی جگہ کہ موہن داس کرم چند گاندھی نے بھی اعتراض کیا کہ اپنا مذہب بدلنے والے کیسے ایک نئے ملک کا تقاضا کرسکتے ہیں۔ صوامی شردانند کی جانب سے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کی گئیں کہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بھارت اور پاکستان کی تاریخ کے کشیدہ ترین تعلقات اور پھر انہی حالات میں بھارتی وزیرخارجہ کا پاکستان تشریف لانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت سمیت تمام ممالک کی نمائندگی ہونا پاکستان کی جمہوری حکومت کے دیرینہ موقف کی جیت ہے کہ خطے کے مسائل کا حل مذاکرات اور امن سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ گزشتہ اڑسٹھ سالوں میں اس خطے نے جنگ کی غارت گری ،دہشت گردی اور بد اعتمادی سبھی کچھ دیکھا۔بحرانوں کا سامنا کیا،آمروں کے سامنے ڈٹا رہا مگر اپنے وجود کو قائم رکھا۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد خوش آئندہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں جو ایک تناؤ کی سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے پیرس میں ہونے والی مختصر ملاقات کے بعد حالات بہتری کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی مدلل گفتگو نے بھارتی وزیراعظم کو مجبور کیا کہ معاملات بات چیت سے آگے بڑھائے جائیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا حالیہ دورہ پاک بھارت تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔کیونکہ بھارت کی طرف سے اپنی اہم شخصیت کو پاکستان بھیجنا دو باتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ایک تو بھارت نے برف پگھلانے میں پہل کی ہے جبکہ دوسری طرف اسلام آباد آکر پاکستان کے موقف کی بھی توثیق کی ہے کہ بھارت کو شدت پسندانہ رویئے کو ترک کرکے لچک کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ بھارت میں مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارتی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی تھی۔ مودی پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھنے والی سوچ کے نمائندے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ مگر بھارت سمیت دنیا بھر سے جس انداز میں بھارتی سرکار کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اس نے نریندر مودی جیسے شخص کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ خطے کا امن پاکستان اور بھارت کے بہتر تعلقات سے ہی جڑا ہے۔ یہ تو صرف دونوں ممالک کی سرکار کی بات ہوئی۔ اگر سرحد کے دونوں اطراف رہنے والی جنتا کے رویوں اور سوچ کا جائزہ لیا جائے تو معاملات یکسر مختلف ہیں۔ دونوں ممالک کے عام آدمی کی ایک ہی سوچ ہے کہ مذہب کا فرق ہونے کے باوجود ہمسائے ہونے کے ناطے بہتر تعلقات ہونے چاہئیں۔ صاحب الرائے یہ محسوس کرتے رہے کہ ہماری بقا امن میں ہے جنگ میں نہیں۔ کیونکہ جنگ ہمیشہ امن پر ہی اختتام پذیر ہوتی ہے۔دونوں ہمسایہ ممالک کے لوگ جن کا سیاست یا راج نیتی سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی رشتہ۔ جو روٹی کے چکر سے ہی فراغت پاتے ہیں اور نہ ہی مکتی پرابت کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ’جو کرے کرتار‘ بابا نانک نے کیا خوبصورت بات کی کہ نانکھ دکھیا سب سنسار۔ یہ ہماری تہذیب کا حصہ رہا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں اور ہمارا مذہب دین کامل اسلام بھی اسی کا درس دیتا ہے۔مگر دوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ سفر بہت طویل معلوم ہوتا ہے۔بھارت کی موجودہ حکومت کی طرف سے گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مودی سرکار نے سیکولر بھارت کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے افراد سے بھارت میں جو کچھ کیا گیا اس پر قومی و بین الاقوامی میڈیا بہت کچھ لکھ چکا ہے۔لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پسندی مودی سرکار کی نظریں جھکانے کے لئے کافی ہے۔پاکستان میں موجود جمہوری حکومت کی ہمیشہ ترجیح رہی کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔جب آپ ایل او سی پر گولیوں کی بوچھاڑ کریں گے تو کیسے ایک منتخب وزیراعظم مذاکرات کی بات کرسکتا ہے۔حتی کہ موجودہ حالات میں آپ نے کھیل کو بھی نہیں بخشا۔کبڈی کی ٹیم ہو، ہاکی گراؤنڈ میں کھلاڑیوں سے بدتمیزی یا پھر کرکٹ سیریز کا انعقاد۔بھارت کی طرف سے افسوسناک رویہ سامنے آیا۔ مگر آج ہمیں مثبت اقدام کا بہتر انداز میں جواب دینا ہوگا ۔بھارتی وزیرخارجہ کا دورہ صرف ہارٹ آف ایشیاء تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ امن کا سفر انتہائی طویل، نامساعد حالات میں دشوار محسوس ہوتا ہے،مگر سرحد کے دونوں طرف بسنے والے مثبت سوچ کے حامل اور مہا پرشوںکی ذمہ داری ہے کہ اس نئے سلسلے کودو خوشبودار پھولوں کی طرح ایک لڑی میں پروئیں جنہوں نے درخت کی ایک ہی شاخ سے ایک ہی دن جنم لیا۔
سرحد بھی بے شک ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔لیکن اس میں ایسے ہوا دار سوراخ اور طاقچےضرور رہنے چاہئیں کہ ہم عید ،شب برات ،دیوالی پر حلوے مٹھائی یا کسی سوغات کا تبادلہ کرسکیں۔محبت اور امن کی یہ ٹھنڈی ہوا پاکستان کی طرف سے سرحد پار جارہی ہے ۔امن اور صلح کے پیغام کے ساتھ شاید یہ باد نسیم بارود اور بداعتمادی کے کثیف ماحول کو اڑا دےکہ مطلع صاف ہوجائے۔ اعتماد کا ایسا سورج طلوع ہو کہ جس کی کرنیں دونوں اطراف اجالا بکھیر دیں۔محبت دوستی اور سکھ چین کے ولیوں ،دریشوں کے اس خطے کو امن کی سوغات نصیب ہوجائے ۔بھارت او ر پاکستان کو خطے میں دائمی استحکام کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں ممالک کے وزراعظم کی پیرس میں ہونے والی ملاقات سے جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسے آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
جاتے جاتے ایک شعر قارئین کے گو ش گزار کرتا چلوں
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کے اترجائے تیرے دل میں میری بات

بشکریہ روزنامہ ‘جنگ’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے