حکومت چاہتی عوام جمہوریت کو شیطانی نظام سمجھنے لگیں : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

صُبح گیارہ بجکر دس منٹ پر سُپریم کورٹ پہنچا تو سیدھا پریس روم چلا گیا۔ وہاں ساتھی صحافیوں سے گپ شپ کے بعد گیارہ بجکر پچیس منٹ پر کورٹ روم نمبر تین آگیا۔ آج چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود پر مُشتمل دو رُکنی بینچ کے سامنے مُقرر تھی۔ چیف جسٹس کے لیے مُختص کورٹ روم نمبر ون کے مُقابلے میں نسبتاً چھوٹے کمرہِ عدالت کا جائزہ لینا شروع کیا تو تیس سائلین اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم علی خان سمیت سولہ وُکلا کمرہِ عدالت میں موجود تھے۔

تھوڑی ہی دیر میں کورٹ لگی کی آواز آئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کمرہِ عدالت میں آگیئے۔ پاکستان میں تیسری لہر آنے کے بعد کورونا ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے دونوں معزز ججز کی نشستوں میں قریباً چھ فُٹ کا فاصلہ رکھا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چارکول گرے رنگ کا این ناینٹی فائو ماسک جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود نے نیلے رنگ کا سرجیکل فیس ماسک پہن رکھا تھا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کورونا کی وجہ سے قرنطینہ اختیار کررکھا تھا تو اُنکی طرف سے معاملہ موخر کرنے کی درخواست آئی ہوئی تھی لیکن دو رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دلائل کی ہدایت دی تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ستائیس جنوری کو مُشترکہ مُفادات کونسل میں مردم شُماری پر صوبوں کے تحفظات کے بعد معاملہ کو چوبیس مارچ تک موخر کردیا گیا تھا اور اب چوبیس مارچ کو معاملہ ٹیک اپ ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ یہ فائل کے اوپر سیکریٹ کے الفاظ کیوں لکھے گیے ہیں؟ ہم نے اُنیس سو سینتالیس میں برطانوی راج سے آذادی کرلی تھی اب یہاں عوام کی جمہوری حکومت ہوتی ہے اور عوام کو حق ہے کہ اُنہیں معلوم ہو مُشترکہ مُفادات کونسل میں کیا بات چیت ہوئی۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ لفظ خُفیہ سے بُرا تاثر جاتا ہے جیسے کُچھ غلط ہورہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اجلاس کیوں موخر ہوا تھا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ وجہ نہیں لِکھی ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اتنے اہم معاملہ پر اگلے اجلاس میں اتنا لمبا وقفہ دینے کا مطلب کیا اہلیت کا فُقدان ہے یا طرزِ حُکمرانی میں کمزوری اِس کی وجہ ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مُشترکہ مُفادات کونسل پورے مُلک کو مُتحد رکھنے کا فورم ہے اور آپ سے وہاں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو رہا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ پاکستان یوں چلایا جارہا ہے۔ اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے پوچھا کہ کیا مُشترکہ مُفادات کونسل میں فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں یا اکثریتی بُنیاد پر؟ عامر رحمان نے جواب دیا اکثریت کی بُنیاد پر۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے طنز کیا کہ سندھ کے علاوہ وفاق اور تمام صوبوں میں آپ کی حکومت ہے اور سندھ کو تو آپ ساتھ لے کر چلتے نہیں اور نہ آپ کو فرق پڑتا ہے تو فیصلہ کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی کہ اتنے طویل عرصہ کے لیے اجلاس موخر کرنا دراصل عوام اور عدالت کی توہین ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تجویز دی کہ مُلک حالتِ جنگ میں تو نہیں چلا گیا ناں، تو آپ وڈیو لِنک پر بھی مُشترکہ مُفادات کونسل کا اجلاس بُلا کر معاملہ نمٹا سکتے ہیں۔ اِس دوران کمرہِ عدالت میں بینچ کے سامنے بیٹھے عملے کے ایک رُکن نے سکائپ اور زوم کے ذریعے کانفرنس کال کا لُقمہ دیا تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا کہ مِسٹر عامر رحمان آپ اِن سے مشورہ کرلیں یہ آپ کو بتا دیں گے بہت آسان ہے وڈیو لِنک پر اجلاس بُلانا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اپنی نشست کی طرف جانے لگے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُن سے پوچھا کہ آپ تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ جی بالکل۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کی بات نوٹ کرلی ہے۔اِس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل افنان کُنڈی کی باری آئی تو وہ وُکلا کے دلائل کے لیے مُختص روسٹرم پر آگیے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بینچ کے سامنے انکشاف کیا کہ پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن اور سُپریم کورٹ کے علم میں لائے بغیر لوکل گورنمنٹ قانون پر ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کِدھر ہیں یہ تو بہت سنگین الزام ہے۔ اِسی دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان روسٹرم کمرہِ عدالت میں پہنچے اور سیدھے روسٹرم پر آگیے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان نے بولنے کی کوشش کی تو پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے الفاظ ادا نہ کرپائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُنہیں ہاتھ سے تحمل کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لگتا ہے باہر سے بھاگتے ہوئے آرہے ہیں پہلے سانس بحال کرلیں۔ قاسم علی چوہان نے جواب دیا کہ سر سُپریم کورٹ میں کمرہِ عدالت تک پہنچنے کے لیے بہت سی سیڑھیاں چڑھ کر آ رہا ہوں تو سانس پھول گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے آرڈیننس کو خُفیہ رکھا؟ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ مقصد خُفیہ رکھنا نہیں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ عدالت اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کیے بغیر قانون کیسے تبدیل کرسکتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم علی خان نے بینچ بتایا کہ الیکشن کمیشن کو جب آرڈینینس سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ہماری زندگی آسان کردی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم آرڈیننس کے میرٹ پر نہیں جائیں گے ہوسکتا ہے قانون اچھا ہو لیکن آپ الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لیتے اُنکی تجاویز کو سُنتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ تاثر درست نہیں ہے اور ہم نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ریکارڈ میں دکھائیں کب بتایا تھا تو قاسم علی چوہان خاموش ہوگیے۔ اِس دوران قریب ہی کھڑے الیکشن کمیشن کے ڈی جی لا نے مُداخلت کی کہ سر ریکارڈ میں کہیں موجود نہیں کہ پنجاب حکومت نے ہمیں بتایا ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا کہ مسٹر چوہان ایک تو آپ نے غلط کام کیا ہے اور اوپر سے ڈٹ بھی گیے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئینی باڈی الیکشن کمیشن آپ پر سنگین الزام لگا رہی ہے اور آپ ایک دوسرے سے کُھس پُھس کرکے غلط بیانی کررہے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم علی چوہان نے اب اپنی غلطی مانتے ہوئے انکشاف کیا کہ اُنہیں بھی نہیں پتہ تھا کہ پنجاب حکومت کوئی آرڈیننس لارہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نہ ہمیں پتہ تھا نہ آپ کو اور نہ الیکشن کمیشن کو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مزید کہنا تھا کہ آپ داغدار معاملات کو ہم سے مت چُھپائیں اور ہم اُمید کررہے تھے کہ آپ غلطی مان کر معافی مانگیں گے۔ اِس دوران جسٹس سردار طارق مسعود پیلے رنگ کی سی ایم ایز کا مطالعہ جاری رکھے ہوئے تھے اور کبھی کبھی روسٹرم پر موجود ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب پر نظریں جما لیتے تھے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان پر جرح جاری رکھے ہوئے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے سوال پوچھا کہ آرڈیننس کِس نے جاری کیا؟ قاسم علی چوہان نے جواب دیا کہ گورنر پنجاب۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ چار مئی دو ہزار اُنیس کو پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی نظام کا ایک قانون پاس کیا اور پھر اب گورنر پنجاب ایک آرڈیننس لے آئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گورنر پنجاب کا نام پوچھا تو اے جی پنجاب نے چوہدری سرور بتایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اُٹھایا کہ کیا گورنر پنجاب چوہدری سرور اکیلے پنجاب اسمبلی کے تین سو چوہتر ممبران سے زیادہ عقل اور حِکمت رکھتے ہیں؟ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ آئینِ پاکستان سے پڑھ کر بتائیں کہ کیا گورنر عوام کا مُنتخب نمائیندہ ہوتا ہے؟ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم علی چوہان کے چہرے پر گھبراہٹ واضح نظر آرہی تھی اور انہوں نے جواب دیا کہ سر گورنر کو وزیرِ اعظم کی تجویز پر صدر تعینات کرتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا گورنر کی خواہش مُنتخب نمائیندوں کی حکمت پر غالب آجائے گی؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُنیس سو تہتر کا آین تو گورنر کے اختیارات کو محدود کرتا ہے لیکن کیا ہم واپس برطانوی کالونی بن رہے ہیں جہاں باہر سے آکر ہم پر لارڈ صاحب حکومت کریں گے؟ نسبتاً نوجوان ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان نے دھیمے سے کہا کہ سر تب وایسرائے حکومت کرنے آتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ آرڈیننس آنے سے کتنے دِن پہلے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم علی چوہان نے فائل کھول کر پڑھ کر بتایا کہ سر آرڈیننس سے دو دِن پہلے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے آبزرویشن دی کہ اِس کا مطلب آپ آرڈیننس لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور پنجاب اسمبلی کا سیشن ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر پی ٹی آیی کی پنجاب حکومت کے بارے میں سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اِسکا مطلب ہے کہ آرڈیننس لانے کا طریقہ کار بدنیتی پر مبنی تھا اور آپ آئینِ پاکستان سے کھیل رہے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان نے نفی میں سر ہلایا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ کیا یہ ستر صفحات کا آرڈیننس ایک دِن میں لِکھا گیا تھا؟ قاسم علی چوہان نے جواب دیا کہ نہیں سر اِس پر غور ہوا، پڑھا گیا، مُشاورت ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس میں کہاں لِکھا ہے کہ گورنر پنجاب اِس آرڈیننس سے مُطمعن ہیں؟ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ سر انہوں نے قرار دیا کہ اِن حالات میں آرڈیننس سے موزوں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسے کیا حالات تھے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کا مذاق مت بنایں ہم اِس کے تحفظ کے لیے ہی بیٹھے ہیں۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اِس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری سرور کے بارے میں سخت ریمارکس دیئے کہ ایک شخص کے پاس اتنے اختیارات ہوتے ہیں تو اُس کو طاقت کا اتنا نشہ ہوتا ہے اور آپ اِس کے لیے بیرونِ مُلک سے آکر گورنر لگ جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے سوال پوچھا کہ کیا گورنر کو باہر سے درآمد کیا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور اسکول کی تعلیم یہیں حاصل کی جِس کے بعد وہ برطانیہ چلے گیے اور وہاں سیاست کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیا باہر سے جو پاکستان میں کام کرنے آئے گا وہ آئین کو روند ڈالے گا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ بالفرض کوئی اچھا قانون بھی ہو تو کیا اسمبلی کو بائی پاس کردیا جائے گا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کی تمام تیاری کرلی تو آپ آرڈیننس لے آئے جِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ الیکشن نہیں ہونے دینا چاہتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کسی سیاسی جماعت نہیں وفاق کا نمائیندہ ہوتا ہے وہ نہ تو گورنر ہاؤس میں سیاست کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی بیان دے سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم علی خان کو ہدایت کی کہ گورنر پنجاب کو بتائے کہ وہ گورنر ہاؤس میں سیاسی مُلاقاتیں کرکے آئینِ پاکستان اور اپنے حلف سے کھیل رہے ہیں اور کم از کم برطانیہ میں ملکہ برطانیہ سے ہی سیکھ آتے کہ خود کو کیسے سیاست سے بالاتر اور غیر جانبدار رکھنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی باڈی ہے اور آپ کا کام الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے لیکن آپ یوں کام کررہے ہیں جیسے عوام پر حاکم آپ ہیں۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اِس موقع پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو قائد اعظم مُحمد علی جناح کا چٹاگانگ میں بیوروکریٹس سے خطاب کا کُچھ حصہ بھی سُنایا کہ آپ کسی سیاسی جماعت کے نہیں عوام کے مُلازم ہیں اور آپ نے عوام کی خدمت کرنی ہے۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کا آرڈیننس آرٹیکل ایک سو اٹھایس پر پورا اُترتا ہے؟ قاسم علی چوہان نے جواب دیا کہ ہمارا مقصد الیکشن کمیشن کا کام آسان کرنا اور اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا بلدیاتی نظام مُتعارف کروانا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ یہ آپ کِس سیاسی منشور کی بات کررہے ہیں؟ منشور سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے، حکومت کا منشور آئینِ پاکستان ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم علی خان نے جواب دیا کہ سر مُجھے یہی ہدایت ملی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ میں نے اپنے عدالتی کیریئر میں پہلی بار دیکھا ہے کہ ایک ایڈوکیٹ جنرل جو عدالت کا معاون ہوتا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کی نمائیندگی کررہا ہے اور منشور بیان کررہا ہے۔

اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان کو منشور پڑھنے کی دعوت دی۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم علی چوہان نے پی ٹی آئی کا منشور پڑھنا شروع کیا جِس میں لِکھا تھا کہ ترقیاتی کاموں کے ذریعے حلقوں پر ایم پی ایز اور ایم این ایز کی عملداری ہوتی ہے جو افسرشاہی کے ذریعے عوام پر حاکم بن جاتے ہیں اور تحریکِ انصاف حکومت میں آکر ترقیاتی اسکیمیں بلدیاتی نظام کے ذریعے مُکمل کرے گی جس میں اختیارات کی نچلی سطح پر مُنتقلی کے ذریعے عوام کو شراکت دار بنایا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب قاسم علی چوہان کو برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لیکن آپ کی حکومت نے آکر کام بالکل اپنے منشور کے خلاف کیا اور بلدیاتی اداروں کا قتل کرکے بیوروکریسی کے ذریعے حُکمرانی شروع کردی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آج دو سال گزرنے کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت نے این این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے نظام کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا اِس موقع پر لہجہ تلخ ہوگیا اور انہوں نے مثال دی کہ اِس مُلک میں ایک ڈکٹیٹر بھی آیا تھا کہ ہم اختیارات کو نچلی سطح پر مُنتقل کریں گے اور پھر جو پودا لگایا روز شام کو اُس کو زمین سے اُکھاڑ کر دیکھتے تھے کہ جڑ کتنی گہری چلی گئی ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ نے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کو اُنکے حقوق سے محروم کرکے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کا کام مُشکل بنا کر ثابت کررہی ہے کہ آپ بلدیاتی نظام کے خلاف کام کررہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی نظام کے خلاف ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرکے دراصل جمہوریت اور پارلیمانی جمہوری نظام کے خلاف کام کررہی ہے کیونکہ بلدیاتی نظام سے ہی لوگ مُنتخب ہوتے ہیں اور ووٹ مانگتے ہیں کہ ہم آپ کی نالی بنوا دیں گے اور آپ کے پانی کا مسئلہ حل کردیں گے یوں وہ پہلے کونسلربنتے اور پھر رُکنِ اسمبلی اور پھر وزیر۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام دراصل پارلیمانی نظام کی نرسری ہے جہاں سے عوامی نمائیندے سیکھ کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔

اِس کے بعد بہاولپور سے بلدیاتی نظام کو تحلیل کرنے کے خلاف پیٹشنر اسد علی کے وکیل نواز علی پیرزادہ روسٹرم پر آئے انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود پر مُشتمل دو رُکنی بینچ کو بتایا کہ اُنکی درخواست پر پہلے رجسٹرار نے اعتراض لگا دیا تھا جو بعد میں چیمبر سماعت سے ختم ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے تمام نوٹس لیے کہ کب اعتراض لگا، کب چیمبر سماعت ہوئی، کب اعتراض ختم ہوا اور پھر ساتھی جج جسٹس طارق مسعود سے مشورہ کرنے لگے۔ اِس کے بعد دو رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سیدھے ہوئے اور انہوں نے دوبارہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ آپ کیوں آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں؟ آئین کے تحت بلدیاتی انتخابات ایک سال میں ہونے چاہیے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر انتہائی اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت عوام کے ساتھ ایسا کیوں کررہی ہے؟ کیا پنجاب حکومت اپنی عوام سے نفرت کرتی ہے؟ یا کوشش کررہے ہیں کہ عوام جمہوریت کو ایک شیطانی نظام مان لیں اور آپ پنجاب کے عوام کو اُن کے حقوق سے ویسے ہی محروم رکھ رہے ہیں جیسے مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیئے کہ آئین سے کھیلنا مُلک تباہ کردیتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسے تو بیرونِ مُلک سے ہم پر حکومت کرنے والوں نے بھی نظام نہیں چلایا تھا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ یوں آئین اور پاکستان کو تباہ کیا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مشرقی پاکستان کے سانحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم دُنیا کا سب سے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مُسلمان مُلک تھے لیکن آج بھارت میں ہم سے زیادہ مُسلمان آباد ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئےکہ طاقت اور اختیار کی بھوک میں پنجاب کے ساتھ یہ سب کیا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل افنان کُنڈی سے سوال پوچھا کہ اگر بلدیاتی انتخابات کروانے پڑیں تو آپ تیار ہیں؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم تیار ہیں یہ نئی حلقہ بندیاں کردیں۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ساتھی جج جسٹس سردار طارق مسعود سے مشورہ کرنے کے بعد آرڈر لِکھوانا شروع کردیا اور لِکھوایا کہ پنجاب کے چھپن ہزار بلدیاتی نمائیندوں کو ایک جنبشِ قلم سے گھر بھیج کر صوبہ بیوروکریسی کے حوالے کردیا گیا۔ بلدیاتی نظام تحلیل کرکے ریاست کو کمزور کیا گیا۔ آرڈر میں مزید لکھوایا کہ مُنتخب بلدیاتی نمائیندوں کو گھر بھیج کر نئے انتخابات نہ کروانا پنجاب حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے اور عوام پر اُنکے مُنتخب نمائیندوں سے حکومت نہ کروا کر عوام کو اُن کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حُکمنامہ میں لِکھوایا کہ آرڈیننس لانے کے لیے پنجاب اسمبلی کا سیشن مُوخر ہونے کا انتظار کرنا بدنتی اور قانون کا بدنیتی پر مبنی استعمال ظاہر کرتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھوایا کہ تین سو چوہتر مُنتخب ممبران کے ہوتے ہوئے آرڈیننس جاری کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ایک غیر مُنتخب گورنر اسمبلی ممبران کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے نمائیندہ کے طور پر کام کررہا ہے اور گورنر کے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی مُلاقاتیں بھی کررہے ہیں۔

اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہاولپور کے بلدیاتی نمائیندوں اور ناظم کے وکیل نوازش علی پیرزادہ کے لیے اُن کی استدعا دوبارہ تین رُکنی بینچ کے سامنے مُقرر کرنے کا آرڈر لِکھواتے ہوئے رجسٹرار سُپریم کورٹ خواجہ داود کے طریقہ کار پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئےلِکھوایا کہ جیسے وہ پیٹشنز کی فائل سماعت کے لیے مُقرر کررہے وہ درست نہیں اور اِس کیس کی فائل کو فوری چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گُلزار احمد کو بھجوائی جائے جو اِس کو اپنے سامنے یا جسٹس مُشیر عالم پر مُشتمل تین رُکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مُقرر کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے